التماس سورہ فاتحہ برائے والد بزرگوار،جملہ مومنین و مومنات،شھداۓ ملت جعفریہ ، خصوصاً وہ جن کا کوئی سورہ فاتحہ پڑھنے والا نہ ہو۔ یہاں کلک کریں

Search Suggest

بعض مواعظ پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ

بعض مواعظ پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ

 بعض مواعظ پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ

بروایت وانی ابوالاسود وئلی سے مروی ہے کہ میں ایک مرتبہ ربذہ میں ابو ذر غفار کی ملاقات کے لئے گیا تو مجھے انہوں نے ایک حدیث سنائی کہ میں ایک دن مسجد نبوی میں پہنچا اس وقت حضرت پیغمبرؐ اور حضرت علی علیہ السلام کے علاوہ اور کوئی آدمی موجود نہ تھا پس میں فرصت کو غنیمت سمجھا اور عرض کی حضورؐ! آپ مجھے کچھ نصیحت فرمائیں آپ نے فرمایا یا اباذر انک منا اھل البیت یعنی اے ابوذر تو ہمارے گھر کا آدمی ہے میں تجھے ایک جامع وصیت کرتا ہوں اس کو یاد رکھنا۔

اے ابوذر اللہ کی اسطرح عبادت کرو کہ گویا تم اسے دیکھ رہے ہو کیونکہ اگر تم نہیں دیکھتے تو وہ یقیناً تمہیں دیکھ رہا ہے اور یہ جان لو کہ پہلی عبادت اس کی معرفت ہے اللہ ہر شیے سے پہلے ہے اور اس سے پہلے کوئی شی نہیں ہے وہ اکیلا اس کا کوئی ثانی نہیں اور وہ ہمیشہ رہے گا اس کی کوئی انتہائی نہیں  ، آسمانوں اور زمینوں اور ان کے اندر اور ان کے درمیان کی ہر چیز کا موجد و خالق ہے وہ لطیف و خبیر ہے اور علی کل شئی قدیر ہے اس کے بعد میرے اوپر ایمان رکھو اور یہ اقرار کو کہ اللہ نے مجھے تمام مخلوق کی طرف رسول بنا کر بھیجا ہے ، میں بشیر و نذیر ہوں اور اللہ کے اذن سے اس کی طرف دعوت دینے والا ہوں اور سراج منیر ہوں اس کے بعد میرے اہلبیت سے ولا رکھو جن سے خدا نے رجس کو دور رکھا اور ان کو پاک رکھا جس طرح پاک رکھنے کا حق ہے۔ اے ابوذر میری اہلبیت کی مثال میری امت میں کشتی نوح کی طرح ہے جو اس پر سوار ہو گا نجات پائے گا اور جو پیچھے رہے گا غرق ہو گا اور ان کی مثال بنی اسرائیل کے باب خطہ کی سی ہے جو داخل ہو گا وہ با امن ہو گا ۔

اے ابوذر ! جوانی تندرستی، خوشحالی، فراغت اور زندگی کی غنیمت سمجھو۔ اے ابوذر! آج ہو سکنے والے کام کو کل تک ٹالنے سے بچو کیونکہ آج کا دن تمہارا ہے اور کل کا یقین نہیں پس اگر کل کا دن نصیب ہو گیا تو اس کو بھی آج کی طرح گزار لو گے اور اگر بالفرض کل کا دن نصیب نہ ہوا تو آج کی سستی اور کوتاہی پریشانی سے بچ جاو گے اے ابوزر ! کئی لوگ آنے والے دن کی انتظار میں وقت کو ضائع کر بیٹھتے ہیں اور وہ ان کو نصیب نہیں ہوتا ۔ اے ابوذر ! دنیا میں اپنے آپ کو مسافر سمجھو اے ابوذر! صبح کے وقت شام کی امنگ نہ رکھو اور شام کے وقت اپنے نفس کو صبح کی امید نہ دلاؤ تجھے کیا معلوم کہ کل تجھے کس نام سے پکارا جائے گا(زندہ یا مردہ) اے ابوذر! درہم و دینار پر بخل کرنے سے عمر کے خرچ کرنے پر بخل زیاد کرو (یعنی اس کو ضائع مت کرو) آپ نے فرمایا اے ابو ذر ! بروز محشر قدرو منزلت کے لحاظ سے بد ترین انسان وہ عالم ہو گا جس کے علم سے کسی کو فائدہ حاصل نہ ہو۔ اے ابوذر! جو شکص علم کو اس نیت سے حاصل کرے کہ لوگوں کو اپنا گرویدہ بنا لے تو ایسا شخص جنت کی بو نہ پائے گا اے ابوذر! اگر تجھ سے کوئی ایسا مسئلہ پوچھا جائے جس کو تو نہ جانتا ہو تو صاف کہہ دینا کہ میں نہیں جانتا تا کہ اس کے انجام بد سے بچ جاؤ اور جس مسئلہ کا علم نہ ہو اس میں فتویٰ نہ دینا تا کہ قیامت کے عذاب سے نجات پاؤ ۔ اے ابوذر! کچھ جنتی لوگ جہنم والوں سے ازراہ عبرت پوچھیں گے کہ ہم تو تہمارے وعظ و نصیحت پر عمل کر کے جنت میں پہنچ گئے ہیں تم خود جہنم میں کیسے آ گئے ہو پس وہ جواب دیں گے کہ ہم نیکی کا حکم کرتے تھے اور خود عمل نہ کرتے تھے۔

اے ابوذر! بندہ نہ تو اللہ کے حقوق کو ادا کر سکتا ہے اور نہ اس کی نعمتوں کا شمار کر سکتا ہے پس صبح و شام اس کی بارگاہ میں توبہ کرتے رہو۔ اے ابوذر ! دن بدن عمر گھٹ رہی ہے اور اعمال محفوظ ہین اور موت کا کوئی وقت نہیں وہ تو اچانک آئے گی نیکی کا بیج بونے والا نیک انجام دیکھے گا اور برائی کرنے والا پیشمان ہو گا اور ہر کاشت کرنے والے کو اپنی کاشت کا ثمرہ ملتا ہے سستی کرنے والے کو مقدر سے کم نہیں ملتا اور حرص کرنےوالے کو مقدر سے زیادہ نہیں نصیب ہوتا جس کو خیر عطا ہو تو عطا کرنے والا اللہ ہوتا ہے اور جو شر سے بچ جائے تو بچانےوالال بھی اللہ ہوتا ہے اے ابوذر ! متقی لوگ سردار ہیں اور فقیہ لوگ قائد ہین اور ان کے پاس بیٹھنا فائدہ بخش ہے ۔ مومن اپنے گناہ کو اس طرح سمجھتا ہے کہ گو یا وہ ایک چٹان کے نیچے ہے ۔ جس کے گرنے کا ڈر ہے اور کافر اپنے گناہ کو اس طرح سمجھتا ہے گویا ایک مکھی تھی جو ناک پر بیٹھی اور اڑ گئی ۔ اے ابوذر! وہ اللہ کا پیارا بندہ ہے جو کو اپنے کردہ گناہ سامنے نظر آتے ہیں اور ان کے انجام بد سے خوفزدہ رہے اور وہ اللہکا مبغوض بندہ ہے جو گناہ کر کے ان کو بھول جائے۔

اے ابوذر ! یہ نہ سوچا کرو کہ گناہ معمولی تھا جو ہو گیا بلکہ یہ سوچا کرو کہ وہ کون ذات ہے جس کی تم نے مخالفت کی ہے۔ اے ابوذر ! مومن گناہ کے بعد اس طرح بے چینی سے تڑپتا ہے جس طرح کوئی پرندہ جال میں بھنس جانے کے بعد تڑپتا ہے اے ابوذر! تڑپتا ہے جس طرح کوئی پرندہ جال میں پھنس جانے کے بعد تڑپتا ہے اے ابوذر! کامیاب انسان وہ ہے جس کا فعل اس کے قول کے مطابق ہو اور ناکام ہے وہ آدمی جس کا فعل اس کے قول کے مطابق نہ ہو ۔ اے ابوذر! بعض گناہ رزق کو روک دیتے ہیں۔

اے ابوذر! جس چیز کی ضرورت نہ ہو اس کے پیچھے نہ پڑو اور جہاں مطلب نہ ہو وہاں زبان کو بند رکھا کرو اور زبان کو اس طرح مقفل رکھو جس طرح خزانے کو مقفل رکھتے ہو۔

اے ابوذر! میری آنکھوں کی ٹھنڈک نماز ہے اور مجھے نماز اس طرح محبوب ہے جس طرح بھوکے کو روٹی اور پیاسے کو پانی بلکہ بھوکا انسان روٹی کھا کر اور پیاسا انسان پانی پی کر سیر ہو جاتا ہے لیکن میں نماز سے کبھی سیر نہیں ہو تا۔

اے ابوذر! جب تک تم نماز میں مشغول ہو تو گویا تم ایک عظیم بادشاہ کے دروازہ پر دستک دے رہے ہو اور جو شخص زیادہ دیر تک دروازہ کھٹکھٹاتا رہے آخر کار اس کے لئے دروازہ کھول دیا جاتا ہے ۔

آپ نے فرمایا اے ابوذر! ان لوگوں کے لئے طوبیٰ ہے جو جنت کی طرف جھنڈا اٹھا کر آگے آگے چلیں گے اور وہ وہ لوگ ہوں گے جو سحور کے وقت یا باقی اوقات میں مساجد کی طرف پہل کرنے والے ہوں۔

اے ابوذر! دنیا مومن کے لئے قید خانہ اور کافر کے لئے جنت ہے ۔ اے ابوذر! جو شخص رو سکے اسے رونا چاہیے۔ (خوف خدا سے) اور جو نہیں رہ سکتا اس کو غمزدہ ہونا چاہیے کیونکہ سنگ دل انسان اللہ سے دور ہوتا ہے اے ابوذر! اللہ کا وعدہ ہے کہ میں دو خوف اور دو امن ایک بندے کو دوں گا۔ پس جو شخص میری گرفت سے نڈر اور با امن رہے اس کو بروز محشر امن نہ دوں گا اور جو دنیا میں مجھ سے خوف زدہ رہے اس کو بروز محشر خوفزدہ نہ کروں گا ۔

اے ابوذر! بعض گناہ کرنے کے بعد بھی انسان جنت میں چلا جاتا ہے میں نے عرض کی کہ حضورؐ! وہ کیسے؟ تو آپ نے فرمایا گناہ کرنے کے بعد جب گناہ کی طرف توجہ کرتا ہے تو خوف خدا اس پر مسلط ہو جاتا ہے پس وہ اپنے گناہ کو سامنے رکھ کر توبہ کرتا رہتا ہے یہاں تک کہ جنت میں پہنچ جاتا ہے ۔

آپ نے فرمایا اے ابوذر! اگر اللہ کے نزدیک دنیا کی قدر و قیمت مکھی یا مچھر کے پر کے برابر بھی ہوتی تو کسی کافر کو ایک گھونٹ پانی بھی نصیب نہ ہوتا۔

اے ابوذر! دنیا ملعون ہے مگر اس قدر کہ اس کے ذریعے رضائے خدا حاصل کی جائے۔ اے ابوذر! جبریل میرے پاس دنیا کے خزانے لایا اور کہا یہ دنیاوی خزانے لے لو اور جو کچھ اللہ کے نزدیک آپ کے لئے ہے اس میں بھی کوئی کمی نہ ہوگی  تو میں میں نے کہا اے جبریل مجھے ان خزانوں کی کوئی حاجت نہیں ہے جب پیٹ بھر کر کھا لوں گا تو اللہ کا شکر ادا کروں گا اور جب بھوکا رہوں گا تو اللہ سے مانگ لوں گا۔

اے ابوذر! جب اللہ انسان پر احسان کرتا ہے تو اس کو دین میں فقہ اور دنیا سے پرہیزگاری عطا فرماتا ہے اور اس کو اپنے عیوب کی طرف متوجہ کر دیتا ہے۔ اے ابوذر! جب اپنے کسی بھائی کو دنیا سے زاہد دیکھو تو اس کی باتیں سنا کرو کیونہ وہ دانئی کی باتیں کرے گا میں نے عرض کی حضورؐ! زاہد کون ہوا کرتا ہے ؟ آپ نے فرمایا جو قبرستان کو فراموش نہ کرے ۔ اور زینت دنیا میں سے زائد از ضرورت کو چھوڑ دے اور باقی کو فانی پر ترجیح دے اور آنے والے کل کو اپنی زندگی میں شمار نہ کرے اور اپنے آپ کو مرنے والوں میں محسوب کرے۔

اے ابوذر! (میرا دستور اور سنت یہ ہے ) کہ موٹا کپڑا پہن لیتا ہوں ، زمین پر بیٹھ جاتا ہوں اپنی انگلیوں کو کھانے کے بعد چاٹ لیا کرتا ہوں پس جو شخص میری سنت سے رو گردانی کرے وہ میرا نہیں ہے۔

سلسلہ کلام کو جاری رکھتے ہوئے آپ نے فرمایا ۔ اے ابوذر! ایسے ملائکہ بھی ہیں جو روز خلقت سے حالت قیام میں مصروف عبادت ہیں اور اپنے سروں کو بلند نہیں کرتے اور دوسری دفعہ کے نفخ صور تک اسی حالت میں رہیں گے ۔ وہ یہی کچھ کہتے ہیں سبحانک و بحمدک ما عبد ناک کما ینبغی لک یعنی ہم تیرے تسبیح گذار ہیں اور تیری حمد کرتے ہیں اور ہم تیری عبادت کا حق ادا نہیں کر سکے ۔ اے ابوذر! اگر ایک انسان کے پاس ستر نبیوں کے اعمال بھی موجود ہوں رو روز محشر کی سختی کے مقابلہ میں اپنے تمام اعمال کو ہیچ سمجھے گا۔ اگر غلین کو (جو جہنمیوں کی غذا ہے) مشرق میں ڈالا جائے تو اس کی گرمی سے مغرب والوں کی کھوپڑیاں جل جائیں گی اور اگر جہنم کی ایک سانس دنیا پر ظاہر ہو تو تمام ملک مقرب اور نبی مرسل زمین پر گھٹنے ٹیک کر نفسی نفسی کی فریاد کرنے لگیں گے حتیٰ کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو اپنا فرزند اسحٰق بھی بھول جائے گا اور وہ بھی نفسی نفی کی آواز بلند کرے گا ۔ اے ابوذر! اگر اہل جنت میں سے ایک عورت آسمان کی طرف سے زمین کی طرف تاریک رات میں جھانک لے تو پوری روئے زمین پر چاندانی پھیل جائے گی اور تمام زمین والے اس کی خوشبو محسوس کریں گے اور اگر کسی جنتی کا کوئی کپڑا ادنیا میں لٹکایا جائے تو دیکھنے والوں کی آنکھیں خیرگی کریں گی اور دیکھنے والے مدہوش ہو جائیں گے۔

اے ابوذر ! جنازے کے ہمراہ جہاد کے وقت اور قرآن خوانی کے وقت اپنی آواز کو نیچا کر لیا کرو اے ابوذر! جب کسی جنازہ کے ساتھ چلو تو اپنی فکر کو اسی میں محدود کر لو کیونکہ آخر کار تم نے بھی اسی طرف ہی جانا ہے ۔ اے ابوذر ! جب کوئی چیز خراب ہو جائے تو اس کا علاج نمک ہوتا ہے لیکن جب نمک خراب ہو جائے تو علاج کیا ہو گا ؟

اے ابوذر! تفکر کے ساتھ دو رکعت نماز بہتر ہے اس رات بھر کی نماز سے جس میں دل غافل ہو، اے ابوذر حق کڑوا ہوتا ہے  اور باطل آسان ہوتا ہے لیکن اس کا انجام ناقابل برداشت ہوا ہے اور بعض اوقات ایک گھنٹہ کی شہوت پرستی عرصہ دراز تک پریشانی و پیشمانی کی موجب ہوا کرتی ہے۔

اے ابوذر! حساب لئے جانے سے پہلے اپنے نفس کا حساب لے لو اور تو لے جانے سے پہلے اپنے آپ کو تول لو۔

آپ نے فرمایا ۔ اے ابوذر! تین قسم کے لوگوں کی وجہ سے اللہ ملائکہ پر مباہات کرتا ہے (1) وہ شخص جو ایک اجاڑ زمیں میں ہو پس اذان و اقامت کہہ کرنماز پڑھے پس اللہ فرماتا ہے اے فرشتو ۔ دیکھو میرا بندہ تنہا میری عبادت مینمشغول ہے اور میرے سوا اس کو دیکھنے والا بھی کوئی نہیں ہے پس ستر ہزار فرشتے نازل ہو کر اس کی اقتداء میں نماز پڑھتے ہیں اور دوسرے دن تک اس کے لئے استغفار کرتے رہتے ہیں (2) وہ شخص جو رات کو اٹھ کر نماز میں مشغول ہو پس اللہ فرشتوں سے کہتا ہے کہ دیکھو میرے بندے کی روح میرے پاس ہے اور اس کا جسم سجدہ میں ہے (3) وہ شخص جو مقام جہاد میں دشمنان خدا سے مصروف قتال ہو اور ساتھیوں کے دوڑ جانے کے باجود اپنے مقام پر ڈٹا رہے اور آخر کار شہید ہو جائے ۔ اے ابوذر! جو شخص بھی زمین کے کسی حصہ میں اللہ کی عبادتکرے تو زمین کا وہ ٹکڑا بروز محشر اس کے حق میں گواہی دے گا اور جس منزل میں کوئی قوم قیام کرے بوقت صبح وہ منزل یا تو اس قوم پر درود بھیج رہی ہو گی یا لعنت کر رہی ہو گی ۔ اے ابوذر! ہر صبح اور ہر شام زمین کے ٹکڑے ایک دوسرے سے احوال پرسی کرتے ہیں کہ کیا تیری پشت پر سے آج کوئی اللہ کا ذکر کرنے والا بھی گزرا ہے؟ کیا تیرے اوپر آج کسی نے اللہ کا سجدہ بھی کیا ہے؟ پس بعض زمینیں ہاں میں جواب دیتی ہیں اور بعض کہتی ہیں کہ نہیں پس وہ زمین دوسری زمینوں پر فخر کرتی ہے جس پر کوئی اللہ کا ذاکر اور عبادت گزار قیام کرے ۔ اے ابوذر! مومن کے مرجانے کے بعد زمین چالیس دن تک اس کےلئے گریہ کرتی ہے ۔ اے ابوذر! جب انسان کسی جنگل میں وضو یا تیمم کر کے اذان و اقامت کہہ کر نماز شروع کرتا ہے تا بامر خدا ملائکہ اس کے پیچھے صفیں باندھ کر نماز پڑھتے ہیں اور جب وہ دعا مانگتا ہے تو وہ آمین کہتے ہیں اور جو شخص صرف اقامت کہے اور اذان نہ کہے تو صرف اس کے دونوں موکئل فرشتے ہی اس کے پیچھے نماز پڑھتے ہیں۔

اے ابوذر! نیک کی صحبت تناہئی سے بہتر ہے اور بری صحبت سے تنہائی بہتر ہے ۔ اسی طرح اچھی بات کرنا خاموشی سے بہتر ہے اور بیہودہ بات کہنے سے خاموشی بہتر ہے ۔ اے ابوذر! ساتھی نہ بنانا مگر مومن کو اور تیرے گھر میں کھانا دہی کھائے جو اللہ سے ڈرنے والا ہو اور تم خود بھی فاسق لوگوں کے ہاں کھانا مت کھایا کرو۔ اے ابوذر! اس آدمی کو کھانا کھلاؤ جس کو اللہ کے لئے دوسرت رکھتے ہو اور اس کے گھر کھانا کھاؤ جو تمہیں اللہ کے لئے ہی دوست رکھتا ہو۔

ابے ابوذر! سفید ریش مسلمان کا احترام حاملین قرآن (جو قرآن پر عامل بھی ہوں) کا احترام اور عادل بادشاہ کا احترام کرنا اللہ کا اجلال ہے (یعنی اللہ کے حکم کا احترام ہے) اے ابوذر! اچھی بات کرنا صدقہ ہے اور نماز کی طرف جاتے ہوئے ہر قدم صدقہ ہے اے ابوذر ! جو شخص اللہ کی دعوت کو لبیک کہے اور مساجد کی آبادی میں حسن کردار کا حامل ہوتو اللہ کے نزدیک اس کا ثواب جنت ہے ۔ میں نے عرض کی آقا! مسجد کی آبادی سے کیا ملطلب؟ تو آپ نے فرمیا مساجد میں آواز کو بلند نہ کیا جئے باطل و بیہودہ باتیں نہ کی جائیں اور اس میں خریدو فروخت نہ کی جائے اور جب تک اس میں رہو لغو بات نہ کرو اور اگر مسجد کے یہ آداب ترک کرو گے تو بروز محشراپنے نفس کو ہی ملامت کرو گے اور جتنی دیر تک مسجد میں رہو گے ہر سانس کے بدلہ میں خدا جنت کا ایک درجہ عطا فرمائے گا اور فرشتے تم پر درود پڑھیں گے پس ہر سانس کے بدلہ میں دس نیکیاں لکھی جائیں ۔ اے ابوذر رحمت گورا کر کے وضو کو کامل کرنا گناہوں کا کفارہ ہے اور مساجد کی طرف قدم بڑھانا راہ خدا میں جہاد کرنے کے برابر ہے ۔

اے ابوذر! اللہ فرماتا ہے میرے پیارے بندہ وہ ہیں جو میری وجہ سے ایک دوسرے کے ساتھ محبت کریں اور ان کے دل مساجد سے وابستہ ہوں اور سحور کے وقت استغفار کریں ۔ پس اگر اہل زمین پر عذاب نازل کرنا چاہوں تو ان ہی لوگوں کی بدولت عذاب کو ٹال دیتا ہوں۔ اے ابوذر مساجد میں ٹھرنا اچھا نہیں مگر تین چیزوں کے لئے (1) نماز کےلئے (2) ذکر خدا کے لئے (3) علم حاصل کرنے کےلئے ۔

اے ابوزر! جس کے پاس تین چیز نہیں وہ بروز محشر خسارہ میں ہوگا (1) پرہیز گاری اللہ کی حرام کردہ چیزوں سے (2) علم جس کی بدولت بیوقوفوں کی جہالت کو رد کر سکے (3) حسن خلق کس کی بدولت لوگوں کے ساتھ رواداری کر سکے۔

اے ابوذر! اگر تو قوی تر بننا چاہتا ہے تو اللہ پر توکل کرو اور اگر کریم تر بننا چاہتا ہے تو تقوٰی اختیار کرو اور اگر غنی تر بننا چاہتا ہے تو اپنے ہاتھ کی دولت سے اللہ کے خزانہ پر زیادہ وثوق رکھو۔

اے ابوذر! اگر تمام لوگ اس ایک آیت سے تمسک پکڑ لیں تو سب کے لئے کافی ہو گی ومن یتق اللہ یجعل لہ مخرجا و یرزقہ من حیث لا یحتسب و من یتوکل علی اللہ فھو حسبہ ان اللہ بالغ امرہ ۔

آپ نے فرمایا اے ابوذر! اگر کوئی شخص اپنے رزق سے بھاگے جس طرح موت سے بھاگتا ہے تو رزق اس کو ڈھونڈ لے گا۔ جس طرح موت ڈھونڈ لیا کرتی ہے ۔

اے ابوذر! غیبت سے بچو کیونکہ غیبت کا گناہ زنا سے سخت ہے جس کی وجہ یہ ہے کہ زنا کرنے کے بعد انسان توبہ کر سکتا ہے لیکن غیبت کے بعد توبہ نہیں جب تک کہ وہ خود معاف نہ کرے جس کی غیبت کی گئی ۔ اے ابوذر مسلمان کو گالی دینا فسق ہے اس سے لڑنا کفر ہے اور اس کا گوشت کھانا اللہ کی فرمانی ہے آپ نے فرمایا جب مومن کا وہ عیب بیان کرو جو اس میں ہو تو اس کو غیبت کہا جاتا ہے اور اگر اسمیں نہ ہو تو تو اس کو بہتان کہا جاتا ہے ۔ اے ابوذر جو شخص مومن کی ہونے والی غیبت کی تردید کرے تو خدا پر حق ہے کہ اس جو جہنم سے آزاد کر دے اور ایسے شخص کی خدا دنیا و آخرت میں نصرت فرماتا ہے اور اگر مومن کی تردید کر سکنے کے باوجود نہ کرے تو خدا اس کو دنیا و آخرت میں رسوا کرتا ہے یہ حدیث بہت طویل ہے میں نے اختصار کو مد نظر رکھتے ہوئے بعض مقامات کا ترجمہ پیش کیا ہے اور اس حدیث کے بعض اجزاء سابق موضوعات میں بھی مذکور ہو چکے ہیں ۔ خداوند کریم ہمیں محمد و آل محمد علیہم السلام کے اسوہ حسنہ پر چلنے کی توفیق مرحمت فرمائے۔

وما علینا الا البلاغ و اٰخر دعوانا ان الحمدللہ رب العالمین رب ارحمھما کما ربیانی صغیرا و اجزھما بالاحسان احسانا و بالستیئات عفوا و غفرانا

9 بجے شب یک محرم 1399ھ یکم دسمبر 1978ء

بحوالہ کتاب۔ معیار شرافت

از ۔ علامہ حسین بخش جاڑا

صفحات ۔ 200 تا 208

ایک تبصرہ شائع کریں