التماس سورہ فاتحہ برائے والد بزرگوار،جملہ مومنین و مومنات،شھداۓ ملت جعفریہ ، خصوصاً وہ جن کا کوئی سورہ فاتحہ پڑھنے والا نہ ہو۔ یہاں کلک کریں

Search Suggest

درگذرکرنا

یہ صفت انتقام کے بدلہ میں ہے اس کا مقصد یہ ہے کہ انتقام لینے کے بجائے انسان کو چاہیے کہ خطاکار سے درگذر کرکے اسے معافی دیدے اور بدلہ لینے کی

درگذرکرنا

یہ صفت  انتقام  کے بدلہ میں ہے  اس کا مقصد  یہ ہے کہ انتقام  لینے کے بجائے انسان  کو چاہیے  کہ خطاکار  سے درگذر  کرکے اسے معافی دیدے اور بدلہ لینے کی قدرت رکھنے کے باوجود اس کے جرم کو دامن عفو  میں جگہ دیدے

حضرت رسالتمآب  کا ارشاد ہے کہ بادشاہوں  کا درگزر کرنا ان کے ملک کی پائیداری  کا موجب ہوتا اسکایہ مطلب ہرگز نہیں کہ جو لوگ معاشرہ میں قسم وقسم  کے جرائم کرتے رہیں  انکو معاف کیاجائے اور سزانہ دی جائے کیونکہ اس عمل سے ملک تباہی کے گڑھے  میں جاپڑے گا  بلکہ حدیث کا مطلب یہ ہے کہ اگر کوئی شخص بادشاہ وقت کےسامنے گستاخانہ انداز سے پیش آئے  تو اسے جابر حکمروانوں کی طرح فورا تختہ دار پر نہ کھنیچ  دیاجائے بلکہ ذاتی غصہ  کو ضبط کرکے  اسے معاف  کردیاجائے جب رعایا بادشاہ  کا یہ سلوک دیکھے گی تو ان کےدلوں میں بادشاہ کی محبت  پیدا ہوگی اور یہ چیز حکومت کی پائیداری کی موجب ہوگی

حضؐور  نے فرمایاکہ درگزر کیعادت اپنے اندرڈالو کیونکہ اس سے انسان کی عزت ووقار میں اضافہ ہوگا ہے

حضرت امیرالمومنین  علیہ السلام  نے فرمایا جب خدا تجھے دشمن پر قدرت دے  تو اللہ کی عطاکردہ قدرت کا شکریہ  ہے کہ  اسکو معاف کردے

 آپ نے  فرمایا درگذرکرنے  والوں میں سب سےزیادہ ثواب اسکا ہے جو سزادینے پر سب سے زیادہ قدرت رکھنے والا ہو

 امام محمد باقر علیہ السلام نے فرمایا کسی کو معاف کرنے کے بعد جو پیشمانی لاحق  ہو وہ اس سے بہتر ہے جو  اسکو سزا دینے کے بعد لاحق ہو

 حضرت امام موسیٰ کاظم  علیہ السلام نے فرمایا  جب دوگروہ  آپس میں لڑ رہے ہوں  تو ان میں سے جودرگزر کرنے  والا ہو اسکی غیبی نصرت  ہواکرتی ہے

ایک مرتبہ حضرت امام موسیٰ کاظم علیہ السلام  کھان اکھارہے تھےکہ غلام پانی لایا اور اس کےہاتھ سے جو برتن گرا  تو آپ نےکے کپڑے آلودہ ہوگئے  آپ نے غلام کی طرف دیکھا تو اس نے فورا قرآن مجید کی آیت پڑھی   الکاظمین الغیظ  آپ نے فرمایا میں نے غصہ کو ضبط  کرلیا پھر اس نےدوسرا ٹکڑا آیت کا پڑھا والعافین عن الناس  تو آپ نے فرمایا  میں نے معاف کردیا پھر اس نےآخری حصہ آیت   کا پڑھ دیا واللہ یحب المحسنین  تو آپ نے فورا اس کو آزاد کردیا

ایک مرتبہ امام زین العابدین علیہ السلام کےگھر میں آکر ایک رشتہ دار نے آپ کو برا بھلا کہا  آپ خاموشی سے سنتے رہے جب وہ چلاگیا  توکچھ دیر آپ نے اپنے غلاموں کو اپنے ساتھ چلنے کا حکم دیا انہوں نے سمجھا کہ شاید انتقام کےلئے جارہے ہیں جب آپ  اسکے دروازہ پر پہنچے اور دستک دی تو اس نے آواز پہچان  کر سمجھاکہ شاید بدلہ لینےکےلئے آئے  ہیں آپ نے فرمایا تو نے جو کچھ مجھے کہاہے اگر میں ان الفاظ کا مستحق ہوں تو اللہ سے معافی مانگتاہوں  اور اگر میں مستحق نہیں تھا  اور یقینا نہیں تھا تو تجھے معافی دینے کےلئے چل کرآیا ہوں  فورا اس شخص نے آپ سےمعافی مانگ لی

بہر کیف غصہ کو ضبط کرلینا  اور مجرم کو معافی دے دینا بہت بڑاکارنامہ ہے اورجہاد اعظم واکبر ہے  اور اس میں شک نہیں کہ جب انسان اپنے غصہ پر کنڑول کرلے  تو درگزر  توخود بخود ہوجاتاہے  پس سب سےاہم ہے اپنی صفات بد پر کنڑول کرنا اور خواہش نفس کو پامال کرنا  اوریہی انسانی  کمال ہے

ایک تبصرہ شائع کریں