درگذرکرنا
یہ صفت انتقام کے بدلہ میں ہے اس کا مقصد
یہ ہے کہ انتقام لینے کے بجائے
انسان کو چاہیے کہ خطاکار
سے درگذر کرکے اسے معافی دیدے اور
بدلہ لینے کی قدرت رکھنے کے باوجود اس کے جرم کو دامن عفو میں جگہ دیدے
حضرت رسالتمآب کا
ارشاد ہے کہ بادشاہوں کا درگزر کرنا ان کے
ملک کی پائیداری کا موجب ہوتا اسکایہ مطلب
ہرگز نہیں کہ جو لوگ معاشرہ میں قسم وقسم
کے جرائم کرتے رہیں انکو معاف
کیاجائے اور سزانہ دی جائے کیونکہ اس عمل سے ملک تباہی کے گڑھے میں جاپڑے گا
بلکہ حدیث کا مطلب یہ ہے کہ اگر کوئی شخص بادشاہ وقت کےسامنے گستاخانہ
انداز سے پیش آئے تو اسے جابر حکمروانوں
کی طرح فورا تختہ دار پر نہ کھنیچ دیاجائے
بلکہ ذاتی غصہ کو ضبط کرکے اسے معاف
کردیاجائے جب رعایا بادشاہ کا یہ
سلوک دیکھے گی تو ان کےدلوں میں بادشاہ کی محبت
پیدا ہوگی اور یہ چیز حکومت کی پائیداری کی موجب ہوگی
حضؐور نے فرمایاکہ
درگزر کیعادت اپنے اندرڈالو کیونکہ اس سے انسان کی عزت ووقار میں اضافہ ہوگا ہے
حضرت امیرالمومنین
علیہ السلام نے فرمایا جب خدا تجھے
دشمن پر قدرت دے تو اللہ کی عطاکردہ قدرت
کا شکریہ ہے کہ اسکو معاف کردے
آپ نے فرمایا درگذرکرنے والوں میں سب سےزیادہ ثواب اسکا ہے جو سزادینے
پر سب سے زیادہ قدرت رکھنے والا ہو
امام محمد باقر
علیہ السلام نے فرمایا کسی کو معاف کرنے کے بعد جو پیشمانی لاحق ہو وہ اس سے بہتر ہے جو اسکو سزا دینے کے بعد لاحق ہو
حضرت امام موسیٰ
کاظم علیہ السلام نے فرمایا جب دوگروہ
آپس میں لڑ رہے ہوں تو ان میں سے
جودرگزر کرنے والا ہو اسکی غیبی نصرت ہواکرتی ہے
ایک مرتبہ حضرت امام موسیٰ کاظم علیہ السلام کھان اکھارہے تھےکہ غلام پانی لایا اور اس
کےہاتھ سے جو برتن گرا تو آپ نےکے کپڑے
آلودہ ہوگئے آپ نے غلام کی طرف دیکھا تو
اس نے فورا قرآن مجید کی آیت پڑھی
الکاظمین الغیظ آپ نے فرمایا میں
نے غصہ کو ضبط کرلیا پھر اس نےدوسرا ٹکڑا
آیت کا پڑھا والعافین عن الناس تو آپ نے
فرمایا میں نے معاف کردیا پھر اس نےآخری
حصہ آیت کا پڑھ دیا واللہ یحب المحسنین تو آپ نے فورا اس کو آزاد کردیا
ایک مرتبہ امام زین العابدین علیہ السلام کےگھر میں آکر ایک
رشتہ دار نے آپ کو برا بھلا کہا آپ خاموشی
سے سنتے رہے جب وہ چلاگیا توکچھ دیر آپ نے
اپنے غلاموں کو اپنے ساتھ چلنے کا حکم دیا انہوں نے سمجھا کہ شاید انتقام کےلئے
جارہے ہیں جب آپ اسکے دروازہ پر پہنچے اور
دستک دی تو اس نے آواز پہچان کر سمجھاکہ
شاید بدلہ لینےکےلئے آئے ہیں آپ نے فرمایا
تو نے جو کچھ مجھے کہاہے اگر میں ان الفاظ کا مستحق ہوں تو اللہ سے معافی
مانگتاہوں اور اگر میں مستحق نہیں
تھا اور یقینا نہیں تھا تو تجھے معافی
دینے کےلئے چل کرآیا ہوں فورا اس شخص نے
آپ سےمعافی مانگ لی
بہر کیف غصہ کو ضبط کرلینا
اور مجرم کو معافی دے دینا بہت بڑاکارنامہ ہے اورجہاد اعظم واکبر ہے اور اس میں شک نہیں کہ جب انسان اپنے غصہ پر
کنڑول کرلے تو درگزر توخود بخود ہوجاتاہے پس سب سےاہم ہے اپنی صفات بد پر کنڑول کرنا اور
خواہش نفس کو پامال کرنا اوریہی
انسانی کمال ہے