التماس سورہ فاتحہ برائے والد بزرگوار،جملہ مومنین و مومنات،شھداۓ ملت جعفریہ ، خصوصاً وہ جن کا کوئی سورہ فاتحہ پڑھنے والا نہ ہو۔ یہاں کلک کریں

Search Suggest

دیہات اور جہالت

دیہات اور جہالت

 دیہات اور جہالت

چونکہ زمانہ قدیم میں اسباب آمدو رفت کم تھے اور دنیا کی آبادیاں منظم نہ تھیں اس لئے دیہات میں بسنے والوں کے لئے شہری آبادیوں میں پہنچ کر اچھے آداب عمدہ خصلات اور علمی خیالات کا حاصل کرنا مشکل تھا اور اس کے برعکس شہروں میں تعلیم و تعلم کے ذرائع کسی حد تک موجود تھے اگر چہ آجکل کی نسبت سے تو وہ بھی نہ ونے کے برابر تھے تاہم دیہات کی بن نسبت بہت کچھ فرق تھا پس اسی مناسبت سے جہالت کو دیہات کی طرف منسوب کیا گیا ہے ورنہ اگر شہروں میں بسنے والے بھی جاہل ہوں تو جہالت کے نتائج سے بد ان کو مستثناء قرار نہیں دیا جا سکتا ۔

اور یہ بھی ذہن نشین کر لیجئے کہ جہالت بذات خود بھی ایک ایسا نقص اور عیب ہے کہ صحیفہ انسانیت کو بد نما کرنے کے لئے خود کافی ہے لیکن معاشرتی اور تمدنی زندگی میں جہالت کو جرم قرار نہیں دیا جا سکتا پس جہالت بذات خود مجوب عذاب نہیں بلکہ اس لئے موجب عذاب ہے کہ تمام گناہ یا اکثر گناہ اس کی کوکھ سے جنم لے کر معاشرہ کی تباہی کا موجب بنتے ہیں پس اگر کوئی شخص جاہل رہتے ہوئے بھی اخلاقی و معاشرتی برائیوں کا محفوظ ہو تو صرف جہالت اس کو عذاب جہنم کا ایندھن نہیں بنائے گی اور اس کے برعکس اگر کوئی عالم مقضائے علم کو چھوڑ کر گناہوں کا مرتکب ہو تو جاہل کی سزا کے مقابلہ میں اس کی سزا سنگین تر ہو گی جس کی وجہ یہ ہے کہ جاہل گناہ کر کے صرف اپنی عاقبت کو تباہ کرے گا لیکن اس کے مقابلہ میں عالم کا گناہ چونکہ دوسرے بے علم لوگوں کے لئے بھی گناہ پر جرات کا باعث ہو گا لہذا جن جن لوگوں نے اس عالم کے فعل بد سے متاثر ہو کر گناہ کیا ہو گا ان کی سزا میں بھی وہ وعالم برابر کا حصہ دار ہو گا۔

بروایت بحارالانوار حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے منقول ہے کہ خداوند کریم نے حضرت داؤد علیہ السلام پر وحی کی کہ میرے اور اپنے درمیان ایسے عالم کو نہ لانا جو دنیا کا فریفتہ ہو کیونکہ ایسا عالم تمہیں میری محبت کے رستہ سے روک دے گا اس لئے کہ اس قسم کے لوگ میری طرف آنے والے لوگوں کے راہزن ہوتے ہیں اور ان کو دنیا میں کم از کم سزا جو دیتا ہوں وہ یہ ہے کہ اپنی مناجات کی لذت ہوتے ہیں اور ان کو دنیا میں کم از کم سزا جو دیتا ہوں وہ یہ ہے کہ اپنی مناجات کی لذت ان کے دلوں سے کھینچ لیتاہوں اور آپ نے حضرت رسالتمآبؐ کا فرمان بیان فرمایا کہ جب علم کو ظاہر کیا جائے اور عمل سے گریز کیاجائے اسی طرح زبانوں پر اتفاق ہو اور دلوں میں اختلاف ہو اور قطع رحمی عام ہوتو ایسے لوگوں پر خدا کی لعنت ہوتی ہے پس خدا ان کو حق کی بات سننے سے بہرہ اور حق کو دیکھنے سے اندھا کر دیتا ہے ۔ بہر کیف جہالت شہری زندگی میں ہو تب بھی بری ہے اور علم دیہاتی زندگی میں ہو تب بھی اچھا ہے اسی طرح اگرجاہل ہو لیکن بد کردار نہ ہوتو گرفتار عذاب نہ ہو گا لیکن اگر عالم ہو اور بد کردار ہو تو وہ ضرور گرفتار عذاب ہو گا۔

آجکل کی مسموم فضا میں تو معاملہ زمانہ قدیم سے بالکل الٹ ہے کیونکہ اس زمانہ میں ادب و تہذیب اور علم و اخلاق کا گہوارہ شہر ہی تھے اور دیہاتیوں میں جہالت و بدویت کا دور دورہ تھا علم و ادب اور اخلاق و تہذیب سے لوگ کافی حد تک دور تھے لیکن اس زمانہ میں چونکہ رسل ووصل کے ذرائع و سائل عام ہیں لہذا حکومتوں کی جانب سے جس طرح بڑے شہروں میں مراکز علم قائم ہیں اسی طرح چھوٹے شہروں اور قصبوں و دیہاتوں میں بھی مدارس علمیہ کی کمی نہیں اور جس طرح علوم دینیہ کی سہولتیں شہروں میں میسر ہیں اسی طرح دیہاتوں میں بھی موجود ہیں۔

مغرب کی اخلاق سوز تہذیب دشمن اور شرافت تبا تیز و تند ہوا نے لوگوں کے رجحانات میں اس قدر تبدیلی پیدا کر دی ہے کہ اہل اسلام میں اسلامی روایات و اقدار کو پرانی تہذیب اور قدامت پسندی کہہ کر اسلامی تعلیمات سے بیگانگی اختیار کر چکے ہیں اور یہ وبا عام دیہاتوں میں شہریوں کی بہ نسبت بہت کم ہے ، بے پردگی ، بے حیائی، عیاشی ، فحاشی اور دیگر اخلاق سوز عادات کو دیہاتی مسلمان اب بھی برا سمجھتے ہیں جب کہ شہروں میں فلمی نمائشیں اور فحاشیت کے اڈے عام نوجوانوں کے جذبات اور رجحانات کو اسلامیات سے موڑتے ہوئے اکثر برائیوں کے احساس سے بھی بے بہرہ کر چکے ہیں ۔ حتی کہ بعض اچھے اچھے شریف خاندانوں میں پردہ کو عورت کے لئے توہین قرار دیا جاتا ہے اور بے پردگی کو اس کا حق آزادی سمجھا جاتا ہے میں کلئیے کے طور پر نہیں کہہ رہا کیونکہ دیہاتیوں میں بھی بد معاش اور غنڈےموجود ہیں اس کے برعکس شہروں میں بھی شریف ومتدین لوگوں کی کمی نہیں البتہ عمومی رجحانات اور تاثرات ہی ہیں جو میں عرض کر چکا ہوں اور اس کی وجہ یہ بھی ہے کہ شہروں میں غیر ملکی و غیر اسلامی ذہن رکھنے والے سیرو تفریح کے طور پر بعض دوسری اغراض کے ماتحت عام آمدورفت رکھتے ہیں اور ان کے حرکات و سکنات چونکہ بالکل شرافت و متانت انسانیہ کے بالکل خلاف ہوتے ہیں بس مسلمان نوجوان بھی ان کی دیکھا دیکھی میں اسلام دشمن حرکات کو اپنے اندر پیدا کرنے میں اپنی جدت پسندی سمجھتے ہیں اور یہ بات دیہاتیوں میں چونکہ نہیں ہے لہذا وہ اپنی پرانی آبائی اسلامی رسوم کے پابند چلے آتے ہیں ۔ سوائے ان شاذو نادر افراد کے جو بعض اغراض کے ماتحت شہروں میں پہنچے اور پھر شہری تہذیب نے ان کو زبر دستی اپنے اندر جذب کر لیا پھر ایسے لوگ دیہاتوں میں رہنا بھی پسند نہیں کرتے اور شہری زندگی کو ہی اپنا لیتے ہیں۔

ایک تبصرہ شائع کریں