التماس سورہ فاتحہ برائے والد بزرگوار،جملہ مومنین و مومنات،شھداۓ ملت جعفریہ ، خصوصاً وہ جن کا کوئی سورہ فاتحہ پڑھنے والا نہ ہو۔ یہاں کلک کریں

Search Suggest

غلو اور تفویض

غلو اور تفویض

غلو اور تفویض

علمائے امامیہ کے نزدیک آئمہ طاہرین علیہ السلام  کے حق میں غلویاتفویض  کاقول غرف باطل ہی نہیں بلکہ کفر وشرک  ہے اوریہ بات بالکل واضح ہے کہ قرآن مجید نے یہود ونصاریٰ کا حضرت عزیر  وحضرت عیسیٰ علیہما السلام  کے حق میں غلو برداشت نہیں کیااور انکو شدت سے روکا ہے چنانچہ ارشاد ہوا لاتغلو افی دینکم  یعنی اپنے دین کے معاملہ میں حد سے تجاوز نہ کرو پس اگر محمدوآل محمد علیہم السلام  کے حق میں غلو کو جائز قرار دیاجائے تو دو صورتوں میں سے ایک صورت ضرورلازم  آئے گی یاتویہود ونصاریٰ کے غلو کے خلاف قرآن مجید کے غیر مبہم فیصلے کوکلعدم ماننا پڑے گا اور اسے منسوخ ثابت  کرنا ہو گا اور یہ ناممکن ہے کیونکہ اس سےدعوت  توحید کی سراسر نفی لازم آتی ہے  اوریاقرآن مجید میں حنبیہ  داری تسلیم کرنی پڑے گی کہ جس نظرئیے  کو غلط قرار دیکر اس نے یہود ونصاریٰ  کو اس سے روکا ہے یعینہہ اسی نظرئیے  کو مسلمانوں کےلئے اس نے صحیح قرار دیاہے اوریہ بات جہاں ایک طرف قرآن میں تضاد بیانی کو ظاہر کرتی  ہے وہاں اسلامی تعلیمات  کے تقدس کو پامال کرکے رکھ دیتی ہے جو قرآن مجید ایسی عظیم الشان  کتاب کےلئے شایان شان نہیں ہے پس مانناپڑتا ہے کہ غلو کرنا کسی بھی قوم کےلئے قرآن مجید کی رو سے جائز نہیں  ہے خواہ حضرت عزیرؑ کے حق میں ہو یاحضرت عیسیٰ کے حق میں ہو یاحضرت محؐمد وآل محمد علیہم السلام کے حق میں ہو

 معصومین  علیہم السلام  سے ایک حدیث میں منقول ہے لاتقولو نا رباوقولو  فینا ماشئتم  ولن تبلغوا  یعنی ہمیں رب  نہ کہو اور باقی جوکہو درست ہے اور اس کا مطلب یہ ہے کہ ہمیں خدا کا شریک نہ بناؤ اور خدائی افعال واوصاف ہماری طرف منسوب نہ کرو البتہ مخلوق ہونے کی حیثیت  سے جو کمال ہماری طرف منسوب کرو درست ہے بلکہ پھر بھی تم جو کچھ ہمارے متعلق  بیان کرو گے وہ ہماری حق دائیگی نہ ہوگی یعنی ہمارے مراتب تمہاری فہم  ودانش  سے بالاتر  ہیں غلو کا معنی ہے محمد وآل محمد علیہم السلام  کو خُدایاخُدا  کاشریک ماننا اور تفویض میں کئی  اقوال  اور صورتیں بیان کی گئی ہیں اور اس کی واضح صورت  یہ ہے کہ کیاجائے کہ خدانے انکو پیداکرکے باقی تمام مخلوق کی پیدائش روزی اورجملہ  کائنات  کا نظم ونسق ان کے حوالے کردیا ہے اور خود بے کار محض اور مجبور مطلق  ہے یایہ کہ انکو اختیارات دے کر خود ان کا محتاج وبے بس ہے اور اب اس کے پاس کچھ نہیں رہا لہذانہ اس سے دعامانگنے  کی ضرورت ہے اور نہ اس کو پکارنے کا کوئی فائدہ ہے تو یہ عقیدہ رکھنا بالکل     نہ  ہے اور ایساعقیدہ رکھنے والایقینا  کافر ومشرک ہے اور جو بھی شیعہ ہے وہ مُحمد وآل محمدُ علیہم السلام  اللہ کے متعلق نہ غو کا قائل ہے اور نہ تفویض کا قائل ہے بلکہ شیعوں کے نزدیک مُحمد  وآل مُحمد  علیہم السلام  اللہ کے مخلوق ہیں اور اول مخلوق ہیں اشرف مخلوق اور افضل واکمل  ہے پس انکا نور تمام انوار  میں بے مثال  ہے اور ان کے اجسام  جسموں میں بے مثال  ہیں اور ان کی طینت طینتوں  میں بے مثال ہے لہذایہ خدائے بے مثال  مخلوق ہیں  اسی لئے ارشاد ہے لایقاس بنااحد یعنی ہمارے ساتھ  کسی کا قیاس نہ کرو یعنی انکو کسی جیساکہنا اور سمجھنا  غلطی ہے پس ان کو خداجیساکہنا شرک ہے لیس کمثلہ شئیٌ  اور ان کو اپنے جیساکہنا کفر ہے کیونکہ یہ اپنی مثال آپ ہیں نوری جنبے کے لحاظ سے یہ خد اسے وابستہ ہیں اور نشری جنبے  کے اعتبار سے ہم ان تک رسائی حاصؒ کرسکتے ہیں پس وہ فیوض  توحید ادھر سے لے کر ہم تک پہنچاتے  ہیں اور ہماری دعائیں ان ہی کی وساطت سے بارگہ اجابت تک پہنچ سکتی ہیں

ایک تبصرہ شائع کریں