علت فاعلیہ
بلاشک وشبہ خداوندکریم تمام کائنات کا خالق واحد ہے اس بارے
میں نہ وہکسی مدد وآلہ کا محتاج ہے نہ کسی تحریک وتشویق کا حاجتمند ہے اور نہ کسی
صلاح ومشورہ کی اس کو ضرورت ہے بے شک اپنے
لطف خاص سے اس نے محمدؐ وآل محمد علیہم
السلام کو نوازا اور کل کائات کو ان کی
خاطر ہی خلق فرمایا چنانچہ ارشاد ہوا
لولاک لماخلقت الافلاک (اگر تو نہ ہوتا اے پیغمبر ) تو میں افلاک کو پیدا نہ کرتا تو چونکہ اس نے
اپنے لطف خصوصی کے پیش نظر اور اپنے
اختیار ومشیت سے ہی ان کو باعث تخلیق کا ئنات
قرار دیا ہے لہذا باعث تخلیق ہونے کے پیش نظر مجاز اگر ان پر علت فاعلی کا اطلاق کیاجائے جبکہ فاعل
حقیقی خود اسی کی ذات ہے اور اس میں اس کا
کوئی بھی شریک نہیں تو اس کو کفر یاشرک
نہیں کہاجاسکتا جس طرح کا شتکار کو کہاجاتاہے کہ اس نے فلاں زمین سے اسقدر غلہ
پیدا کیا یازمین کے متعلق کہاجاتاہے کہ اس زمین نے اس قدر غلہ پیداکیا ہے حالانکہ درحقیقت پیداکرنے والا وہی ایک اللہ ہے
جس کاکوئی شریک نہیں ہے بلکہ وہ تو فرماتاہے کاشتکار اور زارع بھی میں خود ہوں ء
انتم ام تحن الزارعون کیاتم زراعت کرتے ہو یا میں زراعت کرنے والا ہوں تو چونکہ
کاشتکار کو ہاتھ پاؤں دل ودماغ اور جملہ قوتیں دینے والا اللہ ہے اسی طرح زمین کو قوت نامیہ عطاکرنا بھی اس کا فیض ہے لہذا اگر مجازغلہ پیداکرنے یاغلہ اُگانے کی نسبت آلہ ہونے کے اعتبار سے کاشتکار کی طرف اور محل ومکان ہونے کے لحاظ سے زمین کی
طرف دیجائے تو نہکفر لازم آتا ہے اور نہ
اس میں کوئی شرک ہے اور شیخ مرحوم نے اسی مثال
کےذریعے سے متعدد مقامات پر محمؐد وآل محمؐد کا مجاز اعلت فاعلیہ ہونا بیان کیاہے