التماس سورہ فاتحہ برائے والد بزرگوار،جملہ مومنین و مومنات،شھداۓ ملت جعفریہ ، خصوصاً وہ جن کا کوئی سورہ فاتحہ پڑھنے والا نہ ہو۔ یہاں کلک کریں

Search Suggest

صفات جمیلہ - علم | safat jameela - ilm

تمام برائیوں کی جڑ جہالت ہے اور یہ بھی معلوم ہے کہ تمام خوبیوں کی اصل علم ہے کیونکہ علم ہی ... | صفات جمیلہ - علم | safat jameela - ilm

صفات جمیلہ - علم | safat jameela - ilm

صفات جمیلہ - علم | safat jameela - ilm

صفات جمیلہ

علم
پہلے بیان کیاجاچکاہے کہ تمام برائیوں کی جڑ جہالت ہے اور یہ بھی معلوم ہے کہ تمام خوبیوں کی اصل علم ہے کیونکہ علم ہی معرفت پروردگار کا زینہ ہے اور علم ہی نفس کی عیب جوئی کرکے اس کے لئے راہ راست کا تعین کرتاہے بس علم ہی کے ذریعے سے انسان برائیوں سے بچ کر صفات حسنہ سے متصف ہوسکتاہے اور علم کے ذریعے سے ہی خدا کی عبادت ہوتی ہے اور علم کے ذریعے سے ہی انسان جنت کو حاصل کرسکتاہے

بروایت بحارالانوار حضرت رسالتمآب سے مروی ہے کہ بروز محشر خداوندکریم علماء (علمائے صالحیں ) کو جمع کرکے ان سے خطاب فرمائے گاکہ میں نے تمہارے سینوں میں علم وحکمت کو بھر دیا تھا کیونکہ میں تمہاری دنیا وآخرت میں بھلائی چاہتاتھا اب جاؤ میں نے تمہاری تمام لغزشیں معاف کردی ہیں اور تمہیں بخش دیاہے آ پ نے فرمایا جاہلوں میں عالم کی مثال ایسی ہے جس طرح مردوں میں ایک زندہ اور طالب علمکےلئے ہرچیز طلب بخش کرتی ہے حتاکہ دریائی مچھلیاں صحرائی جانور حشرات الارض اور حیوانات وغیرہ پس علم کو طلب کرو کیونکہ اللہ اور تمہارے درمیان یہی ایک رابطہ ہے اور علم کا طلب کرنا ہر مسلمان پر فرض ہے حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا العلماء امناء والاتقیاء حصون والاوصیاء سادۃ یعنی علماء امین ہیں متقی لوگ قلعے ہیں اور اوصیاء سید وسردار ہیں دوسری حدیث میں آپ نے فرمایا الراویۃ لحدیثنا یشد بہ قلوب شیعتنا افضل میں الف عابد یعنی جو شخص ہماری حدیث کو روایت کرنے والا ہے جس سے ہمارے شیعوں کے دل مضبوط ہوں وہ ہزار عابد سے افضل ہے

حضرت رسالتمآبؐ نے ارشاد فرمایا کہ بہتر چیز جو دوسری بہتر چیز کےساتھ جمع ہو وہ علم ہے جب علم کے ساتھ جمع ہوجائے آ پ نے فرمایا میری امت میں دوقسم کے آدمی اگر ٹھیک ہوجائیں تو امت نیک رہے گی لوگوں نےسوال کیاکہ حضؐور وہ دوقسم کےآدمی کون کون ہیں ؟تو آپ نے فرمایا فقہاء وامراء

حضرت امیرالمو منین علیہ السلام سے منقول ہے آپ نے فرمایاکہ بادشاہ لوگوں پر حکومت کرتے ہیں اور علم بادشاہوں پر حکومت کرتاہے اور علم کےلئے اتنا کافی ہے کہ تیرے دل میں اللہ کاڈر ہو اور جہالت کےلئے اتنا کافی ہے کہ تو اپنے علم پر تکبرکرے

حضرت امام موسیٰ کاظم علیہ السلام نے فرمایا فقیہ کی تین علامتیں ہیں علم حلم خاموشی پھر فرمایاکہ خاموشی بھی دا نائی کےدروازوں میں سے ایک دروازہ ہے خاموشی محبت کوکسب کرتی ہے کیونکہ یہ ہرخوبی کی دلیل ہے

ایک مرتبہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے حواریین سے فرمایاکہ میں تم سے حاجت رکھتاہوں اور تمہیں چاہیے کہ اسے پورا کرو وہ عرض کرنے لگے آپ فرمائیں کیاحاجت ہے؟ تو آپ نے اٹھ کر ان کے پاؤں دھلائے آپ نے فرمایا خدمت کا زیادہ حق عالم کو حاصل ہے اور میں نے تمہارےسامنے یہ انکساری اس لئے کی ہے تاکہ تم میرے بعد لوگوں میں انکساری سے پیش آؤ جس طرح میں تمہارے ساتھ پیش آیا ہوں آپ نے فرمای اکہ حکمت انکساری سے حاصؒ ہوتی ہے نہ کہ تکبر سے جس طرح کھیتی نرم زمینوں میں ہوتی ہے نہ کہ پہاڑوں کی سنگ لاخ چٹانو ں میں

حضرت امام علی رضا علیہ السلام نے فرمایا خدا ان لوگوں پر رحم کرے جو ہمارے امر کوزندہ کرتے ہیں لوگوں نےعرض کی حجور آپ کا امر (طریقہ ) کس طرح زندہ کیاجاتاہے تو آپ نے فرمایا کہ ہمارے علوم کو سکھانے سے کیونکہ جب لوگ ہمارے کلام کی خوبیوں کو جان لیں گے تو وہ خود بخود ہمارے حلقہ اطاعت میں داخل ہوجائیں گے حضرت رسالتمآبؐ نے ارشاد فرمایا علم کو حاصل کرو اگرچہ اس کے لئے چین ہی جانا پڑے اس کا یہ مطلب نہیں کہ اس زمانہ میں چین علم کا مرکز تھا بلکہ چونکہ اس زمانہ می آمد ورفت کے ذرائع محدود تھے اور چین دور دراز ہونے کےعلاوہ وہاں تک پہنچنے کےلئے پر پیچ راستے خطر ناک وادیاں اور دشوار گذارپہاڑیاں حائل تھیں جن کو عبور کرنا ناگزیر تھا جس کےلئے کافی مدت عمر کے علاوہ دل گردہ اور قلب وجگر کی مضبوطی درکار تھی پس علم کی اہمیت کو بیان کرنے کےلئے مظال کے طور پر چین کا نام لیایعنی اگر علم حاصل کرنےکےلئے سخت سے سخت راستہ ہی کیوں نہ طے کرناپڑے ضرور اسے حاصؒ کرو جس طرح ایک دوسری حدیث میں ایرانیوں کےباہمت ہونے کے پیش نظر ارشاد ہے کہ اگر علم کو ثریا کےساتھ معلق کردیا جائے تب بھی ایرانی لوگ اسے حاصل کر کے رہیں گے کیونکہ علم کو ثریا کے ساتھ معلق نہیں کیاجاتا بلکہ مقصد یہ ہے کہ تم تک پہنچنا کتنا ہی دشوار یوں نہ ہوباہمت لوگ وہاں سے بھی حاصل کرکے رہیں گے

آپؐ نے فرمایاجوشخص علم کو حاصل کرنے کےلئے گھر سے نکلے تاکہ باطل کورد کرکے حق کو نمایاں کرے یاگمراہی کی روک تھام کرکےہدایت کاراستہ ہموار کرے تو اس کا یہ عمل چالیس سال کی عبادت سے افضل ہے

بروایت بحارالانوار امام جعفر صادق علیہ السلام سے منقول ہے کہ حضرت رسالتمآبؐ نے فرمایا جب قیامت کے روز ایک عالم پیش ہوگا تو اپنی نیکیوں کو تہ بہ تہ بادلوں اورسر بفلک پہاڑوں کی طرح دیکھے گا وہ ازراہ حیرت عرض کرے گا یہ نیکیاں میرے نامہ اعمال میں کہاں سے آگئی ہیں حالانکہ میں تو ان کی بجالای انہیں ہوں پس اس کو جواب ملےگا کہ یہ تیرے علم کے آثار ہیں جو تو نے لوگوں کوتعلیم کیاہے اور تیری موت کے بعد اس پر عمل ہوتارہاہے آپ نے فرمایا مرنے کے بعد انسان کاعمل ختم ہوجاتاہے لیکن تین چیزوں سے اسکا عمل جاری رہتاہے

1 وہ علم جس سے لوگ اس کے مرنے کے بعد بھی نفع اٹھاتے رہیں 2 صدقہ جاریہ 3 نیک اولاد جو اس کےلئے دعاکرتی ہے

حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا جو شخصکسی کو علم سکھائے تو اس کے نامہ اعمال میں ان لوگوں کی نیکیاں بھی لکھی جائیں گی جو اس پر عمل کریں گے کسی نےسوال کیاکہ اس کو کوئی غیر پڑھادے تو آپ نے فرمایا اگر اسکو سارے لوگ پڑھائیں تب بھی اس کےلئے وہ عمل جاری رہے گا اس نےعرض کیا کہ اگر وہ مرجائے آپ نے فرمایاکہ ااگر مربھی جائے تب بھی یہ سلسلہ منقطع نہ ہوگا

حضرت رسالتمآبؐ سے منقول ہے کہ دانائی کا کلمہ کسی بے وقوف سےسنو تو اسے قبول کرلو اور بے وقوفی کلمہ کسی دانا سے سنو تو اسے چھوڑ دو کیونکہ ہر دانا لغزش کرسکتاہے اور ہر بے وقوف کو کچھ نہ کچھ تجربہ ہواکرتاہے

آپ نے فرمایا مجھے امت سے تین چیزوں کا خطرہ ہے 1 قرآن کی غلط تاویل کریں گے 2 عالم کی لغزش کے پیچھے پڑھائیں گے 3 ان میں مل زیادہ ہوگا تو سرکش بن جائیں گے لیکن ان سے بچنے کاطریقہ بھی سن لو 1 قرآن مجید کے محکمات پر عمل کرنا اور متشابہات پر صرف ایمان لانا 2 عالم کی لغزش کے پیچھے نہ پڑنا بلکہ انتظار کرنا کہ وہ کب اپنی لغزش سے پلٹتا ہے 3 مال ملنے پر اللہ کا شکر کرنا حضرت امیرالمومنین علیہ السلام نے فرمایاکہ جب عالم کے پاس بیٹھو تو اس سے سننے کی کوشش زیادہ کرو اور خود بولنے اور اس کی سنانے کی کوشش کم کرو اور اچھے طریقے سے سنناسیکھو جس طرح اچھے طریقہ سے بولنا سیکھتے ہو اور بات کو ٹوکنا چھوڑدو

حضرت امیرالمومنین علیہ السلام سے منقول ہے کہ عالمکے حقوق یہ ہیں 1 اس پر سوالات کی بھر مارنہ کرو 2 اسکے کپڑے کو پکڑ کر نہ کھنیچو 3 جب اس کے پاس پہنچو اور اس کے پاس لوگ بھی ہوں تو پہلے سب پر سلام کہو اور پھر عالم کو مخصوص کرکےسلام کہو 4 اس کےسامنے بیٹھو پیچھے نہ بیٹھو 5 اس کی طرف آنکھ سے اشارہ نہ کرو 6 اور نہ اس کی طرف ہاتھ سےاشارہ کرو 7 جب وہ کوئی مسئلہ بیان کرے تو اس کےسامنے دوسرے اقوال بیان نہ کرو جو اس کے قول کے خلاف ہوں کہ فلاں تو یہ کہتاہے اور فلاں یہ کہتاہے 8 عالم کے پاس بیٹھ کر طور صحبت سے تھک نہ جاؤ کیونکہ عالم کی مثال ایک پھلدار کھجور کی سی ہےے نہ معلوم وہ کس وقت تمہارے اوپر پختہ پھل گرائے گی پس اسی طرح عالم کا بھی انتظار کرو کہ کس وقت علمی مسئلہ بیان کرتاہے ؟ اور عالم کااجر شب بیدار روزہ دار اور مجاہد فی سبیل اللہ سےزیادہ ہوتاہے پس کوئی عالم مرتاہے تو عالم اسلام میں ایسا رخنہ پڑتاہے کہ اس کوکوئی چیز پر نہیں کرسکتی تابوم قیامت

حضرت امام زین العابدین علیہ السلام نے ایک حدیث میں فرمایاکہ علم میں رہبری کرنے والے کے تجھ پر یہ حقوق ہیں 1 اس کی مجلس کی توقیر وتعظیم کر 2 اسکی طرف متوجہ رہو اور اس کی باتوں کوکان دھر کے سنو 3 اپنی آوازکو اس کی آواز سے بلند نہ کرو 4 جب تمہارے سامنے کوئی شخص ان سے مسئلہ پوچھ رہا ہوتو تم اسکا جواب نہ دینے لگ جاؤ بلکہ وہ خود ہی اس کا جواب دیں گے 5 عالم کی صحبت میں بیٹھ کر کسی دوسرے سے باتیں نہ کرو 6 ان کے سامنے بیٹھ کر کسی کاگلہ نہ کرو 7 جب تمہارےسامنے لوگ ان کا گلہ کررہے ہوں تو تمہارے اوپر ضروری ہے کہ اس کا دفاع کرو 8 اگر تمہیں اس کاکوئی عیب معلوم ہو تو اسے لوگوں کےسامنے بیان نہ کرو 9 انکی اچھی باتیں لوگوں کو سناؤ 10 اسکےدشمنوں سے میل جول نہ رکھو 11 اسکےدوستوں سےدشمنی نہ کرو اگر ان ہدایات پر عمل کرو گے تو ملائکہ تمہارے حق پر گو ہی دیں گے کہ واقعی تم نے علم خوشنودی خداکےلئے حاسل کیاہے بندوں کےلئے نہیں حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا میں تین قسم کےآدمیوں کو قابل رحم سمجھتاہوں اور انکا حق ہے کہ ان پر رحم کیاجائے 1وہ عزت دار جوذلیل ہوجائے 2 وہ دولتمند جو فقروفاقہ میں مبتلاہوجائے 3 اور وہ عالم جسکی ناہل اور جاہل لوگ توہین کریں

آپ سے سوال کیاگیاکہ اگرکوئی شخص کسی کی تعظیم کےلئے کھڑا ہوجائے تو یہ درست ہے ؟ آپ نے فرمایا میں اسے ناپسندکرتاہوں مگر یہ کہ آنے والے انسان کےدین کےلئے ایسا کیاجائے تو درست ہے

ایک تبصرہ شائع کریں