التماس سورہ فاتحہ برائے والد بزرگوار،جملہ مومنین و مومنات،شھداۓ ملت جعفریہ ، خصوصاً وہ جن کا کوئی سورہ فاتحہ پڑھنے والا نہ ہو۔ یہاں کلک کریں

Search Suggest

اسم اعظم

اسم اعظم

 اسم اعظم

اس میں شک نہیں کہ خواہش نفس ہی تمام بد عادات کا سرچشمہ ہے دیکھئے خداوند کریم کے اسماء طاہرہ میں سے ہر اسم ، اسم اکبر اور اسم اعظم ہے اور جس کے پاس ایک اسم اعظم بھی ہو وہ صاحب کرامات ہو جاتا ہے لیکن اس کا مطلب یہ ہر گز نہیں کہ اللہ کے کسی نام کو اپنا وظیفہ بنایا جائے اور روزانہ رٹ لگاتا رہے بلکہ مقصد یہ ہے کہ تخلقا باخلاق اللہ کے ماتحت اپنے اندر اس نام کے اثرات کو جذب کیا جائے مثلاً رحمان اسم اعظم ہے لیکن صرف زبانی ورد کافی نہیں جب تک کہ صفت رحمت حتی الامکان اپنے اندر جذب نہ کرے اسی طرح اللہ اکبر بھی اسم اعظم ہے لیکن بشرطیکہ اس کا معنی اپنے اندر پیدا کرے یعنی جس طرح زبان سے کہتا ہے کہ کبریائی ذات اللہ کے لئے ہے تو اس کا عملی  ثبوت اپنے اندر اس طرح پیدا کرے کہ اس کے کردار گفتار و رفتار میں کسی قسم کا تکبر و انانیت نہ پائی جائے اس ریاضت کے بعد جب اسم اللہ اکبر کو ورد زبان بنائے گا تو یہ اسم اس کے لئے اسم اعظم ہو گا میں جب اپنے حالات زندگی پر نظر کرتا ہوں تو مجھے اپنے اکثر افعال میں تکبر کا رنگ نمایاں نظر آتا انسان کا یہ چاہنا کہ میرے جوتے کا تسمہ بھی دوسرے کے تسمے سے اچھا تکبر ہے۔ جیسا کہ گزشتہ صفحات میں بیان ہو چکا ہے تو مجھ جیسا انسان کب دعٰوی کر سکتا ہے ۔ کہ میں تکبر سے بری ہوں اس کا مطلب یہ نہ سمجھئے کہ اچھا لباس پہننا یا اچھی سواری پر سوار ہونا بری چیز ہے بلکہ مقصد یہ ہے کہ دوسروںکی تحقیر و توہین کو ذہن میں رکھ کر دوسروں سے مقابلہ کے طور پر ان سے بڑھ چڑھ کر اپنی پوزیشن بنانا تکبر ہے اور بری صفت ہے مثال کے طور پر جب ایک جگہ چند کرسیاں خالی پڑی ہوں اور انسان اپنی ذاتی مرضی کی بناء پر کسی کرسی پر نہ بیٹھے اور کھڑا ہونا پسند کرے تو اس کھڑے ہونے میں کوئی کسر شان محسو نہیں کرے گا لیکن اگر چندآدمی آکر کرسیوں پر بیٹھ جائیں  اور وہی کرسیاں پر ہو جائیں حتا کہ اس کے لئے کوئی کرسی نہ بچے تو فوراً طبعیت پر بوجھ پڑنا شروع ہو جائے گا اور دل گھٹے گا اور نفس اس کھڑے ہونے کو اپنے لئے کسر شان سمجھے گا گویا اس کھڑے ہونے کو کسر شان سمجھنا صرف دوسروں کے بیٹھ جانے کی وجہ سے ہے نہ کہ ذاتی طور پر کھڑا ہونا انسان کی کسر شان ہے اور یہی ہے تکبر۔ بس کی سواری ہو یا گاڑی کی سواری ہو اپنی مرضی سے اگر کھڑا ہو جائے تو کچھ بھی محسوس نہیں ہوتا۔ لیکن اگر سیٹ نہ ملے تو بہت زیادہ گھٹن محسوس ہوتی ہے اس قسم کی گھٹن اور کڑھن علامات تکبر میں سے ہے اگر اس کے ساتھ چندآدمی اور بھی کھڑے ہوں تو یہ گھٹن کم ہو جاتی ہے ۔ اور اگر کسی وقت سب بیٹھے ہوئے لوگوں کو کھڑا ہونا پڑ جائے تو گھٹن بالکل ختم ہو جاتی ہے ۔ اور ماحول کی تبدیلی سے یہ انداز بھی بدل جاتا ہے کیونکہ مقرر واعظ اور خطیب کا مجمع عام میں کھڑے ہو کر بیان کرنا اس کی شان ہے اور یہی وجہ ہے کہ خطبہ جمعہ وعیدین میں کھڑے ہونا امام کی شان ہے ان مقامات پراگر سننے والے کھڑے ہو جائیں تو اس کی کسر شان اور توہین متصور ہو گی اور خطیب  و واعظ کی شان تکبر نہیں بلکہ اللہ نے عوام کے مقابلہ میں اس کو یہ مرتبہ عطا فرمایا ہے جس پر اے شکر گزار ہونا چاہیے ۔ کلمہ لا الہ الا اللہ اسم اعظم ہے لیکن اس طرح کہ انسان اپنے اپنے نفس سے الوہیت کوختم کر دے اور صرف اللہ کو ہی الہ مانے کیونکہ خواہش نفس کی پیروی کرنے والوں کی خدا نے مذمت کی ہے اور فرمایا ار ایت من اتخذ الھہ ہواہ کیا آپ نے اس شخص کو دیکھا جس نے اپنی خواہش نفس کو الہ بنا لیا گویا خداوند کریم کی منشاء کے خلاف نفس کی خواہش کوپورا کرنا ایسا ہے جیسا کہ نفس کہ الہ مان لیا جائے تو کلمہ مذکورہ لا الہ الا اللہ کو ورد زبان جاری کرنے کے لئے ضروری ہے کہ پہلے غیر اللہ کی الوہیت کو ٹھکرا دے حتا کہ اپنی خواہش نفس کو تابع فرمان پروردگار بنا دے اور یہی جہاد اکبر ہے جس کا بیان پہلے بھی ہو چکا ہے پس  جب اس جہاد میں انسان کامیاب ہو جائے تو تمام عادات بد کا وجد سے قلع قمع ہو جاتا ہے ۔

تکبر بہت بری صفت ہے لیکن کسی متکبر کے تکبر کو توڑنے کے لئے اس کے سامنے تکبر کرنا برا نہیں چنانچہ حضرت رسآلتمابؐ کی سیرت طاہرہ کا مطالعہ کرنے والےجانتے ہیں کہ آپ ہر آنے والے کا تواضع سے استقبال فرماتے تھے لیکن اگر کوئی متکبر انسان داخل دربار ہوتا تو آپ بھی اس کے تکبر کو توڑنے کےلئے اس سے متکبرانہ انداز سے پیش آتے تھے ۔

قدیم سے علمائے کرام کا یہی دستور چلا آیا ہے لیکن اس گئے گذرے دورے میں جہاں اور اقدار شرعیہ نظر انداز ہوگئیں وہاں علماء بھی اپنے فرائض سے پہلو تہی کرتے نظر آئے اور صفت تکبر جو بد ترین اخلاق میں سے ہے علماء میں بھی اس نے اپنامقام پیدا کر لیا ہے حتا کہ نہ صرف عوام کو بلکہ خواص کو بھی نظر استحقار سے دیکھنا علماء نے اپنی شان سمجھ رکھا ہے اور بعض علماء یہ چاہتے ہیں کہ ہمارے پیچھے چلنے والوں کی کثرت ہوتا کہ لوگ سمجھیں یہ بڑا عالم ہے اور حضرت امیر المومنین علیہ السلام کا صریح فرمان اگرچہ سامنے ہے کہ بڑائی کےلئے علم کا حاصل کرنا بھی گناہ ہے لیکن پھر بھی رفتار میں تکبر، گفتار میں تکبر، اور کردار میں تکبر، اپنی عالمانہ شان بنائی گئی ہے ۔ اور معصومین کا فرمان صرف تقریر اور خطابت تک ہی محدود کر دیا گیا ہے ۔ حالانکہ ارشاد خداوندی ہے افتامرون الناس بالبر وتنسون انفسکم یعنی کیا تم لوگوں کو نیکی حکم دیتے ہو اور اپنے نفسوں کو فراموش کرتے ہو؟ لم تقولون مالا تفعلون تم ایسی باتیں کیوں کرتے ہو جن پر خود عمل پیرا نہیں ہوتے !

اللہ کو تویہ بھی پسند نہیں کہ متکبر لوگوں سے دوستانہ میل جول رکھا جائے لیکن دور حاضر کے بعض علماء ایسے بھی ہیں کہ عوام کے سامنے متکرانہ انداز کو اپنانا شان علم سجھتے ہیں لیکن جب امراء متکبرین کے بارگاہ میں کاسہ لیسی کا لئے حاضر ہوتے ہیں تو تو تواضع کو اپنے اخلاق حسنہ کی دلیل بنا لیتے ہیں حالانکہ بمضمون روایات اچھے اور برے امیر اور اچھے و برے عالم کی پرکھ یہ بتائی گئی ہے اذا رایتم العلما ء علی باب الامراء فھم شر العلماء واذا رایتم الامرا و علی باب العلماء فھم خیرا الامراء کہ جب علماء کو امراء کے دروازوں کا طواف کرتے دیکھو تو سمجھو کہ وہ بد ترین علماء ہیں اور جب امراء کو علماء کے دروازوں کی طرف جھکتا دیکھو تو سمجھو کہ وہ بہترین امراء ہیں۔

اسی بناء پر حدیث معصوم میں جہاں علماء کی تقلید کو عوام پر واجب قرار دیا ہے  وہاں شرط لگا دی ہے کہ ایسے فقہاء علماء کی تقلید کرو جو خواہشات نفسکے دلدادہ اور دین کو دنیا کے بدلہ میں بیچ دینے والے نہ ہوں من کان من الفقھاء صائنالنفسہ حافظا لدینہ مخالفا علی ھوہ مطعیا لا مر مولاہ فللعوام ان یقلدوہ (اوکما قال) یعنی فقہاء میں سے جو بھی اپنے نفس کی برائیوں سے نگہداری کرنیوالا اپنے دین کی حفاظت کرنیوالا اپنے دین کی حفاظت کرنیوالا اپنے نفس کی خواہشات کی مخالفت کرنیوالا اور اپنے مولا کے حکم کر فرمانبردار ہو عوام کو چاہیے کہ اس کی تقلید کریں ۔

ایک تبصرہ شائع کریں