التماس سورہ فاتحہ برائے والد بزرگوار،جملہ مومنین و مومنات،شھداۓ ملت جعفریہ ، خصوصاً وہ جن کا کوئی سورہ فاتحہ پڑھنے والا نہ ہو۔ یہاں کلک کریں

Search Suggest

مکارم اخلاق

مکارم اخلاق

 مکارم اخلاق

حضرت امام محمد باقر علیہ السلام  نے فرمایا کہ جناب  رسالتمآبُ نے حضرت علی علیہ السلام  کو چند وصیتیں فرمائیں  1سچ بولنا  کہ تمہاری زبان کذب آشنانہ ہو  2درع    پرہیزگاری  کبھی تم سے خیانت نہ ہو 3 اللہ کا خوف اس طرح رکھو کہ گویا تم اسے دیکھ رہے ہو   4خوف خدا سے گریہ کیونکہ ایک ایک  آنسوں  کے بدلہ میں جنت کا گھر ملے گا 5 اپنے دین کی حفاظت کے لئے مال وجان کی قربانی سے گریز نہ کرنا 6 نماز روزہ اور صدقہ میں میری سنت  کو نہ چھوڑنا  نماز پچاس رکعت ہے  اور ہر ماہ میں تین دن کے روزے پہلا خمیس درمیانہ بدھ اور آخری خمیس  اور صدقہ اتنا دو کہ لوگ کہیں فضول خرچی ہے حالانکہ یہ فضول خرچی نہیں ہے 7 نماز شب  کو نہ چھوڑنا نماز شب کو نہ چھوڑنا نماز شب کو نہ چھوڑنا  8ہر حالت  میں قراءت  کو جاری رکھنا  9 نماز میں ہاتھوں کا قنوت یاتکبیر  کے لئے بلند کرنا 10 ہر نماز کے وقت  مسواک کرنا 11 خوش خلقی  کو لازم اختیار کرنا بداخلاقی  سے گریز کرنا اگر ایسا نہیں کرو گے تو پھر  اپنے نفس کو ہی ملامت کرنا

تشریح

 آپ  نے نماز پچاس رکعت  بیان فرمائی  حالانکہ دوسری  روایات میں علامات مومن کو بیان کرتے ہوئے  معصومین نے نماز کی کل رکعات اکاون بتائیں غالبااس حدیث  میں نافلہ  وتیرہ کو ترک  کیا گیا ہے  یعنی  جو نماز عشاء کے بعد دورکعت  بیٹھ کر پڑھی جاتی ہے تفصیل اسکی یہ ہے فرض رکعات کل سترہ  ہیں  دوصبح کے لئے چار ظہر  اور چار عصر  کے لئے تین مغرب  اور چار عشاء کےلئے  یہ کل سترہ رکعات ہیں جن کاادا کرنا اپنے اوقات  پر فرض ہے  اور جنکا ترک کرنا سخت گناہ  ہے اور انکے علاوہ شب وروز  میں مقرر کردہ نافلہ  کی تعداد متزکرہ بالا روایت میں تینتیس بتائی  گئی ہے  دورکعت  صبح کے لئے آٹھ رکعت ظہر  کےلئے  اور آٹھ عصر کےلئے چار مغرب کے لئے  اور گیارہ رکعت نماز شب ہے یہ کل 33 بنتی  ہیں  اس کے بعد نماز شب کا الگ بھی ذکر فرمایااور تین مرتبہ تاکید ا فرمایا اور حضرت امیرالمومنین  علیہ السلام  کو خطاب کرکے وصیت کرنے کا مقصد  یہ نہیں کہ یہ اوصاف حجرت علی میں نہ تھے  اورآپ  انکو سمجھانا  چاہتے تھے  بلکہ امت  کو تبلیغ کرنا مقصود تھا اور خطاب حضرت علی کوکیا گیا  جس طرح قرآن  مجید میں نصیحتین امت کےلئے  ہیں اور خطاب  حضرت پیغمبر  سے کیا گیا ہے

دوسری روایت میں ہے آپ نے  حضرت علی سے فرمایا مکارم اخلاق میں سے تین باتیں ہیں  1اپنے ظلم کرنے والے سے درگزر کرنا 2 قطع رحمی کرنے والے سے صلہ رحمی کرنا اور جو تم سے جہالت برتے اس سے بھی حلم کابرتاؤ کرنا

ایک مرتبہ امام حسن  علیہ السلام  نے  اپنے خطبے  میں ارشاد فرمایا کہ میرا ایک بھائی تھا جو مجھے بہت ہی پیارا تھا اور اس میں یہ اوصاف تھے 1 دنیا  کو حقیر  سمجھتا تھا 2 اپنے شکم کی حکمرانی سے باہر تھا نہ ملنے  والی شئی  کی خواہش نہیں کرتا تھا اور مل جاتی تو ضرورت سے تجاوز نہ کرتا تھا  3اپنی شرمگاہ کی حکومت سے باہر تھا پس نہ اس کی عقل میں ہلکا پن  تھا اور نہ  اس کی رائے کمزور تھی 4  جہالت  کی بالادستی سے باہر تھا  ہاتھ نہ بڑھاتا مگر اس طرف کہ جہاں سے اس کو نفع کی اُمید ہوتی تھی 5خواہشات کی  اس میں زیادتی  نہ تھی 6 غصہ اس کے پاس نہ تھا 7کوفت وتھکان محسوس نہکرتاتھا8 عموما خاموش رہتا تھا اور جب بولتا تھا تو باقی بولنے والوں پر غالب رہتا تھا 9 جھگڑا نہیں کرتا تھا 10 کسی دعویٰ میں شریک نہیں ہوتا تھا 11قاضی کے بغیر کوئی حجت پیش نہیں کرتا تھا 12 اپنے بھائیوں سے غفلت نہیں برتتا تھا 13 اپنے منافع میں بھائیوں  کو شریک کرتا تھا 14 کمزور تھا اور کمزورسمجھاجاتا تھا لیکن جب کوئی موقع آتا  تھا تو حملہ آور شیر معلوم ہوتا تھا15اور کسی  کو ملامت نہ کرتاتھا  ایسے معاملہ میں جس کا عذر پیش کیاجاسکتا ہو اور عذر کو قبول کرلیتا تھا 16جوکہتا تھاکرگزرتا تھا  بلکہ اس سے بھی زیادہ کرتا تھا 17 جب اس کے سامنے دو امر پیش ہوتے  اور معلوم نہ ہوسکتا کہ کس کو اختیار  کرنا چائیے  تو اس امر کو اختیاکرتا تھا جس میں خواہش نفس کی زیادہ مخالفت  کرنی پڑتی تھی 18 اپنی تکلیف کی شکایت نہ کرتا تھا مگر ایسے لوگوں  کے سامنے جن سے تندرستی  کی امید ہوسکتی تھی 19 ایسے شخص سے مشورہ لیتا تھا جس سے خیر خواہی کی اُمید  کی جاسکتی تھی 20ملول  طبع  نہ تھا21 غصہ  مزاج نہ تھا 22 شکایت کا عادی نہ تھا 23شہوت کا دکدادہ  نہ تھا 24 انتقام نہ لیتا تھا 25 اور دشمن سے غافل بھی نہ رہتا تھا

پس اے مومنین  تم کو ایسے اخلاق  کریمانہ اپنے اندر پیدا کرنے چائیں  اگر ان میں سے سب کی طاقت نہ ہوتوجس قدر ہوسکے  اختیار کرلو کیونکہ سب کے  چوڑدینے سے کچھ نہ کچھ کالے لینا بہتر ہے ولا حول ولا قوۃ الا باللہ

حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام  نے مکارم اخلاق دس عدد بیان فرمائیے  یقین قناعت  صبر وشکر علم احسن خلق سخاوت  غیرت شجاعت مروت اور دوسری روایت میں علم کیجگہ رضاکو بیان کیا گیا ہے

ایک روایت میں ہے کہ آپ  نے فرمایا مکارم اخلاق دس ہیں  اگر کرسکو تو اپنے اندر پیدا کرو کیونکہ یہ صفات بعض اوقات باپ میں ہوتی ہیں  اور بیٹا محروم ہوتا ہے اور بعض اوقات بیٹے میں ہوتے ہیں  اور باپ ان سے خالی ہوتا ہے  اور اسی  طرح بعض اوقوات غلام میں ہوتی ہیں  اور آزاد ان سے خالی  ہوتا ہے  اور وہ یہ ہیں  1جوانمردی  2سچائی 3امانتداری  4صلہ رحمی  5مہمان نوازی  6سائل کو دینا 7 نیکی کرنے والے کا بدلہ 8اپنے ہمسایہ کے لئے  تذمم9 ساتھی کے لئے تزمم10 اور ان سے ب افضل حیا  ہے تزمم کا معنی کیا گیا ہے کہ ہمسایہ  یا ساتھی  پر ظلم ہو رہاہو  اور اس کو قدرت حاصل  ہو تو ان سے ظالم کے ظلم کو دور کرنے  میں کوتاہی نہ کرے

فقہ رضوی سے منقول ہے کہ  حضرت آدم علیہ السلام کو وحی ہوئی کہ تجھے چار کلمات میں عطا کرتا ہوں  ایک صرف میرے ساتھ مخصوص ہے دوسرا تیرے لئے ہے اور تیسرا میرے اور تیرے درمیان ہے  اور چوتھا تیرے اور باقی لوگوں کے درمیان ہے  1جو میرے  لئے مخصوص ہے  وہ یہ کہ میرے ساتھ خالص ایمان رکھو اور کسی کو میرا شریک نہ بناؤ 2جو تیرے  لئے مخصوص  ہے وہ یہ ہے کہ میں تجھے جزا اس وقت دوں گا جب تو اس کا نہایت حاجتمند ہوگا  3جو میرے اور تیرے درمیان  ہے  وہ یہ  کہ تیرا کام ہے دعا مانگنا اور میرا کام ہے عطاکرنا 4 اور چوتھی  چیز جو تیرے اور باقی لوگوں کےلئے  ہے  وہ چیز پسند کرو جو تمہیں اپنے لئے پسند ہو اور لوگوں کے لئے وہ چیز قطعا پسند  نہ کرو جو تمہیں اپنے لئے پسند نہ ہو

حضرت امام موسیٰ کا ظم  علیہ السلام  سے دریافت کیا گیا کہ انسان کی زینت کیاکیاچیزیں ہیں تو آپ نے فرمایا 1وقار  انسان کی زینت  ہے بشرطیکہ  اس میں لوگوں کےدلوں میں خوف وہراس پیدا کرنا نہہو 2سخاوت  زینت ہے جبکہ بدلہ لینے کی نیت نہ ہو  3 دنیا  کی صلاح کے علاوہ کوئی دوسرا شغل  اختیار کرے    یعنی جس میں دین کی بھلائی کا راز مضمر ہو

  تنبیہ

صفات مزمومہ  کے اصول جو گذشتہ صفحات میں درج کئے جاچکے ہیں غضب  شہوت حرص اور حسد  یہ جسمانی  اعضاء کے لوازم میں داخل  ہیں کیونکہ انسان کا جسم عناصر اربعہ سے مرکب ہے اور ہر عنصر کی الگ الگ خاصیت ہے پس غضب  صفراوی  مزاج اور عنصر ہوا کی پیداوار ہے اور حسد  سوداوی مزاج اور عنصر تراب کی پیداوار ہے  اور باقی اوصاف  رذیلہ کی بازگشت انہی کی طرف ہے  پس صفات پر کنٹرول  کرنے کے لئے ضروری ہے  کہ مزاج انسانی میں افراط وتفریط  کو روکا جائے اور یہ روحانی طور پر آل  محمد  کے فرامین کے ذریعے سے  بھی ان قوتوں کی حدت اور سختی کو نرم اور رو باصلاح کیاجائے  خدا وندکریم  تمام مومنین کو

 تو فیق خیر  مرحمت فرمائیے

اور اس میں شک  نہیں  کہ صفات بدکا ختم ہوجانے یاکنٹرول میں آکر  اعتدال قبول کرلینے  کےساتھ  ہی صفات  حسنہ  ان کیجگہ لے لیا کرتی  ہیں  کیونکہ ان کو کہیں  باہر سے نہیں لانا پڑتا  پس صفات حسنہ اوراخلاق حمیدہ کے اپنے اندر پیدا کرنے کا مقصد صفات بدکا ختم کرنا ہے۔ 

ایک تبصرہ شائع کریں