التماس سورہ فاتحہ برائے والد بزرگوار،جملہ مومنین و مومنات،شھداۓ ملت جعفریہ ، خصوصاً وہ جن کا کوئی سورہ فاتحہ پڑھنے والا نہ ہو۔ یہاں کلک کریں

Search Suggest

مسئلہ استمداد

مسئلہ استمداد

مسئلہ استمداد

 دشمنان آل مُحمد  کے نزدیک چونکہ اللہ اور مخلوق کےدرمیان آل مُحمد کو وسیلہ قرار دیناان کے مسلک کے باطل ہونے کی بین دلیل بنتی ہے لہذا انکےقلب وجگر پر انکو وسیلہ کہنا  کوہ گراں کی طرح شاق ہے اسی بناء پر یاعلی مدد اوریاعباس وغیرہ کے نعرے ان کےلئے ناقابل برداشت ہوجاتے ہیں

لیکن سوچنے کے قابل یہ بات ہے کہ اگر ایک فرقے کے نظرئیے کے ماتحت اللہ  اور مخلوق  کےدرمیان  وسیلہ کی ضرورت نہ ہوتو کیاآزادی ضمیر کے ماتحت اس قرقہ کو یہ حق بھی پہنچتاہے کہ وسیلہ کی حرورت محسوس کرنے والوں کو بزدری  اپنا ہم خیال بنائے اور ان پر اپنا نظریہ ٹھونسنے کی سعی لاحاصل ہیں دماغ کھپاتاپھرے ؟ تو میرے خیال میں انسانی  فطری نظریاتی آزادی کے حق میں ووٹ دینے والے لوگ اس طرز  عمل کو پست ہتمی  اور کوتاہ نظری  سے ہی تعبیر کریں گے

شیعہ لوگ جہاں اور جب بھی آل مُحمد  کو پکارتے ہیں یقینا انکو خدایا خداکا شریک جان کر نہیں پکارتے بلکہ مُحمد وآل محمد سے ہوولہانہ محبت ان کو ہوتی ہے اس کااظہار یامُحمؐد یاعؑلی  یافاطمؑہ  یاحؑسن یاحسؑین  یاعباؑس علیہم السلام کے الفاظ  زبان پرلاکرکر تے ہیں اور اس طرح انکو روحانی تسکین حاصل ہوتی ہے جس طرح ہر محب  کو محبوب کے ذکر سے تسکین ہواکرتی ہے

ثانیا امیر شام  نے جو حضرت علیؑ  کی محبت پر بین لگایا تھا اور گلی گلی کوچہ کوچہ  میں آپ پر سب دشتم کرنے کا آرڈی ننس جاری کیاتھا حتاکہ ہر خطیب وواعظ حضرت علیؑ کو منبروں پر سب کرتے ہوئے خوشی محسوس کرتا تھا کیونکہ اس طریقہ سے  وہ مقرب  بارگاہ حکومت سمجھاجاتاتھا  اور جب تک امری حکمرانوں  کی جانب سے سب کرنیوالوں کی حوصلہ افزائی ہوتی  رہی سب ہوتارہا اور جب حکومت نے پہلو بدلا تو نظریاتی تبدیلیاں بھی منظر عام پر آگئیں  زبانوں سے تشدد کے قفل کھلے تو آل محُمد  کے حق میں کچلے جانے والے جذبات محبت ازسرنو ابھرنے  لگے پس جتنا بھی نام علیؑ کو دبایا  گیا اس سے کہیں زیادہ ابھرتاگیا اور ولائے آل محمد کی  دبی ہوئی چنگاریاں ازسر نوسلگنےلگیں  اور دن بدن زور پکڑتی گئیں حتاکہ دلوں میں شعلہ عشق  بن کر بھڑک اٹھیں پس زبانیں دل کے جذبات  کو منظر عام پر لانے کےلئے بے تابانہ علیؑ علیؑ  کا نعرہ بلند کرنے لگیں  اورجہاں کہیں بھی دشمنان علیؑ کا جھمگہت  دیکھامتوالوں نے زور شور سے نعرہ ہائے حیدری  بلند کرنا اپنا فریضہ محبت قرار دیا چنانچہ یاعلیؑ مدد کا ہمہ گیر فقرہ اسی فلسفہ کے ماتحت روزافزوں اپنا حلقہ اثر بڑھاتاچلاگیاہے کیونکہ کسی بھی نظریہ پرجب تشدد کا پہرہ بٹھادیا جاتاہے تو دور رس نگاہیں خواہ مخواہ اسکاتعاقب کرتی ہیں اور طبعتیں  اس کے جائز وناجائز کا سراغ لگا کر کسی نتیجہ تک پہنچنے  کےلئے بے چین رہتی ہیں اسی لئے وہ تحریک بہت زیادہ دور رس ہوجاتی ہے اور ہمہ گیر بن جاتی ہے جسکوتشدد  سے دبانے  کی کوشش کی جائے ہم نے بعض موالیوں سےدریافت کیاکہ تم السلام علیکم کے بجائے یاعلی مددکیوں کہتے ہوتوجواب ملاکہ ہم چونکہ دشمنان علیؑ کوسلام  کے قابل نہیں سمجھتے اسی لئے پہلے آزمائشی طور پر یاعلی مدد کہتے ہیں پس اگر مخاطب  نے مولاعلی مدد کہکر محبت علیؑ کا ثبوت پیش کیا  تو ہم اس کو سلام کے قابل سمجھ کر اسلام علیکم  کہتے ہیں ورنہ خاموشی سے آگے بڑھ جاتے ہیں

بہر کیف شیعہ  کے نزدیک چونکہ محمد وآل محمد علیہ السلام  اللہ اور مخلوق کےدرمیان وسیلہ ہیٰں لہذا ان کی مددسے  مراد ان  کو بارگاہ خداوندی تک وسیلہ بنانا ہے لہذایہ کہنا یاعلیمدد اور یاعباس ادرکنی یاس قسم کے اورخطابات جن میں آل محمؐد کوپکاراجاتاہے ایاک نستعین کے منافی نہیں کیونکہ محمدوآل محمد  علیھم السلام  کی مدد درحقیقت  اللہ کی مدد ہے تفسیر  انوار النجف جلد  2 میں تفصیل ملاحظہ فرمائیں

ایک تبصرہ شائع کریں