التماس سورہ فاتحہ برائے والد بزرگوار،جملہ مومنین و مومنات،شھداۓ ملت جعفریہ ، خصوصاً وہ جن کا کوئی سورہ فاتحہ پڑھنے والا نہ ہو۔ یہاں کلک کریں

Search Suggest

مومن کی موت

بروایت کافی حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے حضرت رسالتمآب سے نقل فرمایاکہ جب مومن کی موت کا وقت آتا ہے تو خدا دو2 ہواؤں کا رخ

بروایت کافی حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام  نے حضرت رسالتمآب  سے نقل فرمایاکہ جب مومن کی موت کا وقت آتا ہے تو خدا دو2 ہواؤں کا رخ اس کی طرف پھیر دیتاہے ایک کانام منسیہ  اور دوسری کانام مسخیہ  ہے پس جب ہوائے  منسیہ چلتی ہے تو اس کو اپنے عزیز واقارت سب بھول جاتے ہیں اور جب مسخیہ چلتی ہے  تو وہ اپنے روح کی سخاوت کےلئے آمادہ  ہوجاتاہے اور موت کو پسند کرلیتاہے حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام  سے سوال کیاگیا کہ کیا مومن قبض روح  کونا پسند بھی کرتا ہے ؟ تو آپ  نے فرمایاکہ نہیں بلکہ ملک الموت قبض  روح کےلئے اس کے پاس آتاہے تو پہلے مومن گھبراتاہے لیکن  ملک الموت اس کو کہتاہے اے اللہ کے دوست تم گھبرؤ نہیں مجھے اس ذات کی قسم جس نے حضرت محؐمد  مصطفےٰ  کو نبی برحق معبوث فرمایا میں تیرے مہربان باپ سے بھی زیادہ تجھ پر شفقت اور نرمی کا سلوک  کروں گا  اب ذراآنکھیں  کھولو اور دیکھو چنانچہ وہدیکھتا ہے تو اس کےسامنے حضرت پیغمبؐر  علیؑ حضرت فاطمؑہ  حجرت امام حؑسن حضرت امام حسؐن  اور باقی آئمہ کی مثالیں موجود ہوتی ہیں اور اس کوکہاجاتاہے کہیہ حضرت رسول خُدا  حضرت امیرالمومنین  جناب بتوؐ ل  جناب حسؐن اورجناب حسیؐن  اور باقی آئمہ طاہرین علیہم السلام  موجود ہیں جنکےساتھ تو نے رہنا  ہے پس وہ ان کی زیارات سے مشرف  ہوتاہے پس رب العزت کی جانب سے ایک منادی نداکرتاہے یاایتھاالنفس المطمئنۃ الی محمد واھل بیتہ ارجعی الی ربک راضیۃ بالولایۃ مرضیۃ  باثواب فادخلی فی عبادی  یعنی محمد اواھل بیۃ  وادخلی جنتی ترجمہ اے نفس مطمئنہ (جومحؐمد  وآل محؐمد  سے مطمئن  ہے ) اپنے رب کی طرف رجوع کرکہ تو ولایت پر راضی ہے اور تجھے ثواب سے راضی کیاگیاہے  پس میرے بندوں (یعنی محؐمد وآل محؐمد علیہم السلام)کے زمرہ میں شامل ہوجا اور میری جنت میں داخل ہو پس اس وقت مومن مرنے والے کےلئے قبض روح سے زیادہ کوئی شئیے  محبوب تر نہیں ہوتی اور خوشی خوشی اس ند ا  کےساتھ چلاجاتاہے

ایک روایت میں ہے  آپ نے فرمایا کہ جب مرنے والے مومن کا کلام بند ہوجاتاہے تو حضرت رسالتمآب  اور دوسرے  بزرگوار تشریف لاتے ہیں پس رسولِ خدا دائیں جانب اور دوسرے بائیں جانب بیٹھتےہیں  اور حضرت رسولِ خدافرماتے ہیں کہ اے بندہ خدا یہ تیرا وہی امام ہے جس  کی تو ولا رکھتا تھا  اور جس چیز کا تجھے خوف تھا اب تو اس سےامن میں آچکا ہے پس دروازہ جنت کو اس کےسامنے کھول کر کہاجائے گا کہ یہ تیری جنت میں رہائش  گاہ ہے اگر تو چاہے تو تمہیں واپس دنیا کی طرف لوٹاتے ہیں اور اب وہاں بھی تیرے  لئے سونے وچاندی کانبار ہوگا  لیکن مومن جواب میں کہتاہے کہ اب مجھے واپسدنیا میں جانے کی ضرورت نہیں ہے پس اس کارنگ سفید ہوجائے گا اور پیشانی پر پسینہ کےقطرات نمودار ہوں گے ہونٹ سکڑیں گے  ناک  کے نتھنے کھلیں گے اور بائیں آنکھ سے آنسونکلیں گے اور ان علامتوں میں سے کوئ ایک علامت بھی ظاہر ہوتو وہکافی ہے پس روح جسم سے باہر آئے گی  تو پھرایک مرتبہ اس کو واپس  دنیا میں جانے کا اختیار دیاجائے گا لیکن مومن آخرت کودنیا سے ترجیح دے گا پس روح خود اپنے جسم کے غسل دینے اور جسم کو حرکت دینے میں غسالکےساتھ شریک ہوتی ہے جس جسم کو کفن میں داخل کیاجاتاہے اورتابوت  یاچار پائی پر رکھاجاتاہے تو قبرستان کی طرف اس کی روح سب سے آگے چلتی ہے پس (استقبال کے طور پر مومنوں کےارواح اس کو آکر ملتے ہیں اور اس کو سلام کے بعد اللہ کی جانب سے ملنے والی نعمات کی خوشخبری سناتے ہیں پس جب قبر میں رکھاجاتاہے توکمر تک روح اس میں واپس آجاتی ہے اور اس سے (عقائدکا) سوال  کیاجاتاہے پس جب جواب دے چکتاہے  تو اس کےسامنےجنت کاوہی دروازہ کھول دیاجاتاہے جو مرنے سے پہلے رسوؐل اللہ  نے اس کودکھلایا تھا  پس مومن کو جنت کانور ٹھنڈک اور خوشبوئیں  گھیر لیں گی اس مقام پر پہنچ کر سائل نےدریافت کیاکہ حضؐو ر  پھر فشار قبر  کہاں  گیا ؟ آپ نے فرمایایہ چیز مومنین کےلئے نہیں  ہے اسی بات کا تو ایک زمین دوسری زمین پر مخر کرتی ہے کہ میری پشت کے اوپر  ایک مومن چل رہاہے اور تیری پشت پر مومن نےقدم نہیں رکھا اب جو قبر میں پہنچے گا تو زمینکہے گی اے مومن جب تو میری پشت پرچلتا  تھا تو میں تجھے دوست رکھتی تھی اب جبکہ تو میرے پاس پہنچ گیاہے توتوُ دیکھے گا  کہ میں تیرے ساتھ کیاسلوک کرتے ہوں  پس اس کی حد نگاہ تک قبر کشادہ ہوجائے گی آپ نے فرمایاخدا کی قسم تمہارے اعمال ہی قبول ہواکرتے ہیں اور بخشش ضرور تمہارے  ہی لئے ہے پس راحت سرورخنکی چشم  اور تمہارے درمیان صرف قبض روح کا ہی فاصلہ ہے

آپ نے پھر تفصیل سے اس مقصد کو دھرایا اور فرمایا کہ مرنے کے وقت جناب رسولخدا  حضرت علؐی حضرت جبرئیل اور حجرت عزرائیل  ملک الموت مرنے والے کے پاس پہنچتے ہیں پس حضرت علی علیہ السلام  کہتے ہیں  اے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  یہ شخص ہم اہلبیت کا دوست ہے آپ بھی اس سے محبت کریں پس حضرت رسوؐل خدا جبریل کو فرماتے ہیں کہ یہ شخص اللہ ورسوؐل  وآل رسول کا محب ہے اور جبریل یہی کلمہ ملک الموت کےسامنے ددھرا کرکہتاہے کہ تم بھی اس سے محبت کرو اور اس کےساتھ نرمیکرو چنانچہ ملک الموت نزدیک ہوکر کہتاہے اے بندہ خدا کیا تجھے آدادی کا پروانہ مل چکا ہے اور برات  کےلئے امام نامہ  تجھے حاصل ہوچکاہے یعنی تو نے دنیا میں عصمت کبری  کےساتھ تمسک کیاتھا پس مرنےوالا بتوفیق  خُدا  جواب دیتاہے کہ ہاں پس ملک الموت پوچھتاہے کہ وہ عصمت کبریٰ  کیاچیز ہے  تو مومن کہتاہے کہ وہ ولایت علی بن ابی طالب علیہ السلام ہے  پس ملک الموت  کہتاہے  کہ درست ہے اور تجھے جس چنز سے خطرہ تھا اب تو امان  میں اچکا ہے  اور جس چیز  کی تجھے امید تھی  وہ تجھے مل چکی ہے اب حضرت رسولؐ خدا حضرت علی اور حضرت فاطمہ علیہم السلام  کی ہمراہی کی تمہیں مبارک ہو پس اس کی روح نہایت نرمی سے قبض کی جاتی ہے پس اسکا کفن اور حنوط (مسک اذفر) جنت سے آتا ہے  اور اس کو جنت کے کفن میں داخل کیاجاتاہے اور جنت کاحنوط اسکو کیاجاتاہے اور زود رنگ کے حلہ بہشتی کا اس کو لباس  پہنایا  جاتاہے پس جب قبر میں اتارا جاتاہے تو اس کےلئے جنت کادروازہ کھول دیاجاتاہے جس کی خوشبو اس کے مشام تک پہنچتی  ہے پھر  اس کےسامنےدائیں بائیں ہر طرف ایک ماہ کی مسافت کےبرابر قبر کو کشادہ کیاجاتاہے اور کہاجاتاہے کہ لم نومۃ العروس  یعنی  اس کیف سے سوجاؤ جس طرح شادی کی پہلی رات جوڑا خوشی وسرور کی لہروں میں ڈوب کر بستر آرام  وراحت پر سویاکرتاہے اور تمہیں نعیم جنت اور رضائے  پروردگار کی مبارک ہو پس وہ جنت میں آل مؐحمد  کی زیارت کا شرف حاصل  کرتاہے اور ان کےہمراہ کھاتا اورپیتارہے اور ان کےساتھ باتیں بھی کرتا ہے پھر جب ہمارا قائم ظہور فرمائے گا تویہ مومن ٹولہ ٹولہ ہوکر  لبیک لبیک کہتے ہوئے ان کی خدمت میں پہنچیں گے  پس باطل پرست  شک میں مبتلاہوں گے اور مقربون نجات پائیں گے حضرت رسالتمآب  نے حضرت علیؑ سے فرمایا  یاعلیؑ تیری اور میری ملاقات وادی سلام میں ہوگی

ایک تبصرہ شائع کریں