ناچ گانا
یہ قبیح امور شہوت کی پیداوار ہیں کیونکہ ان میں تسکین شہوت کا راز مضمر ہے
اور آج کل کے مسلمانوں کے اذہان معکوسہ پر تعجب آتا ہے جنہوں نے اس قسم کی بے ہودہ
حرکات کو بھی اسلامی ثقافت کا نام دیکر اسلام کو بد نام کرنے کی جسارت کی ہے اور
عورتوں کو محفلوں اور کلبوں میں نچانا یا عورتوں اور مردوں کامل ناچنا حیوانیت کا
بدترین مظاہرہ ہے جس سے شرافت و حیا اپنا منہ پیٹ کر رہ جاتے ہیں اور اس پر طرہ یہ
کہ عیاس طبع مردوں اور حیا فروش عورتوں نے اس فحاشی کو بھی نسوانی آزادی کا ایک حصہ
قرار دے رکھا ہے جب قرآن مجید نے عورت پر نظر کرنا ہی ممنوع قرار دیا ہے تو عورت
کے لئے ناچنا کہاں جائز ہو سکتا ہے جس میں مناظر حسن کو مردوں کے جاذب نظر انداز
میں پیش کر کے عورتی اپنے حسن فن کی داد و تحسین لیں اور ان کی دل کشی کا موجب بن
کر ان کو اپنے خفیہ اندام کا خریدار بنانے میں اپنی کامیابی سمجھیں اور بد
ترین ہیں وہ مرد جو عورتوں کی اس قسم کی
ایمان سوز حرکات کو زندہ دلی اور روشن خیالی کا تمغہ دیکر ان کے حوصلہ بڑھائیں ۔
ایک شخص نے امام جعفر صادق علیہ السلام کی خدمت میں عرض کی کہ میں بعض حاجات
ضروریہ کے لئے جاتا ہو تو وہاں پڑوس میں کچھ عورتیں گانے بجانے میں مصروف ہوتی ہیں
پس میں بھی سننے کے لئے کافی دیر تک وہاں بیٹھ جاتا ہوں تو اس میں کوئی حرج تو
نہیں ؟ آپ نے فرمایا ایسا مت کیا کرو اس نے پھر عرض کی کہ حضورؐ ! میں ان کے پاس
تو نہیں جاتا البتہ آواز کانوں میں پڑتی ہے اور سن لیتا ۔ آپ نے فرمایا کیا قرآن
میں نہیں ہے کہ بروز محشر کانوں ، آنکھوں اور دل سے بھی باز پرس ہو گی تیرا بہت
برا حشر ہوتا اگر تو اسی حالت میں مرجاتا پس جاؤ اللہ کا شکر کرو اور آئندہ کے لئے
توبہ کرو ہر اس امر سے جو اللہ کو ناپسند ہو اور اللہ قبیح کو ہی نا پسند فرماتا
ہے پس ایسی چیزوں کو ان لوگوں کے لئے رہنے دو جو اس کے اہل ہیں کیونکہ ہر کام کے
اہل الگ الگ ہوا کرتے ہیں امام محمد باقر علیہ السلام نے ایک شخص سے پوچھا کہ جب
حق و باطل کو ایک دوسرے سے الگ کیا جائے تو تمہارا کیا خیال ہے کہ گانا بجانا حق
کی طرف ہو گا یا باطل کی طرف ہو گا؟ تو اس نے جواب دیا کہ یقیناً باطل کی طرف ہو
گا ۔ آپ نے فرمایا تو نے خود ہی فیصلہ کر
دیا ہے یعنی گانا باطل امور میں سے ہے اور حق کے خلاف ہے لہذا اس سے پرہیز ضروری
ہے ۔