التماس سورہ فاتحہ برائے والد بزرگوار،جملہ مومنین و مومنات،شھداۓ ملت جعفریہ ، خصوصاً وہ جن کا کوئی سورہ فاتحہ پڑھنے والا نہ ہو۔ یہاں کلک کریں

Search Suggest

امراء اور ظلم

امراء اور ظلم

امراء اور ظلم

جذبات نفسیہ اور ہیجانات شہویہ کے بد ترین تقاضوں میں سے ہے کہ وہ ظلم پر قدرت رکھتے ہیں اور بالعموم ان سے ہی ظلم صادر ہوتا ہے  بہر کیف ظلم ایک بری عادت ہے اور خواہش نفسانی کی بد لگامی کے منحوص ترین اثرات میں سے ہے اور حقوق پر دست لقدی دراز کرناہی ظلم ہے اور چونکہ حقوق کی بنیادی تقسیم میں تین پہلو واضح تر ہیں  ۔ حقوق النفس، حقوق اللہ اور حقوق الناس ۔ ویسے تو حقوق کی بہت لمبی فہرست ہے جن کا اجمال یہی ہے پس حقوق النفس کی رعایت کو ترک کرنا ظلم بر نفس ہے اور حقوق اللہ کو ترک کرنا ظلم بر خدا ہے اور حقوق الناس کو پائمال کرنا ظلم بر مخلوق ہے اور ظلم کی یہ سب اقسام نا قابل عفو جرم ہیں۔

اللہ کا حق یہ ہے کہ اس کی معرفت حاصل کی جائے اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ قرار دیا جائے اور پھر اس کی اوامرد نواہی کی پوری طرح حسب استطاعت پابندی کی جائے اور جس شخص نے اللہ کے حقوق کی رعایت نہ کی اس نے اللہ پر ظلم کیا اور معرفت خالق اور اسکی توحید اور شریک کی نفی اللہ کا سب سے بڑا حق ہے اسی لئے تو اس حق تلفی کو ظلم عظیم قرار دیا گیا ہے  چنانچہ فرمایا  ان الشرک لظلم العظیم تحقیق شرک کرنا ظلم عظیم ہے اور دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا کہ خداوند کریم قطعاً شرک کے گناہ کومعاف نہیں کرے گا البتہ اس کے علاوہ باقی گناہ حسب مشیت پروردگار بخشے جا سکیں گے ۔

انسان پر اپنے نفس کا حق یہ ہے کہ عقل کی آنکھ کھلنے کے بعد اس کو ہادیان دین کی تربیت کے ماتحت عادات رذیلہ سے بچائے اور اخلاق حسنہ کا خوگر کرے کیونکہ نفس انسانی کافی عرصہ تک بے مہار رہ رہ کر عادات بد کو اپنا فطری حق سمجھ بیٹھتا ہے لہذاس کو تعلیم و تربیت کے ذریعے سے اور پھر اپنی طبعیت پر کافی زور دینے سے نفس کو مقہور و مغلوب بنا کر اس سے انن عادات کو چھڑانا پڑتا ہے اور وہ انسان بڑا باہمت ہے جو اپنے نفس کو غلطیوں پر ٹوکنے کی جرات کرے حضرت رسالتمآبؐ نے ارشاد فرمایا کہ جو شکص لوگوں کو ڈانٹنے کے بجائے اپنے نفس کو غلطیوں پر ڈانٹے تو خداوند کریم اس کو قیامت کے دن کی گھبراہٹ سے نجات دے گا ۔ حضرت امام موسیٰ کاظم علیہ السلام سے منقول ہے کہ بنی اسرائیل کے ایک عابد نے چالیس برس تک اللہ کی عبادت کی اور پھر اس نے قربانی کی جو مقبول نہ ہوئی تو اس نے اپنے نفس کو ڈانٹا کہ یہ عدم مقبولیت تیری سرکشی کی بدولت ہے تو خداوند کریم نے اس پر وحی کی کہ تیرا اپنے نفس کو ڈانٹنا تیری چالیس سال کی عبادت سے افضل ہے بس خلاصہ یہ کہ نفس کو بری عادات سے بچانا اور اچھی عادات کا خوگر کرنا نفس کا حق ہے اور اپنے نفسکی یہ حق تلفی نفس پر ظلم ہے ۔

اسی طرح حقوق کی تیسری قسم ہے حق الناس یعنی لوگوں کے حقوق کی پاسداری کرنا ان میں بیوی کا حق بچوں کاحق ہمسایوں کا حق حکمرانوں کاحق رعایا کا حق غلام و کنیز کا حق دوست کا حق بھائی کا حق بزرگ کا حق عزیز کا حق ساتھ کا حق مہمان کا حق بیمار کا حق قاضی کا حق سائل کا حق گواہ کا حق محسن کا حق استاد کاحق شاگرد کا حق عالم دین کا حق پیشنماز کا حق بیوی پر شوہر کا حق والدین کا حق اولاد کا حق اور یہ معاشرتی زندگی کی طویل فہرست ہے اور عدل و انصاف کا تقاضا یہ ہے کہ ان حقوق کو پہلے سمجھا جائے پھر ان کی پاسداری کی جائے اور ان حقوق کے بعد حیوانات کے حقوق بھی اپنے مقام پر ہیں جن کی رعایت ضروری ہوا کرتی ہے اور ہر صنف کے حق کو نظر انداز کرنا یا حق تلفی کرنا ظلم ہے ۔

جس طرح انسان کو اپنی حق تلفی کا احساس ہوتا ہےاسی طرح دوسروں کی حق تلفی کا بھی اسے احساس ہونا چاہیے جب اپنے اوپر کسی کا ظلم برداشت نہیں کرتا تو دوسروں پر اپنے ظلم کو برداشت کیوں کرتا ہے اسلئے تو خدا اس مظلوم کی فریاد نہیں سنتا جو خود دوسروں پر ظلم کرتا ہو۔ چنانچہ اس مضمون کی روایت حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے منقول ہے ۔

ایک تبصرہ شائع کریں