قیامت
خداوند کریم نے اپنے لطف عمیم اور فیض جسیم سے انسانی زندگی کو خوشگور بنانے اور پر امن
وپر سکون کرنے کےلئے جہاں اقدار انسانیہ کی تعلیم وترویج کے لئے اپنی جانب سے معصوم نمائندے بھیجے وہاں کرامت وشرافت انسانیہ
کے مقبول عام کرنے کی خاطر باز پرس کےلئے بھی ایک دن مقرر فرمادیا تاکہ اپنی ہدایات پر عمل کرنے والوں کو انعام واکرام کے طورپر جنت
عطافرمائے اور انسانی شرافت کی حدود کو
توڑ کر معاشرتی وتمدنی زندگی کو بدامنی وبے جینی کی نزر کرنے والوں کو دائمی جہنم
کی سزادے کفارمکہ اور مشرکین قریش کےلئے جو آوارہ مزاجی اور آزادانہ عیاشی کی
خاطر ہر بھیانک جرم کے کرگزرنے کو اپنی
روشن ضمیری بلند نگری ارتقاء پسندی اور جرات مندی شمار کرتے تھے جس طرح عقیدہ
توحید بار خاطر تھا اسی طرح قیامت کا تصر بھی فرسودہ خیالی سمجھتے تھے پس قرآن مجید نے جہاں تو حید
کے عقیدہ پر ناقابل تردید براہین پیش کرے انہیں باطل مصنوعی خداؤں کے بجائے خدائے
واحد حقیقی کا ئل کیا اسی طرح عقیدہ قیامت
کو بڑے زور وشور سے بیان کیا اور اس بارے میں انکےدلوں میں پیدا ہونے والے شکوک
وشبہات کو احسن انداز سے روفرماکر آنے والے روز جزا وسز کو ایسے طرز بیان سے پیش
کیاکہ لوگ جوق درجوق حوزہ اسلامیہ میں
داخل ہوتے چلے گئے
انکا سب سےبڑا اور سنگین سوال یہ تھاکہ مٹی ہوجانے اور گل
سٹر جانے کے بعد انسان کو دربارہ کس طرح اٹھایا جائے گا اسکا جواب نہایت مختصر اور
قابل قبول طریقہ سےدیاکہ جو اللہ تمام مخلوق
کو پہلی دفعہ کتم عدم سے معرض وجود میں لاسکتاہے اور پہلی دفعہ ایسا پیدا
کیا کہ کسی لحاظ سے اس میں کوئی سقم نہیں نہ تخلیق میں سقم ہے نہ نظم ونسق میں
خرابی ہے اور کائنات عالم میں بار بار
تدبر کرنے کی دعوت دی کہ اگر ان میں کوئی
سقم ہے تو بتاؤ اور جب کوئی سقم نہیں تو
مانناپڑے گا کہ اس کا پیدا کرنے والا قادر حکیم ہے توجو پہلی دفعہ پیدا
کرسکتاہے اس کے لئے دوبارہ پیداکرنا کیا
مشکل ہے کیونکہ دوبارہ چیز کا بنانا اس کی ایجاد
سے بدرجہاآسان تر ہوتا ہے پس تمام انسان انہی دنیاوی جسموں کےساتھ زندہ
ہوکر محشور ہوں گے
بہر کیف جب انسان کو یقین ہوجائے کہ میں نے ایک دن ضرور اللہکی بارگاہ میں جوابدی کےلئے
کھڑا ہونا ہے تو اس کو عادات رذیلہ سے بچنے اور اوصاف حمیدہ سے متصف ہونے کا ایک
اور مرک دستیابہوجائے گا پس انسانی کردار کی تصیح کےلئے خالق نے انسان پر احسان کے طورپر کئی محرک
پیداکردیئے تاکہ انسانی زندگی
پرسکون رہے
1
اس نے انسان کو عقل بخشی تاکہ اس کے ذریعے سے بری عادات سے اجتناب کرکے نیک عادات
کو اپنے اندر جذب کرے
2
اس نے اپنی جانب سے معصوم
نمائندے نبی اور امام بھیجے تاکہ انسانوں
کےلئے صحیح وغلط راستوں کی نشاندہی کریں اور سیدھے رستے پرچلنے کے فوائد اور غلط راستہ
پر چلنے کے نقائص کی وضاحت کریں
3
موت مقرر کردی اور اس کےوقت کا علم
انسان کو نہ دیا تاکہ ایک طرف زندگی میں اطمینان محسوس کرے اور دوسری طرف زندگی کو چند روزہ سمجھتے
ہوئے ناپاک عادات سے گریز کرے اور نیک عادات کو اپنےائے کیونکہ موت کے تصور کے پیش نظر ظلم وجور اوردیگر بری
صفات سے بچنے کی صورت آسان ہوجاتی ہے اور
نفس پرستی کاجوش ٹوٹ جاتاہے
4
قیامت کادن جزا وسزا کے لئے مقررکردیا تاکہ اگرانسان کو آوارگی کی طرف نفس امارہ دعوت دے
تو قیامت کا تصور اس کو بھٹکنے سے بچالے
5
میزان وحساب کا اعلانکرکے انسان کو ہر چھوٹی
سے چھوٹی غلطی کرنے سے روک دیا اور ہر چھوٹی سے چوٹی نیکی کو چھوڑنے سے منع کریا تاکہ
معاشرہ انسانی نہایت خوشگواررہے
6
نیکی کرنے والوں کو جنت الخلد کی پیش کش
کردی کہ قیامت کے دن صرف باز پرس اور جوابدہی پر اختتام نہ ہوگا بلکہ خدا کے فرمانبرداروں
اور حقاوق النفس حقواللہ اور حقوق الناس سے عہدہ برا ہونے والوں کو دائمی انعام کے طور پر جنت عطاہوگی جس میں نہ موت ہوگی نہ
غم ہوگا اور نہ حزن وملال ہوگا
7
انسانی شرافت وکرامت کی قدر نہ کرنے
والوں اور انسانی اقدار کو پامالکرنے والوں کو قیامت کے دن حساب کےبعد جہنم کے جیلخانہ میں قید دی جائے گا جس کا عذاب اختتام پذیر نہ
ہوگا
8
قرآن مجید میں خدا نے اپنے احسان واکرام کاباربار تذکرہ کرکے لوگوں کو احسان
شناسی کے طورپر بھی بری عادات سے بچنے اور نیک عادات کو اپنانے کی طرف رغبت دلائی
دعاہے کہ خداوند کریم تمام انسانوں کو شرافت انسانیہ کی لاج رکھنے کی توفیق
عطافرمائے اور یہی نظام مصفطےٰ ہے جس
کےلئے امن پسند شرفاء ترستے ہیں