التماس سورہ فاتحہ برائے والد بزرگوار،جملہ مومنین و مومنات،شھداۓ ملت جعفریہ ، خصوصاً وہ جن کا کوئی سورہ فاتحہ پڑھنے والا نہ ہو۔ یہاں کلک کریں

Search Suggest

قضائے حاجت مومن

قضائے حاجت مومن

قضائے حاجت مومن

ایک مومن پر دوسرے مومن کے حقوق کی فہرست بہت طولانی ہے  بعض کا ذکر ہوچکا ہے اور ان حقوق میں سے کسی حاجت مند مومن کی حاجت براری چونکہ نہایت اہم ہے اس لئے اس کو انفرادی طور پر بیان کرنا خالی از فائدہ نہیں  ایک دن حضرت امام موسیٰ کاظم علیہ السلام  کعبہ کےسامنے تشریف فرماتھے اور کعبہ کے سامنے کھڑے ہوکر فرمانے لگے اے کعبہ تیرے حقوق بہت ہیں لیکن خدا کی  قسم  ایک مومن کا دوسرے مومن پر حق تیرے حق سے بھی زیادہ ہے چنانچہ مروی ہے کہ کعبہ کا ایک طواف (جو سات چکروں پر مشتمل ہوتاہے ) اگر انسان بجالائے تو اس کے نامہ اعمال میں چھ ہزار نیکیاں درج ہوتی ہیں چھ ہزار گناہ معاف ہوتے ہیں اور چھ ہزار درجات بلند ہوتے ہیں لیکن حاجتمند مومن کی حاجت کو پورا کرنا طواف طواف  حتی کہ دس طوافوں سے افضل ہے

ایک شخص نے حضرت امام محمدباقر علیہ السلام  سے سوال کیا کہ اگر ایک مسلمان دوسرے مسلمان  کے گھر جائے اور وہ گھر میں موجود بھی ہو لیکن ملاقات کا وقت نہ دے تو ایسے مسلمان دوسرے مسلمان کے گھر جائے اور وہ گھر میں موجود بھی ہو لیکن ملاقات کا وقت نہ دے تو ایسے مسلمان  مومن کے متعلق آپ کیافرماتے ہیں آپ نے فرمایاکہ اگر کوئی مسلمان (مومن) دوسرے مسلمان  مومن کے متعلق آپ  کیافرماتے ہیں آپ نے فرمایاکہ اگر کوئی مسلمان مومن کے ہاں کوئی حاجت لے کر جائے اور وہ اسکو نہ اندر آنے کی اجازت دے اور نہ خود آکر ملاقات کرے تو وہ اللہ کی لعنت میں اس وقت ک رہے گا جبتک کہ ان دونو کی ملاقات نہ ہوگی  اس نےازراہ تعجب عرض کی کہ آقا ایساشخص اللہ کی لعنت میں رہتاہے ؟اپ نے فرمایا بےشک وہ اللہ کی لعنت میں ہی رہتاہے

اسحقٰ  بن عمار سے مروی ہے کہ میں ایک مرتبہ حضرت امام جعفر صادق علیہ السلا کی خدمت میں حاضر ہوا تو میں نے آپ کے چہرہ پر غصہ  کے آثار  دیکھے اور عرض کی حضور آپ  مجھ پر ناراض کیوں ہیں  آپ نے فرمایا تو نے مومنوں کے حق  میں اپنارویہ کیوں بدل دیا ہے میں نے سناہے کہ تو نے اپنے دروازہ پر سنتری ٹھیرا رکھے ہیں جو غریب طبقہ کے شیعوں کو تیری ملاقات سے محروم کرتے  ہیں ؟اسحق کہتاہے میں نے عرض کی حضور میں شہرت سے ڈرتاہوں آپ نے فرمایاکیاآنے والی مصیبت سے نہیں ڈرتا تمہیں معلوم ہونا چاہیئے کہ جب مومن ایک دورسرے  سے ملتے ہیں اور آپس میں مصافحہ کرتے  ہیں تو ان پر اللہ کی رحمت برستی ہے اور جس کی محبت زیادہ ہوگی 99 حصے رحمت زیادہ ہوگی اور اگر محبت میں دونوں برابرہوں تو رحمت کا سایہ دونو پر برابر ہوگا حتاکہ کراما کاتبین  بھی ایک دوسرے سے کہتے  ہیں کہ چلو ہم الگ ہوجائیں شاید انہوں نے راز ونیاز کی باتیں کرنے ہوں الخبر

ایک روایت میں ہے کہ ایک شخص امام موسیٰ کاظؐ  علیہ السلام کی خدمت  میں حاضر ہو اور اس نے خواہش ظاہر کی کہ فلاں شخص کی طرف مجھے ایک سفارشی خط تحریر فرمادیجئے  کیونکہ وہ شخص آپ کا محب ہے اور میرا اس سے ذاتی کام ہے  پس آپ  نےسفارش نامہ تحریر فرمایا  جس پر لکھاکہ یہ تمہارا مومن بھائی ہے اس کاکام ضرور کرنا جب یہ شخص بغداد میں پہنچا اور امام کا رقاعہ اس شخص کے حوالہ کیا تو وہ شخص اس کو اپنے گھر لے گیا اور اپنا سارا گھریلوں سامان نصف ونصف تقسیم کرکے اس کو ایک نصف کے چن لینے کا اختیار دیدیا اور کہا کہ چونکہ امام نے تجھے میرا بھائی قرار دیا ہے لہذا تو میرے بھائی ہونے کی حیثیت سے میرے آدھے مال کاحق دار ہے پہلے یہ لے لے پھر تیرا ذاتی کام کرکے تجھے فارغ کروں

ایک روایت میں ہے کہ علی بن یقطین  جو سلطنت عباسیہ میں عہدہ وزارت پر فائز تھا اور شیعان آل محمد  میں سے تھا ایک دفعہ ایک غریب مومن نے جاکر اپنی حالت اس کے سامنے پیش کی تو کاروبار حکومت کی تھکان یاکسی دوسری وجہ سے علی بن یقطین نے اس غریب کی درخواست کو ردی کی ٹوکری میں ڈالکر لاپرواہی سے ٹھکرادیا وہ غریب مومن مایوس ہوکر اپنے گھر چلا گیا اتفاق سے اسی سال علی بن یقطین نےسفر حج کیا اور مدینہ میں حضرت امام موسیٰ کاظم علیہ السلام کی زیارت  کے لئے دردولت پر حاضر ہوا امام عالی مقام خوش روئی سے اس کی طرف متوجہ نہ ہوئے  بلکہ آثار  غضب آ پ کے چہرہ پر نمایا ں تھے علی بن یقطین نے وجہ دریافت کی تو آپ نے فرمایا کہ ہمارا غریب شیعہ جب تمہارے پاس کوئی حاجت لیکر آتا ہے تو تم اس کی حاجت کو نظر انداز  کرکے اس سے ترشروئی کا مظاہرہ کرتے ہو لہذا تم ہم سے کسی اچھی پاداش  کے مستحق نہیں ہو سکتے  جب تک ان غریبوں کی داد رسی نہکرو اس نے عرض کی حضور اب معاف فرمائیے  آئندہ ایسی غلطی نہ کروں گا تو آپ نے فرمایاکہ ابھی جاؤ اور اس سے معافی مانگو اور پھر واپس پلٹ کر آؤ تو میں راضٰ ہوں گا اس نے عرض کی یہاں سے بغداد کافی دور ہے آپ نے فرمایا پہنچانا میراکام ہے اور معافی مانگنا تیرا کام ہے جاؤ شہر کے باہر فلاں مقام پر ایک برق رفتار سواری تمہارے لئے موجود ہوگی اس پر سوار ہو جاؤ وہ تمہیٰں فورا بغداد پہنچائے گی پس اس شخص سے معافی لے کر جب واپس پلٹو گے تو سواری کو اپنے مقام پر موجود پاؤگے  پس اس پر پھر سوار ہوجانا وہ تمہیں دوبارہ اسی مقام پر لے آئے گی جہاں سے تم سوار ہوگے اور میں تمہاری انتظار میں موجود ہوں گا چنانچہ علی بن یقطین  امام عالی مقام سے مرخص ہوکر جب مقام معین پر آیا تو دیکھا کہ ایک خوب رنگ خوش شکل شتر موجود ہے جس کو سوار ہونے کے لئے  بالان یادیگر ضروری سامان سے آراستہ کیا گیا ہے پس اس پر سوار ہوا تو اس نے اپنی برق رفتاری کی بدولت فورا بغداد میں بادم لیا پس علی بن یقطین اترے اور اس غریب مومنکا گھر تلاش کرے دروازہ پر دستک دی جب اس غریب مومن نے علی بن یقطن کی آواز پہچانی توگھبرا گیا کہ حکومت وقت کے اتنے بڑے افسر نے رات کے وقت کیوں دروازہ کھٹکھٹایا ہے  تو علی بن یقطین  نے کہاکہ گھبرانے کی کوئی ضرورت نہیں میں اس وقت افسر کی حیثیت  سے نہیں ہوں بلکہ ایک بھائی کی حیثیت سے اپنے غلطی کی معافی کےلئے حاضر ہوا ہوں چنانچہ اس غریب مومن نے کہاکہ جناب عالی میری کوکئی ناراضگی نہیں اور میں نے معاف کیاہے تو علی بن یقطین ے کہاکہ میں زمین پر لیٹتاہوں  اور اگر تو نے واقعا مجھے  معاف کیاہے تو اپنا گرد آلود  قدم میرے منہ پر رکھو تاکہ مجھے اپنے تکبر کی سزاملے پس میں سمجھوں گا تم نے معاف کردیا ہے اس نے ایساکرنے سے ہر چند معزرت چاہی  لیکن آخر کار علی بن یقطین  کے اصرار  پر اس نے اپنا قدم اسکے منہ پر رکھا پس علی بن یقطین واپس آیا تو وہی سواری حسب سابق موجود تھی اس پر سوار ہوا اور چشم زون  میٰں واپس مدینہ پہنچا سواری کو چھوڑا اور دردولت امام پر حاضر ہوا تو امام کو اپنی انتظار میں پایا اور اب جو دیکھا تو امام عالی مقام کا چہرہ گل گلاب کی طرح کھلا ہوا ہے اور آب نے خوشی سے علی بن یقطین کوخوش آمد یدکہا  اوراپنی رضا کا پروانہ دیا یہ دو روائتیں  صرف جلائے ایمانی کے لئے ذکر کردی ہیں تاکہ اپنے اندر محؐمدآل محمؐد علیہ السلا کی محبت کی شمع روشن کرنے والوں کو درس حاصل ہو اور ایک دوسرے کےساتھ ہمدردی کا جزبہ پیداہو

ایک تبصرہ شائع کریں