التماس سورہ فاتحہ برائے والد بزرگوار،جملہ مومنین و مومنات،شھداۓ ملت جعفریہ ، خصوصاً وہ جن کا کوئی سورہ فاتحہ پڑھنے والا نہ ہو۔ یہاں کلک کریں

Search Suggest

صبروضبط

جہالت کا مقابلہ کرنے کےلئے اور افواج جہالت کو نیست ونابود کرنےکے لئے صبر وضبط سے بڑھ کر کوئی دوسری صفت نہیں

صبروضبط

 جہالت  کا مقابلہ کرنے کےلئے اور افواج جہالت کو نیست ونابود کرنےکے لئے  صبر وضبط  سے بڑھ کر کوئی دوسری صفت نہیں اور صبر تین مرحلوں میں تقسیم ہوتا ہے  1جس قدر مصائب وآلام  آجائیں برداشت کرنا اور گھبرانہ جاتا  2 نفس کی ابھری ہوئی خواہشات  اور اس کے بھپرے  ہوئے جزبات خواہ غصے کی صورت میں ہوں یاشہوت رانی کے رنگ  میں ہوں  یاکسی اور مقصد کی خاطر ہوں  ان پر کنٹرول  کرنا اور ضبط سے کام لینا یعنی خدا ورسوؐل  کی نافرمانی سے نفس کو کنٹرول  میں رکھنا  3  اللہ کی اطاعت پر نفس کو پابن کرنا اور پورے صبروضبط سے اس پرکار بند رہنا اگر ان تینوں مرحلوں میں انسان صبر وضبط  کاعادی  ہوجائے تو افواج جہالت کے مقابلہ میں ہر مشکل سےمشکل  کو بھی فتح کرلیتاہے  اس کےلئے نہایت آسان ہوگا اسی بناء پر خداوندکریم  کا ارشاد ہے انمایوفیٰ الصابرون اجرھم بغیر حساب یعنی  صابروں کو اجر بلاحساب دیاجائے گا

جناب رسالتمآب نےارشاد فرمایا صبر کی تین قسمیں ہیں  1مصیبت کے وقت صبر   2  اطاعت  پر صبر   3  ارادہ گناہ کےوقت صبر جو شخص مصیبت کےوقت سبرکرے  اسکو تین سودرجے عطا ہوں گے کہ  ہر دو درضوں کےدرمیان زمین وآسمان کا فاصلہ ہوگا جو شخص اطاعت  پر صبرکرے اس کو چھ سو درجے ملیں گے کہ  ہر دودرجوں کا درمیان فاصلہ تحت الثرٰی سےعرش علاتک ہوگا  جو شخص  گناہ سے صبرکرے اس کو نوسودرجے دئیے جائیں گے کہ ہر دوکا درمیانی فاصلہ مرکز زمین سے لےکر عرش تک ہوگا

حضرت امیرالمومنین  علیہ السلام  نے فرمایاکہ مصیبت کےوقت بھی صبرکرنابہتر اور خوب  ہے لیکن اللہ  کی حرام کردہ اشیاء سے نفس کوروکنا  اور صبرکرنا اس سے بھی بہت بہتر ہےاسطرح اللہ  کا ذکر  مصیبت  کےوقت  خوب ہے لیکن حرام چیز  سامنے آجائے  تو اس وقت صبر  کرتاخوب ترہے

حضرت رسالتمآ بؐ  نے فرمایا کہ مومن کےلئے چار قسمکی آمائشیں ہیں اور سب سے سخت  یہ  ہے کہ اسیجیسا دوسرا مومن اس پرحسد کرے گا دوسرا  یہ کہ کوئی  منافق اس کی تاڑ میں ہوگا  تیسری  یہ کہ کوئی شیطان  ہر وقت اس کو گمراہ کرنے کی سوچ رہاہوگا  اور چوتھی یہ کہ کوئی کافر  ہر وقت  اس سے برسر پیکار  ہوگا  اور اس کےلئے میدان جہاد تیار ہوگا

 حضرت امیرالمومنین علیہ السلام نےفرمایا   تمام معاملات میں صبر  کی حیثیت  ایسی ہے جس طرح باقی  جسمکےلئے سر ہے پس جس طرح جسم  سےسرکی جدائی جسم کی موت کی موجب ہے اسی طرح سبر کی جدائی  باقی امور کےفساء کی علامت ہے  

آپ نے فرمایاکہ جو حوادث زمانہکے مقابلہ کےلئے اپنے صبرکوتیار نہیں  رکھتا وہ عاجز اور ناکام ہے

حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایاجومومن  آزمائش کے وقت صبرکرلے اس کو ایک ہزار شہید کا ثواب ملے گا

آپ نے فرمایا صبر  اور مصیبت مومن کی طرف ایک دوسرے سے سبقت کرکے آتے ہیں پس جب مصیبت مومن پرآتی ہے تو وہ صابرہوتاہے  لیکن جب مصیبت کافر  پر آئے تو وہجزع فزع کرتاہے

ایک روایت میں میں نے دیکھا ہے کہ ایک مرتبہ حضرت موسیٰ نے خدائے دعامانگی کہ میں تیرے  کسی نیک بندے کی زیارت کرنا چاہتاہوں چنانچہ  دعاقبول ہوئی اور آپ ایک خدا؛؛؛؛؛ ادمی کے  کے پاس پہنچے  اسکی ظاہری عبادت صرف واجبات کا اداکرنا تھا  اور حلال رزق کمانے میں باقی وقت خرچ کرتا تھا  البتہ زبان شکر خدا سے خالی  نہ تھی اور وہ مستجاب الدعوات اس طرح تھاکہ بادل اسکے تابع فرمان تھے حضرت موسیٰ علیہ السلام  نے بارگاہ ربوبیت میں عرض کی اے پروردگار میں نے تیرے اس نیک بندے میں کوئی خاص عبادت نہیں دیکھی لیکن تونے  اس کی شان بہت بلند کی ہے اس کی کیا وجہ ہے ؟ خداوندکریم کی جانب سے وہی ہوئی کہ اے موسی میں اس کی تین عادتوں سے بہت خوش ہوں  1  میرے فیصلہ پر راضی ہے   2  میری نعمتوں  کا شاکر ہے  3   اور میری طرف سے پہنچنے والی  ہر مصیبت پر صابرہے اورجس شخص میں تین صفات ہوں  میں اسکو دوست رکھتاہوں روایت بہت لمبی تھی میں نے ازراہ اختصار قدر ضرورت پر اکتفاکیاہے چنانچہ حدیث قدسی  میں ارشاد پروردگار ہے من لم یرض بقضائی ولم یصبر علی بلائی فلیعبد ربا سوای الیخرج من ارضی  وسمائی  یعنی جو شخص  میری قضا پر راضٰ نہ ہو اور میری آزمائشات پر صابر نہ ہوتوکسی اور  رب کی عبادتکرے اور میرے آمان وزمین سے نکل جائے تفسیر انوار النجف  جلد 2  ص 56 

حضرت رسالتمآب ؐ  نے ایک حدیث میں فرمایاکہ صابرکی تین علامتیں ہیں ان لایکسل  وان لایضجر وان لایشکم  ا یعنی لوگوںکے حقو کی ادائیکی  سے سستی نہ کرے ورنہ حقوق  ضائع ہوجائیں گے اور تنگدلی  محسوس نہکرے کیونکہ ایس اکرنے سے شکر پروردگار ادا نہ ہوسکے گا اور اللہ کا شکویٰ نہ کرے کیونکہ یہ نافرمانی ہے

حضرت امیرالمومنین  علیہ السلام نے فرمایاکہ کامیابی صبرکرنے والے کےقدم چومتی ہے خواہ  دیر ہی کیوں نہ ہوجائے

آپ نے فرمایاجس کو صبر نجات نہیں دیتا اس کوجزع وفزع ہلاک دتباہ کردیتی ہے 

حضرت امام محمد باقر علیہ السلام  نے فرمایاکہ میں اپنے فلاں غلام  اور اپنے اہل وعیال کے معاملہ میں ایسا صبرکرتاہوں  کہ وہ ایوے سے بھی تلخ  تر ہوتاہے لیکن جو شخص صبرکرے اس کو عابد فشب پیدار روزہ دار اور شہید کا درجہ ملتاہے جس نے حضؐور  کےہمراہ تلوار سے جہادکیاہو

فقہ رضوی سے منقول ہے مومنکی تین خصلتیں ہوتی ہیں دین میں فقہ حاصل کرنا  رزق میں  میں اللہ کے فیصلہ  پر راضی ہونا اور مصیبت پر صبرکرنا

حجرت رسالتمآب  نے فرمایا سب سےزیادہ مصائب انبیاء  پر آتے ہیں پھر ان سے کم درجہ  والوں پر حسب مراتب مصائب  آتے ہیں پس جس کا ایمان میں درجہ زیادہ ہوگا  اسکا مصائب  میں بھی حصہ زیادہ ہوگا  اور جسکا ایمان کمزور ہوگا اس کےمصائب بھی کم ہوں گے

حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام  نے فرمایاکہ جنت میں ایک درجہ ہے جو جسمانی مصائب  جھیلنے  والوں کےلئے مخصوص ہے

آپ نے فرمایاہل حق جب سے ہیں سختیوں میںہیں لیکن سختیوں  کی مدت کم ہے اور انکے بعد عافیت کی مدت طویل ہے

آپ نے فرمایا  مومن اللہ کے نزدیک مقام قرب حاصل نہیں کرسکتا جب تک کہ جسمانی یامالی آزمائشوں سے نہ گزرے

 آپ نے فرمایاکہ مومن پر متواتر چالیس دن نہیں گزرنے پاتے مگر یہ کہ وہ بطور تزکرہ کے کسی غم میں مبتلاکیاجاتاہے

ایک شخص نے آپ کی  طرف اپنے جسمانی دردوں  کی شکایت کی کیونکہ وہ دائم المرض  تھا تو آپ نے فرمایاکہ اگر مومن کو یہ معلوم  ہوتاکہ ان مصائب وآلام کے بعد مجھےدرجہ کیاملے گا  تو وہ خواہش  کرتاکہ دنیا میں میرا جسم قینچیوں سے کترا جاتا اور میں صبر کرتا

بہر کیف مومن دنیا میں مصائب کا نشانہ بنارہتاہے چنانچہ ایک حدیث میں ہے کہ الدنیا سجن للمومن  من وجنۃ للکافر یعنی مومنکےلئے دنیا قید خانہ ہے اورکافر کےلئے جنت ہے ایک دفعہ ایک یہودی نے امام حسن علیہ السلام  پر اعترض کیا کہ میں دینا میں بدحال ہوں اور آپ آسودہ حال مین تو گویا دنیامیرے لئے قید خانہ ہے اور آپ کےلئے جنت ہے؟ آپ  نے فرمایاکہ اگر تمہیں جہنم  کا وہ عذاب دکھایا جائے  جو تیرے لئے آخرت میں تیار کیا گیاہے توتوکہے گا  کہ میں دنیامیں جنت میں تھا اور اب قیدخانے میں پہنچا ہوں کیونکہ یہ  تیری موجودہ بدحالی جہنم کے مقابلہ میں پھر بھی جنت ہے اور میرےلئے جو جنت میں انعامات ہیں ان کے مقابلہ میں یہ دنیاوی زندگی ایک قید خانہ کی زندگی ہے

مومن پر اپنوں کا حسدسب مصائب سےسخت ترین مصیبت ہے خداوندکریم ہمیں صبروضبط کی توفیق عطافرمائے

حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا جب صبر  کی انتہاہوتی ہے تو خدامصائب  کو ٹال دیتاہے۔

 

ایک تبصرہ شائع کریں