التماس سورہ فاتحہ برائے والد بزرگوار،جملہ مومنین و مومنات،شھداۓ ملت جعفریہ ، خصوصاً وہ جن کا کوئی سورہ فاتحہ پڑھنے والا نہ ہو۔ یہاں کلک کریں

Search Suggest

سلام ومصافحہ

سلام ومصافحہ

سلام ومصافحہ

حسد وکدوت کے دور کرنے اور باہمی رواداری وملنساری کی قضا کو پیداکرنے اور برقرار  رکھنے کے لئے انسانیت کے بہی  خواہوں نے سلام ومصافہ کو حسن خلاق کا سنگار قرار دیا ہے چنانچہ ہر ہر مذہب  وملت اور ہر قوم وفرقہ نے باہمی ملاقات کے جملہ آداب  میں ہے سلام ومصافحہ کو اولی حیثیت دی ہے چنانچہ انگریزی عربی فارسی اور ہندی وغیرہ میں اس مفہون  کو ادا کرنے کے لئے الگ الگ الفاظ وجدا جدا  طریقے معرض وجود میں آئے ہیں اور قوموں نے وہ بدل وجان اپنالئے ہیں  جو ان کا شعار علی اور تہذیب قومی شمار  کیاجاتاہے اسلام نے ابتداکرنے والے کے لئے سلام علیکم  اور جواب دینے والے کے لئے علیکم السلام لفظیں  پیش کیں ہیں جن میں صلح وآشتی اور سکون وسلامتی کی نوید مسرت پائی جاتی ہے تکبر اور برائی کے نشہ کو توڑنے  کے لئے  سلام کے آداب میں سے ہے  کہ سلام میں پہل کی جائے چنانچہ کھڑا ہوا بیٹھنے والے  پر سلام کے سوار پیدل  پر سلام کہے اور ایک شخص زیادہ پر سلام کرے اور سلام دینا اگر چہ مستحب  ہے لیکن اس کا جواب دینا واجب ہے پس سلام دینا مستحب کفائی  ہے اور اس کا جواب دینا واجب کفائی  ہے یعنی ایک گروہ میں سے ایک آدمی کردے تو باقیوں سے استحباب یا وجوب  ساقط ہوجاتاہے

حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے منقول ہے چھوٹا بڑے کو سلام کہے گذرنے والا بیٹھے ہوئے کو سلام  کہے تھوڑے زیادہ کو سلام کہیں اور جو سب سے اخیر پہنچے  وہ سب کو سلام کہے سوار پیادہ کو سلام کہے خچر سوار گدھے سوار کو سلام کہے  اور گھوڑے سوار خچر سوار کو سلام کہے واحد جماعت کو سلام کہے اور قائم قاعد  کو سلام کہے آپ نے فرمایا جب قوم کی طرف سے صرف ایک آدمی سلام  کہے تو وہ سب کی طرف سے کافی ہے اور قوم میں سے جب ایک آدمی جواب دے دے تو سب کی طرف سے کافی ہےحضرت امام رضا علیہ السلام سے منقول ہے کہ جو شخص امیر اور غریب کے سلام ہیں  فرق کرے وہ بروز محشر غضب پروردگار کا مستحق ہوگا اور آپ نے فرمایا کہ حضرت رسالتمآب  فرمایا کرتے تھے کہ میں تازیست پانچ چیزوں کو ترک  نہ کروں گا  1زمین پر بیٹھ کرمزدوروں  غلاموں کے ساتھ کھانا کھانا  2گدھے کی سواری کرنا  3اپنے ہاتھ سے بکری کا دوھنا  4کھردارا اونی لباس پہننا 5  ببوں کو سلام کہنا اور یہ اس نے تاکہ یہ چیزیں میرے بعد میں  میری سنت بن جائیں اور دوسری روایت میں بکری کے دوہنے کے بجائے اپنے جوتے  کی اصلاح کرنا م ذکور ہے اور آپ سے عورتوں کو سلام کہنے کی روایت بھی منقول ہے

امام جعفر صادق علیہ السلام  نے فرمایاحضرت امام علی زین العابدین علیہ السلام  فرمایاکرتے  تھے کہ حج وعمرہ کرکے آنے والوں کے سلام ومصافحہ میں جلدی کیاکرو قبل اس کے کہ وہ گناہوں  میں ملوث ہوجائیں آپ نے فرمایا کہ مقامی آدمی کےلئے سلامکے بعد مصافحہ کافی ہے  لیکن سفر سے آنے والے مومن کا تحفہ سلام کے بعد اسے گلے لگاکر ملنا ہے

 حضرت امیرالمومنین  علیہ السلام  سے منقول ہے کہ یہود ونصاری  تاس وشطرنج کھیلنے  والے بت ساز بربط وطنبور  بجانے والے اور گالی بکنے والے لوگوں پر سلام نہ کیاجائے اسی طرح لغو گو شاعر پاخانہ پھر نے والے اور شراب کے دستر خوان پر بیٹھنے والے پر سلام کہنا ممنوع ہےاورنمازی پر سلام کہنا نہ چائیے  لیکن اگر کوئی شخص  نمازی پر سلام  کہے تو جواب میں نمازی کو صرف وہی فقرہ کہناچائیے  جو اس نے کہاہے یعنی سلام علیکم  کہے نہ کہ علیکم  السلام 

ایک تبصرہ شائع کریں