شرم وحیا
صفات فاضلہ
انسانیہ میں شرم وحیا ایک
بلند پایہ صفت ہے اور انسان کی بہت بڑی
زینت ہے چنانچہ حضرت رسالتمآب نےارشاد فرمایاکہ مخر اور تکبر جس میں ہو اس کوبدنماکرتا ہے اور
حیاء شرم جس میں ہو اس کو زیب دیتاہے
حضرت
امیرالمومنین علیہ السلام نے فرمایا جو حیاکی چادر پہن لے لوگ اس کےعیوب
نہیں دیکھ سکتے
آپ نے فرمایا حیاایمان کی نشانی ہے اور ایمان کامقام جنت ہے اور فرمایاجس میں حیا نہیں اس میں ایمان
نہیں آپ نے فرمایا حیا پاکدامنی اور کم
گوئی یہ سب ایمان کی علامات میں سے ہیں
حضرت رسالتمآب نے
فرمایاکہ حیاکی دوقسمیں ہیں ایک حیائے عقل
اور دوسرا حیائے حمق حیائے عقل علم کی نشانی ہے اور حیائے حمق جہالت کی علامت ہے مقصد یہ ہے کہ انسان کو برے
کام کرنے سے حیاکرنے چائیے اور یہ حیا حیائے عقل ہے اور یہ علم کی نشانی ہے اور نیک کاموں کی بجاآوری سے
حیاکرنادینی مسائل کےدریافت کرنے سے حیاکرنا بڑی عمر ہوجانے کی وجہ سے کلمہ ونماز
وقرآن پڑھنے سے حیاکرنایہ حیائےحمق
ہے اور یہ جہالت کی علامت ہے
یہ زمانہ کی قلا بازیوں
اور فلک کج رفتار کی نیرنگیوں میں سےسمجھ لیجئے کہ معیار شرافت اب معکوس نظر آتاہے لوگوں کےدلوں میں مغربیت کے آثار اس
قدر گہرائی تک پہنچ چکے ہیں کہ عوامی نظریہ میں حیاء کو بے حیائی اور بے حیائی کو
حیاوشرافت کہاجانے لگاہے اس میں شک نہیں کہ ڈاڑھی رکھنا سنت رسوؐل
وآئمہ طاہرین علیہم السلام ہے لیکن
معاشرہ اتنا بگڑ چکاہے کہ ڈاڑھی منڈوانا
شریفانہ پوزیشن اختیار کرچکاہے اب جہاں شہر میں یاجس محمکمہ میں یاجس ماحول میں اکثر یت
ریش تراشوں کی ہو تو وہوں ایک انسان ڈاڑھی رکھواتے ہوئے شرم محسوس کرتاہے اور مسلمان کہلوانے والا معاشرہ اسکی طرف انگشت
نمائی کرن اپنی روشن ضمیری خیال کرتاہے حالانکہ چائیے یہ تھا کہ ڈاڑھی منڈوانے والے شرم کرتے کہ ہم
سنت رسوؐل کی خلاف ورزی کررہے ہیں اس طرح
بے نمازوں کے ماحول میں نمازی کو نماز
پڑھنے سے حیامحسوس ہوتی ہے حالانکہ بے نمازوں کو حیاکرن اچائیے بہر کیف
اس بدلے ہوئے یابگڑے ہوئے ماحول میں
بھی کلمہ حق کہنا سننااور اس پر چار وناچار عمل کر گزرنا بڑی چیز ہے
اسلام میں ایک زمانہ تھا جب صنف نازک کاوقار محفوظ تھا اور عورتیں حیا وشرم کے
زیور سے آراستہ تھیں اور پردہ یابرقعہ ان کی شرافت کا قلعہ تھا اور ان کے حیاء شرم
کا آئینہ دار تھا لیکن اس دور میں پناہ
بخدا لیکن کیاکیاجائے جب مرد حیا وشرم کی
حدوں کو بھاندجائیں تو عورتوں کو شرم وحیا کےلئے پابند کون کرے ؟ دور حاضر میں عورتوں کی آزادی کا تصور عورتوں
کی ذہنی پیدا وار نہیں بلکہ عیاشانہ جذبات کی آوادنہ تکمیل کی خاطر بدمعاش طبع
مردوں کا رچایا ہوا ڈھونگ ہے جو اسلام کی
حقانیت کےخلاف کھلا ہو اعلان جنگ کی حٰثیت
رکھتاہے
ایک زمانہ تھ اکہ مسلمان عورتیں اپنےسائے کےتصور سے گھبراتی
تھیں اب وہ زمانہ ہے کہ کھلے بازاروں میں مردوںکےہاتھوں میں ہاتھ ڈال کر اعلانیہ
چکر لگاتی پھرتی ہیں اور اخبارات اس قسمکے
نت نئے حادثات کارونا روتے نظر آتے ہیں عورتوں کو قرآن پڑھنا نہیں آتا بی اے ایم اے تک تعلیم ہے لیکن کلمہ طیبہ کا پتہ نہیں شیعہ لڑکی ہے تو بارہ امام اور
چودہ معصومین کے نام نہیں اتے لیکن ریڈیائی
گانے یاد ہیں ظلم کے اوقات اور ان کی لغو
کہانیاں ازبرمحفوظ ہیں اس میں نئی پود کا قصور بہت کم ہے اور انکے ذمہ وار معاشرہ کا قصور سب سے
زیادہ ہے لیکن یہاں معاشرہ پورے کا پورا اسلام دشمنی کا دھواں دے رہاہووہاں کسی کوکون
سمجھائے اس اسلام اور اسلامی تعلیم کا اللہ ہی محافظ ہے