التماس سورہ فاتحہ برائے والد بزرگوار،جملہ مومنین و مومنات،شھداۓ ملت جعفریہ ، خصوصاً وہ جن کا کوئی سورہ فاتحہ پڑھنے والا نہ ہو۔ یہاں کلک کریں

Search Suggest

شرم وحیا

صفات فاضلہ انسانیہ میں شرم وحیا ایک بلند پایہ صفت ہے اور انسان کی بہت بڑی زینت ہے چنانچہ حضرت رسالتمآب نےارشاد فرمایاکہ مخر اور تکبر جس میں ہو

شرم وحیا

صفات فاضلہ  انسانیہ  میں شرم وحیا ایک بلند  پایہ صفت ہے اور انسان کی بہت بڑی زینت  ہے چنانچہ حضرت رسالتمآب  نےارشاد فرمایاکہ مخر اور تکبر جس میں ہو اس کوبدنماکرتا   ہے اور حیاء شرم  جس میں ہو اس کو زیب دیتاہے

 حضرت امیرالمومنین  علیہ السلام  نے فرمایا جو حیاکی چادر پہن لے لوگ اس کےعیوب نہیں  دیکھ  سکتے

آپ نے فرمایا حیاایمان کی نشانی ہے اور ایمان کامقام  جنت ہے اور فرمایاجس میں حیا نہیں اس میں ایمان نہیں آپ نے فرمایا حیا پاکدامنی  اور کم گوئی یہ سب ایمان کی علامات میں سے ہیں

حضرت رسالتمآب  نے فرمایاکہ حیاکی دوقسمیں ہیں ایک حیائے عقل  اور دوسرا حیائے حمق حیائے عقل علم کی نشانی ہے اور حیائے حمق  جہالت کی علامت ہے مقصد یہ ہے کہ انسان کو برے کام کرنے سے  حیاکرنے چائیے  اور یہ حیا حیائے عقل ہے اور یہ علم  کی نشانی ہے اور نیک کاموں کی بجاآوری سے حیاکرنادینی مسائل کےدریافت کرنے سے حیاکرنا بڑی عمر ہوجانے کی وجہ سے کلمہ ونماز وقرآن  پڑھنے سے حیاکرنایہ حیائےحمق ہے  اور یہ جہالت کی علامت ہے

یہ زمانہ کی قلا بازیوں  اور فلک کج رفتار  کی نیرنگیوں  میں سےسمجھ لیجئے  کہ معیار شرافت اب معکوس  نظر آتاہے لوگوں کےدلوں میں مغربیت کے آثار اس قدر گہرائی تک پہنچ چکے ہیں کہ عوامی نظریہ میں حیاء کو بے حیائی اور بے حیائی کو حیاوشرافت کہاجانے لگاہے اس میں شک  نہیں  کہ ڈاڑھی رکھنا سنت  رسوؐل  وآئمہ طاہرین علیہم السلام  ہے لیکن معاشرہ اتنا بگڑ چکاہے کہ ڈاڑھی  منڈوانا شریفانہ پوزیشن اختیار کرچکاہے  اب  جہاں شہر میں یاجس محمکمہ  میں یاجس ماحول میں  اکثر یت  ریش تراشوں کی ہو تو وہوں ایک انسان ڈاڑھی رکھواتے ہوئے شرم محسوس کرتاہے  اور مسلمان کہلوانے والا معاشرہ اسکی طرف انگشت نمائی کرن اپنی روشن ضمیری خیال کرتاہے حالانکہ چائیے  یہ تھا کہ ڈاڑھی منڈوانے والے شرم کرتے کہ ہم سنت رسوؐل کی خلاف ورزی کررہے ہیں  اس طرح بے نمازوں کے ماحول میں  نمازی کو نماز پڑھنے سے حیامحسوس   ہوتی ہے  حالانکہ بے نمازوں کو حیاکرن اچائیے  بہر کیف  اس بدلے ہوئے یابگڑے ہوئے ماحول میں  بھی کلمہ حق کہنا سننااور اس پر چار وناچار  عمل کر گزرنا بڑی چیز ہے

 اسلام  میں ایک زمانہ تھا جب صنف  نازک کاوقار محفوظ تھا اور عورتیں حیا وشرم کے زیور سے آراستہ تھیں اور پردہ یابرقعہ ان کی شرافت کا قلعہ تھا اور ان کے حیاء شرم کا آئینہ دار تھا  لیکن اس دور میں پناہ بخدا لیکن کیاکیاجائے جب  مرد حیا وشرم کی حدوں کو بھاندجائیں  تو عورتوں  کو شرم وحیا کےلئے پابند کون کرے ؟   دور حاضر میں عورتوں کی آزادی کا تصور عورتوں کی ذہنی پیدا وار نہیں بلکہ عیاشانہ جذبات کی آوادنہ تکمیل کی خاطر بدمعاش طبع مردوں کا رچایا ہوا  ڈھونگ ہے جو اسلام کی حقانیت کےخلاف کھلا ہو اعلان جنگ کی حٰثیت  رکھتاہے

ایک زمانہ تھ اکہ مسلمان عورتیں اپنےسائے کےتصور سے گھبراتی تھیں اب وہ زمانہ ہے کہ کھلے بازاروں میں مردوںکےہاتھوں میں ہاتھ ڈال کر اعلانیہ چکر لگاتی پھرتی ہیں  اور اخبارات اس قسمکے نت نئے حادثات کارونا روتے نظر آتے ہیں عورتوں کو قرآن پڑھنا نہیں آتا بی  اے ایم اے تک تعلیم ہے لیکن کلمہ طیبہ  کا پتہ نہیں شیعہ لڑکی ہے تو بارہ امام اور چودہ معصومین کے نام نہیں اتے  لیکن ریڈیائی گانے یاد ہیں ظلم  کے اوقات اور ان کی لغو کہانیاں  ازبرمحفوظ ہیں اس میں نئی  پود کا قصور بہت  کم ہے اور انکے ذمہ وار معاشرہ کا قصور سب سے زیادہ ہے لیکن یہاں معاشرہ پورے کا پورا اسلام دشمنی کا دھواں دے رہاہووہاں کسی کوکون سمجھائے اس اسلام اور اسلامی تعلیم کا اللہ ہی محافظ ہے

ایک تبصرہ شائع کریں