صفات سلبیہ
یعنی وہ صفات جن سے اس کی ذات مبرا ہے اللہ کی مثل نہیں وہجسم نہیں نہ وہ عرض ہے نہ جوہر ہے نہ مرکب ہے
نہ اس میں اختلاف ہے نہ وہ کسی مکان میں ہےاور نہ کسی جہت میں ہے کیونکہ یہ سب مخلوق کی صفات ہیں اور
اللہ کے شایان شان نہیں ہیں اللہ نہ کسی
شے میں ہے نہ کسی شئے سے ہے اور نہ اس سے
کوئی شئے ہے نہ وہ کسی شئے کے اوپر
ہے نہ اس کے اوپر کوئی شئے ہے نہ وہ کسی شئے سے مافوق
ہے نہ تحت ہے اور نہ کوئی شئے اس
سے منسوب ہے کیونکہ یہ سب حوادث کی صفتیں ہیں اوراللہ قدیم ہے پس حوادث کے صفات سے
پاک مبرا ہے
اللہ کسی شئی میں
حلول نہیں کرتا اور نہ کسی شئے کے ساتھ وجود میں متمد ہونا ہے یعنی وحدۃ الوجود کا قول باطل
ہے
اللہ کی رویت
ناممکن ہے پس وہ نہ دنیا میں نظر آتاہے اور نہقیامت کے روز نظر آئے گا نہ اس کو نیک لوگ دیکھ سکتے ہیں پس اپنی کنہ
حقیقت کو وہ خود ہی دیکھ سکتاہے البتہ قلوب اس کی عظمت کے آثار کا معائنہ کرسکتے ہیں اور آنکھیں اس کی مصنوعات
کی سیر کرکے دعوت فکر کا سامان مہیاکرسکتی
ہیں لاتدرکۃ الابصار وھو یدرک الابصار یعنی اس کو کوئی آنکھ نہیں پاسکتی اور وہ
تمام آنکھوں کااوراک کرتاہے (انعام)
اللہ کو نہ حواس ظاہرہ پاسکتی ہیں یعنی قوت باصرہ قوت ذائقہ
قوت شامہ اور قوت لامسہ پس کان اس کی آواز نہیں سنتے آنکھ اس کا نظارہ نہیں کرسکتی زبان اسکا ذائقہ نہیں چکھ سکتی
ناک اس کی بوتک نہیں پہنچ سکتی اور ہاتھ اس کو چھو نہیں سکتے کیونکہ آواز
رنگ ذائقہ بواور سردی وگرمی وغیرہ نہ تھیں اور وہ تھا پس وہ ان کیفیات کا خالق اور
اعضاء کا بھی خالق ہے اور ان سے پہلے ہے
اللہ کو حواس باطنہ بھی ادراک نہیں کرسکتی یعنی حس مشرک
خیال قوت متصرفہ واہمہ اور حافظہ کیونکہ ان میں سے کسی کے مشابہ نہیں پس یہ قوتیں
اس کےادراک سے قاصر ہیں توحید پروردگار اور اس کی صفات ثبوتیہ وسلبیہ کے متعلق ہم نے جوکچھ لکھا ہے وہ شیخ احمد احسائی اعلی اللہ مقامہ کی کتاب
حیوۃ النفس سے ملخص کیاہے شیخ موحوم پر جو الزام عائد کیاجاتاہے کہ وہ تو حید فی
العبادۃ کے قائل نہیں بلکہ نماز میں ایاک نعبد کہتے ہوئے حضرت علی کے تصورکو ضروری
سمجھتے ہیں یہ محض حاسد ملاؤں کی بہتان تراشی ہے انہوں نے زیارت جامعہ کے الفاظ
ومقدمکم امام طلبتی کی تشریح کرتے ہوئے فرمای اکہ اپنی مرادوں میں آئمہ کی تقدیم کا مطلب یہ ہے کہ ہم ان کو اپنا شفیع
مانتے ہیں لاانہ یتخیل عندالعبادۃ صورھم تمثیلھم
کمایفعلونہ اھل التصوف یعنی تقدیم
کا یہ معنی نہیں کہ عبادت میں انکی صورتوں اور مثالوں کا تصور کیاجائے جس طرح صوفی
لوگوں کا دستور ہے کہ اپنے پیروں کا تصور کرتے ہیں اور پیر خود انکو ایسا
کرنے کا حکم دیتے ہیں اور شیخ نے صوفیوں
کے مسلک کی پوری وحاحت کرنے کے بعد ان پر العنت بھیجی اور انکے مسلک کو باطل ثابت
کیا اورآخر میں پھر اپنے نظر یئے کو ان
لفظوں میں دھرایا فلایجور ان تتصورصورۃ النبی صلی اللہ علیہ والہ او علی علیہ
السلام اوالائمتہ علیہم
السلام عند توجھک الی اللہ تعالی
لان ھذ اشرک وکفر یعنی یہ جائز نہیں کہ تم نبی یاحضرت علی آئمہ طاہرین
علیہم السلام کا تصور نماز میںکرو جب تم
اللہکی طرف متوجہ ہورہے ہوکیونکہ یہ کفر اور شرک ہے (شرح زیارت جامعہ 284سطر
1تا13)