التماس سورہ فاتحہ برائے والد بزرگوار،جملہ مومنین و مومنات،شھداۓ ملت جعفریہ ، خصوصاً وہ جن کا کوئی سورہ فاتحہ پڑھنے والا نہ ہو۔ یہاں کلک کریں

Search Suggest

تعصب اور حسد

تعصب اور حسد

تعصب اور حسد

یہ یاد رکھنا چاہیے کہ تعصب اور حسد دو الگ الگ بیماریوں ہیں حسد یہ ہے کہ کسی انسان پر اللہ کی نعمت دیکھ کر جلتے رہنا اور پھر عملی طور پر اس سے زوال نعمت کی کوشش کرنا اور تعصب یہ ہے کہ کسی انسان پر خدا کی نعمت کو دیکھے اور اس نعمت کی تحقیر کرے اور صاحب نعمت سے ان لوگوں کو ترجیح دے جو اس نعمت سے بے بہرہ ہوں مثلاً جاہل ہونے کے باجود کسی عالم کے متعلق یہ کہے کہے کہ میں اس سے زیادہ عاالم ہوں اسی طرح اپنے سے زیادہ علم رکھنے والے کی تحقیر کرے اور کہے کہ میں اس سے بد رجہا بتہر ہوں بلکہ وہ تو میرے شاگردوں کی حیثیت بھی نہیں رکھتا یا یہ کہ دوسری قوم کے عالم سے اپنی قوم کے جاہل کو ترجیح دے اور میں صرف صفت علم کا ذکر کر دیا ہے ورنہ تعصب صرف علم سے مخصوص نہیں بلکہ کسی کی اچھی صفت کی تحقیر کرنا اور اس صفت سے خالی لوگوں کو اس سے بڑھانا تعصب کہلاتا ہے یعنی دوسری اقوام کے شرفاء سے اپنی قوم کے غیر شریف افراد کو  افضل کہنا یہ تعصب ہی کی بدولت ہوا کرتا ہے اور تعصب چونکہ عصبہ سے ہے اور اس کے مفہوم میں کنبہ پرستی خاندان نوازی اور قوم پروری داخل ہے لہذا تعصب اپنے لئے یا اپنں کے لئے ہی ہوا کرتا ہے کہ انسان کسی بھی باکمال شخص کو اپنے جیسا یا اپنی قوم و کنبہ و خاندان جیسا نہ سمجھے اور جس طرح غیظ و غضب تکبر کی پیداوار ہے اسی طرحتعصب بھی تکبر ہی کی پیداوار ہے اور یہ موذی مرض چونکہ عربوں میں عام تھا حتی کہ اپنی فصاحت و بلاغت پر اتراتے ہوئے وہ پورے عالم کی تمام اقوام کو عجم یعنی گونگا تصور کرتے تھے اور کسی غیر عرب کو عرب پر ترجیح دینا نا جائز سمجھتے تھے پس اگر غیر عرب عالم و کامل ہوتا اور عرب شخص جاہل و ناقص ہوتا تب بھی وہ عرب کو غیر عرب پر ترجیح دیتے تھے ان کی اسی عمومی عادت بد کے پیش نظر تعصب کی عرب کی طرف نسبت دی گئی ورنہ تعصب بڑی صفت ہے خواہ کسی قوم میں پایا جائے حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے منقول ہے کہ جناب رسالتمابؐ نے فرمایا من کان فی لبہ حبۃ من خر دل من عصبیۃ بعثہ اللہ یوم القیمۃ مع اعراب الجاھلیۃ یعنی جس انسان کے دل میں ایک رائی کے دانے کے برابر بھی تعصب ہو گا اس کو خدا بروز قیامت زبان جاہلیت کے عربوں (بدؤوں) کے ساتھ محشور کرے گا اور حسد کے لئے ضروری نہیں کہ قوم کے لئے ہو یا اپنی ذات کے لئے ہو بلکہ یہ موذی روحانی مرض دوسروں پر اللہ کی نعمت کو دیکھ کر پیدا ہوتا ہے اور اس کی نعمت کی تحقیر نہیں ہوتی بلکہ اس مرض میں اس کی نعمت زوال کی تمنا ہوتی ہے اور اس بیماری کے ہوتے ہوئے دل میں خواہش ہوتی ہے کہ فلاں شخص (محسود) کی نعمت اس سے زائل ہو جائے خواہ وہ نعمت یا اس جیسی نعمت مجھے ملے یا نہ ملے اور جب بھی اس شخص سے نعمت مذکورہ کے زوال کی خبر سنے یا زوال کے اسباب دیکھے تو دل میں خوشی محسوس ہو اور یہ بد ترین روحانی بیماری ہے اور یہ بیماری غیروں کی بہ نسبت اپنوں میں زیادہ ہوتی ہے جس طرح کہ تعصب غیروں میں ہی ہوا کرتا ہے پس اپنے خاندان کے کسی فرد کو فراوانی نعمت میں سرشار دیکھ کر خاندان کے ہی گھٹیا قسم کے آدمی خواہش کرنے لگتے ہیں کہ اس کی نعمت زائل ہو جائے اور پھر اس کی زوال نعمت پر خوشی بھی محسوس کرتے ہیں اور میرے خیال میں بڑا نیک بخت اور نیک نصیب ہے وہ انسان جو فراوانی نعمت خدا کے باوجود اپنی قوم و خاندان کے حسد سے محفوظ رہے اور تاریخ شاہد ہے کہ حضرت رسالتمابؐ اپنی قوم قریش کے حاسدین سے زخم خوردہ ہو کر دنیا سے تشریف لے گئے اور حضرت امیر المومنین علیہ السلام اور ان کی اولاد امجاد  پہلے قریشیوں اور پھر عباسیوں کے جور و ظلم کا نشانہ صرف حسد ہی کی بدولت بنتی رہی اور بہت ہی نیک بخت ہے وہ انسان جو اپنے اندر حسد یا تعصب جیسے موذی روحانی امراض کو محسوس کرلے اور اس سے تائب ہو جائے

 

ایک تبصرہ شائع کریں