توحید پروردگار
جب عقل یہ تسلیم کرلے کہ اس سارے جہان کا خالق جو ازلی
وابدی اور سرمدی ودائمیہے موجود ہے تو یہ بھی ماننا پڑتا ہے کہ وہ صرف ایک اکیلا ہے اس کاکوئی شریک نہیں کیونکہ یہ نظام اتم واکمل
اس کی وحدث کا شاید بین ہے چنانچہ قرآن مجید میں اس کا استدلال اس طرح
ہے کہ لوکان فیھما الھۃ الااللہ لفسدتا یعنی اگر آسمان وزمین میں اللہ کےعلاوہ
کوئی اور الہ بھی ہوتے تو یہ نظام فاسد ہوجاتا جس کی وجہ دوسری جگہ بیان فرمائی کہ
اذالذھب کل الہ بماخلق ولعلی بعضھم علی بعض(المومنون )یعنی اگر متعدد خدا ہوتے تو
ہر خدا اپنے پیدا کرو مخلوق کودوسرے کی پیدا کردہ مخلوق سے الگ کرلیتا اور مسئلہ تقسیم میں نزاع کی صورت پیدا ہوتی پس ایک دوسرے
سے چپقلش اور لڑائی ہوتی اور ہر خدا دوسرے
پر اپنی فوقیت وبڑائی کو منوانے کی کوشش
کرتا اور چونکہ ایسا نہیں ہے تو ماننا پڑتاہے کہ پورے جہان کا خالق صرف ایک خدا ہے
جس کاکوئی شریک نہیں ہے
تو حیدفی الذات یعنی
اللہ کی ذات میں اس کا کوئی شریک نہیں چنانچہ فرماتاہے لاتتخذوآالھین اثنین
انما ھو الہ واحد یعنی دوالہ نہ بناؤ کیونکہ
الہٰصرف ایک ہی ہے (النحل)
توحید فی الصفات یعنی
اللہ کی صفات میں اس کا اکوئی شریک نہیں ہے چنانچہ ارشاد فرماتاہے لیس کمثلہ شئیٌ وھو السمیع البصیر یعنی
اس کی مثل وشریک کوئ نہیں وہی ہر آواز کے
سننے اور جاننے والا ہے (شوری) توحید فی الافعال یعنی اللہ کی تخلیق وایجاد میں اس کا کوئی شریک
نہیں پس وہ اکیلا ہی کل کائنات کا خالق
وموجدہ ہے چنانچہ خود فرماتاہے ھذا خلق
اللہ فارونی ماذاخلق الذین من دونہ (لقمان )یعنی
یہ تو سب اللہ کی مخلوق ہے پس
دکھاؤ کیا پیدا کیاہے ؟ انہوں نے جو اس کے علاوہ ہیں (جن کو تم مانتے ہوں) پس اس
کے افعال میں نہ ملائکہ اس کے شریک ہیں
اور نہ نبی وولی اور جو ملائکہ وانبیاء یااولایاء کو افعال میں اللہ کا شریک بنائیں وہ یقینا مشرک ہیں
توحید فی العبادۃ
یعنی اسی ایک خدا کی عبادت کرنی چائیے
نچانچہ فرماتاہے فمن کان یرجوالقاء ربہ فلیعمل عملا صالحاولا یشرک بعبادۃ
ربہ احد (الکھف ) یعنی جو بھی اللہ کی لقاء کا خواہشمند ہواسے چایئے کہ نیک عمل بجالائے اور اللہ کی عبادت میں کسی
کو اس کا شریک نہ بنائے