التماس سورہ فاتحہ برائے والد بزرگوار،جملہ مومنین و مومنات،شھداۓ ملت جعفریہ ، خصوصاً وہ جن کا کوئی سورہ فاتحہ پڑھنے والا نہ ہو۔ یہاں کلک کریں

Search Suggest

علماء کی طرف رجوع

علماء کی طرف رجوع

علماء کی طرف رجوع

ابتداً عرض کیا جا چکا ہے کہ عقل اگرچہ صفات کی اچھائی و برائی کو سمجھتی ہے کیونکہ مذہب امامیہ میں اشیاء کا حسن اور قبح عقلی ہے یعنی مستحسن چیز کو عقل اچھا کہتی ہے اور قبیح چیز کو عقل قبیح اور برا کہتی ہے گویا چیزوں کی اچھائی یا برائی ان کی ذات میں داخل ہے پس عقل ان میں تمیز کرتی ہے کہ اچھی کون سی ہے اور بری کونسی ہے ۔

اہل سنت اشعریوں کا یہ عقیدہ ہے کہ چیزوں کی اچھائی یا برائی عقلی نہیں بلکہ شرعی ہے یعنی چیزں بذات خود نہ اچھی ہیں اور نہ بذات خود بری ہیں بس جن چیزوں کو شریعت نے حلال اور جائز کہہ دیا تو پتہ چلا کہ وہ اچھی ہے اور جس کو حرام کہہ دیا تو معلوم ہو کہ وہ بری ہے گویا اللہ کا حکم چیز کو اچھا بنا دیتا ہے اور اس کی بنی چیز برا بنا دیتی ہے ۔

شیعہ کہتے ہیں کہ سچ اچھی صفت ہے اگر شریعیت میں اس کی وضاحت نہ ہوتی تب بھی عقل اس کو اچھا کہتی اور جھوٹ بری صفت ہے اور یہی وجہ ہے کہ جو لوگ شریعت اور اسلام کے قائل نہیں وہ بھی سچ کو اچھا اور جھوٹ کو برا کہتے ہیں اسی طرح عدل و انصاف اچھی صفت ہے اور ظلم و جور بری عادت ہے لیکن اس کے برعکس اشعری کہتے ہیں کہ سچ اور عدل اس لئے اچھے ہیں کہ شریعت نے ان کو اچھا کہا ہے اور جھوٹ اور ظلم اس لئے برے ہیں کہ شریعت نے ان کو برا کہا ہے ۔

شیعہ کہتے ہیں کہ ظلم بری چیز ہے اور خداوند کریم برے کام نہیں کرتا لہذا یہ نہیں ہو سکتا کہ وہ کسی نیک آدمی کو جہنم میں دھکیل دے اور کسی بد آدمی جنت میں بھیج دے لیکن اشعری کے عقیدہ کو یہ بات لازم آتی ہے کہ چونکہ ظلم بذات خود کوئی چیز ہے نہیں لہذا اگر خدا چاہے تو کسی نیک کو جہنم میں بھیج دے اور چاہے تو کسی بدکار کو جنت میں بھیج دے کیونکہ حسن یا قبیح اللہ کے فیصلے کے بعد پیدا ہوتا ہے بہرکیف شیعہ کے نزدیک حسن اور قبیح اشیا کا ذاتی ہے اور خدا حسن کا حکم دیتا ہے اور قبیح سے منع فرماتا ہے ہم نے اس بحث کو اپنی عقائد کی کتاب لمعۃ الانوار فی عقائد الابرار میں تفصیل سے بیان کیا ہے

جب انسانی عقل نے عالم ناتوانی سے فضاء جوانی میں قدم رکھا اور جسم انسانی میں ہونے والی برائیوں کا جائزہ لیا تو اس نے اپنی فطرت کے ماتحت نیک صفات کی مظلومیت کے خلاف آواز اٹھائی لیکن اس مقام پر عقل کی براہ راست اپنی سوچ کو صحیح فیصلہ نہیں قرار دیا جا سکتا اس لئے کہ مدت مدید تک اس نے خواہش نفس کے زیر اثر کے فیصلوں کے سامنے سر جھکائے رکھا ہے اور اس کے نظریات میں وہ خلوص مفقود ہو گیا ہے جو اس کی فطر صحیہ؟ کو تفویض کیا گیا تھا لہذا ضروری ہے کہ عقل انسان کی رہنمائی کرنے والے ایسے ہادی ہوں جن میں خطا کا امکان نہ ہو اور وہ نبی یا امام ہی ہو سکتے ہیں ۔

نبی و امام کی موجودگی میں دور دراز کے بسنے والے افراد یا غیبت امام کے زمانہ میں تمام افراد انسانی وہ ہدایات کن لوگوں سے حاصل کریں جب کہ وہ اپنی عقل پر مکمل بھروسہ نہیں کر سکتے جس کی وجہ گذر چکی ہے تو اس کےلئے معصومین علیہم السلام نے علماء کو اپنی جانب سے نیابت کےلئے نامزد فرمایا چنانچہ حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے منقول ہے ان العلماء ورثہ الانبیاء و ذالک ان الانبیاء لم یورثو درھما ولا دیناراً و انما اورثوا احاریث من احدیثھم فمن اخذ بشیء منھا فقد اخذ حظاوافرا الخبر یعنی علماء انبیاء کے وارث ہیں کیونکہ انبیاء[1] نے درہم و دینار کی وارثت نہیں چھوڑی بلکہ انہوں نے اپنی احادیث میں سے حدیثیں چھوڑی ہین پس جس نے ان میں سے کچھ لے لیا تو گویا اس نے بہت کچھ لے لیا۔

امام محمد باقر علیہ السلام نے فرمایا۔ وہ عالم جس کے علم سے فائدہ اٹھایا جائے وہ ستر ہزار عابد سے افضل ہے ۔

ایک روایت میں ہے کہ فقیہ کا درجہ بنی اسرائیل کے انبیاء کے برابر ہے ۔



[1] ممکن ہے اس حدیث میں کوئی شخص یہ اعتراض اٹھائے کہ اس رو سے تو جناب خاتون جنت کا حق فدک ختم ہوتا ہے اور خلیفہ کی جانب سے پیش کردہ حدیث کی تصدیق ہوتی ہے کہ نبیوں کا وارث کوئی نہین ہوتا تو اس کا جواب یہ ہے کہ انبیاء کی وہ حیثیتیں ہوا کرتی ہیں ایک یہ کہ وہ نبی ہین اور دوسرے یہ کہ وہ انسان ہیں پس وہ نبی ہونے کی حیثیت سے علم نبوت کے حامل تھے اور انسان ہو نیکی حیثیت سے کھاتے پیتے بھی تھے پس نبی ہونے کی حیثیت سے ان کا ورثہ علم نبوث؟ ہے اور انسان ہونے کی حیثیت سے ان کا ورثہ وہ ہے جو باقی انسانوں کا ہوا کرتے ہے کیونکہ آیت وراثت میں نبی کا استثناء موجود نہیں ہے پس درہم و دینار کی نفی ورثہ نبوت کے اعتبار سے ہے نہ کہ حقوق انسانیہ کے لحاظ ہے پس جناب خاتون جنت ہر دو طرح سے اپنے باپ کی وارث تھیں وہ علم کے اعتبار سے باپ کے علم کی وارث تھیں اور حقوق انسانیہ کے لحاظ سے وہ باپ کے باقی اموال کی وارث تھیں جن سے انکو محروم کر دیا گیا تفصیل تفسیر انوارالنجف میں ملاحظہ فرمائیں۔

 

ایک تبصرہ شائع کریں