التماس سورہ فاتحہ برائے والد بزرگوار،جملہ مومنین و مومنات،شھداۓ ملت جعفریہ ، خصوصاً وہ جن کا کوئی سورہ فاتحہ پڑھنے والا نہ ہو۔ یہاں کلک کریں

Search Suggest

علمائے صالحین اور علمائے سوء

علمائے صالحین اور علمائے سوء

خداوند کریم جو نمائندگان اپنی جانب سے بھیجتا ہے ان میں صفت عصمت کی بدولت خطا کا امکان نہیں ہوتا لیکن نبی یا امام کی نیابت میں جن علماء کی طرف رجوع کرنے کا حکم دیا گیا ہے چونکہ وہ معصوم نہیں ہوتے لہذا ان کو خطا اور غلطی کے امکان سے مبرا نہیں کہا جا سکتا تو معصومین کی جانب سے علماء کے انتخاب کے لئے ہدایات موجود ہیں کہ وہ کن صفات والے علماء ہونے چاہیں جن سے عام انسان ہدایات حاصل کر کے اپنی منزل مراد تک پہنچیں ۔ حضرت امیر المومنین علیہ السلام سے ایک روایت میں منقول ہے آپ نے فرمایا وہ ہے جو لوگوں کو اللہ کی رحمت سے مایوس نہ کرے اور اللہ کے عذاب سے بے خوف نہ کرے اور اللہ کی نافرمانیوں میں ان کو ڈھیل نہ دے اور قرآن سے منہ موڑ کر کسی اور شغل میں مشغول نہ ہو پھر آپ نے فرمایا اس علم میں کوئی بھلائی نہیں جس میں دانش مندی نہ ہو اس قرات میں کوئی خوبی نہیں جس میں تدبر نہ ہو اور اس عبادت میں کوئی بہتری نہیں جس میں تفقہ (مسائل سے واقفیت) نہ ہو۔

آپ نے فرمایا جو شکص ایک علم کا باب ایسے شخص سے حاصل کرے جو قابل وثوق ہوتو وہ ایک ہزار رکعت نماز سے افضل ہے ۔

آپ نے تین مرتبہ فرمایا ۔ اللھم ارحم خلفائی ۔ اے اللہ میرے جانشینوں پر رحم فرما تو لوگوں نے دریافت کیا کہ حضور! وہ کون لوگ ہیں؟ تو آپ نے فرمایا وہ وہ ہیں جو میرے بعد آکر میری حدیث اور سنت لوگوں کے سامنے بیان کریں گے ۔

حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے دریافت کیا گیا کہ ہمارے مذہب کے دو آدمیوں کے درمیان جھگڑا پیدا ہوا تو انہوں نے حکومت وقت کے مقرر شدہ میجسٹریٹ و حاکم کی طرف مقدمہ لے جا کر فیصلہ حاصل کیا ۔ تو کیا درست ہے؟ آپ نے فرمایا حق و باطل میں جو شخص ان کی طرف مقدمہ لے جائے گویا وہ شخص طاغوت کی طرف مقدمہ لے گیا اور اس کے فیصلہ سے جو مال لیا جائیگا ۔ وہ سحت ہو گا(حرام ہو گا) اگر در حقیقت لینے والا اس کا حق داری ہی کیوں نہ ہو کیونکہ اس نے طاغوت کے فیصلے سے اسے حاصل کیا ہے اور اللہ فرماتا ہے یریدون ان یتحاکموا الی الطاغوت وقد امروا ان یکفرو ا بہ یعنی وہ چاہتے ہیں کہ طاغوت کی طرف مقدمہ لے جائیں حالانکہ ان کو حکم دیا گیا ہے کہ اس کا انکار کریں پھر سوال کیا گیا کہ ایسی صورت میں ان کو کیا کرنا چاہیے؟ آپ نے فرمایا من کان منکم ممن قدر وی حدیثنا و نظر فی لالنا و حرامنا و عرف احکامنا فلیرضوا بہ حکما فانی قد جعلنہ علیکم حاکما فاذا حکم بحکمنا فلم یقبل منہ فانما استخف بحکم اللہ و علینا رد والراد علینا الراد علی اللہ و ہو علی حد الشرک باللہ یعنی تم میں سے جو شخص ہماری احادیث کا راوی ہے اور ہمارے حلال و حرام میں نظر رکھتا ہو اور ہمارے احکام کو جانتا ہو تو ایسے شخص کے فیصلے پر رضا مند ہو جانا چاہیے کیونکہ ایسے شخص کو میں نے تم پر حاکم مقرر کیا ہے پس وہ جب ہمارے حکم کے ماتحت فیصلہ کرے اور اس کوقبول نہ کیا جائے تو گویا اللہ کے حکم کی تحقیر کی گئی اور ہماری تردید کی گئی اور ہماری تردید کرنے والا ایسا ہے جس طرح کہ اس نے اللہ کی تردید کی ہو اور وہ شرک کی حد پر ہے ۔

حضرت امام حسن عسکر علیہ السلام نے و منھم امیون لایعلمون الکتاب الا امانی کی تفسیر میں فرمایا کہ حضرت جعفر صادق علیہ السلام سے ایک شخص نے سوال کیا کہ قوم یہود جو کتاب کو خود نہیں سمجھتے مگر اتنا ہی کہ جتنا اپنے علماء سے سے سنتے ہیں کیونکہ ان کے لئے اور کوئی راستہ ہی نہیں ہے تو خداوند کریم نے ان کے عوام کی تقلید کرنے اور ان کی بات کو ماننے میں مذمت کیوں کی ہے؟ اور یہودی عوام بھی ہمارے عوام کی طرح ہیں اگر ان کےلئے اپنے علماء کی تقلید کرنا جائز ہے تو ان کےلئے بھی ناجائز ہونا چاہیے آپ نے فرمایا کہ ہمارے عوام اور علماء اور یہود کے عوام اور علماء میں اعتبار سے فرق ہے اور ایک اعتبار سے یگانگت ہے جہا ں دونو میں میں یگانگت ہے وہاں ہمارے عوام پر بھی علماء کی تقلید حرام ہے سائل نے عرض کی کہ حضور! فرق کی وجہ بیان فرمائیے تو آپ نے فرمایا کہ عوام یہود کو معلوم تھا کہ ان کے علماء جھوٹ بولتے ہیں ۔ سفارشات، توجہات و احسانات کے عوض میں احکام شرعیہ کو اپنے مقام سے ہٹا کر رشوت اور حرام سے پیٹ بھرتے ہین اور انہیں پتہ ہے کہ وہ اپنے اندر سخت تعصب رکھتے ہیں پس جس پر تعصب کرتے ہیں اس کو جائز حقوق سے محروم کر دیتے ہیں اور جس کے لئے تعصب کرتے ہیں اس کو ناجائز طور پر حقوق دلوا دیتے ہین سلسلہ کلام کو جاری رکھتے ہوئے آپ نے فرمایا اسی طرح ہماری امت کے عوام بھی اگر اپنے علماء میں ظاہر بظاہر فسق عصبیت اور مال دینیا کے جمع کرنے پر حرص دیکھیں اور یہ کہ وہ بھی از راہ تعصب صاحبان حقوق کو اپنے جائز حقوق سے محروم کر دیتے ہیں اور جن کے لئے تعصب کریں ان پر نا جائز طور پر احسان و اکرام کی بارش کر دیتے ہیں پس ہمارے عوام میں جو شخص اس قسم کے علماء کی تقلید کرے گا وہ مثل ان یہودی عوام کے ہے  جنہوں نے اپنے فاسق علماء کی تقلید کی ہے ۔ فاما من کان من الفقھاء صائناً لنفسہ حافظاً لدینہ مخالفاً علی ہواہ مطیعاً لامر لاہ فللعوام ان یقلدوہ و ذالک لا یکون الا بعض فقھاء الشیعۃ لاجمیعھم یعنی لیکن  فقہاء میں سے جو شخص اپنے نفس کو محفوظ کرنے والا (عادات رذیلہ سے) اپنے دین کا محافظ اپنی خواہشات کا مخالف اور اپنے مولا کا فرمانبردار ہوتو عوام کو چاہیے کہ اس کی تقلید کریں اور یہ صفات ہمارے بعض فقہا میں پائی جاتی ہیں نہ کہ سب میں اس کے بعد آپ نے فرمایا کہ ان میں سے جو بھی فقہاء عامہ کی طرح امور قبیحہ و ناشائستہ کا مرتکب ہو تو ان سے ہماری کوئی بات قبول نہ کرو ۔ ان کا کوئی احترام نہیں ہے کیونکہ  اہم اہلبیت کی طرف سے علوم شرعیہ کو عوام تک پہنچانے والے غلط ملط ہو گئے ہیں بعض تو فاسق لوگ ہیں جنہوں نے ہمارے احکام حاصل کر لیے لیکن وہ اپنی جہالت کی وجہ سے ان میں قطع و برید کر لیتے ہین اور معرفت کی کمی کی وجہ سے برمحل اور بے محل کی تمیز نہیں کر سکتے اور بعض عمداً ہمارے اوپر جھوٹ بولتے ہیں تا کہ دنیا کو خوب کما لیں  اور در حقیقت یہ چیز ان کے لئے جہنم کی زاد راہ ہے اور بعض ان میں ناصبی لوگ بھی شامل ہیں جو ہمارے اوپر جرح کرنے کی جرات نہیں کر سکتے پس ہمارے صحیح علوم کا کچھ حصہ سیکھ لیتے ہیں اور شیعوں کے پاس چلے جاتے ہیں اور ایسی باتیں ہماری طرف منسوب کر کے کہتے ہیں کہ ناصبیوں کو ہماری تنقیص کا موقعہ مل جاتا ہے پھر ان حدیثوں کے ساتھ انپی طرف سے چند در چند اضافے کر لیتے ہیں اور جھوٹی باتیں ملا لیتے ہیں جن سے ہم بالکل بری ہیں پس ہمارے سیدھے سادے شیعہ عوام ہمارے علوم سمجھ کر ان کو قبول کر لیتے ہیں وہ لوگ خود بھی گمراہ ہوئے اور انہوں نے اور لوگوں کو بھی گمراہ کیا ایسے لوگ یزید بن معاویہ سے بھی ہمارے شیعوں کے لئے زیادہ خطرناک اور نقصان دہ ہیں کیونکہ یزید بن معاویہ اور اس کے لشکر نے تو قتل کیا تھا اور لوٹا تھا لیکن یہ علماء سوء جو در حقیقت ناصبی ہیں اورلوگوں کے سامنے ہمارا موالی ہونا اور ہمارے دشمنوں سے بیزار ہونا ظاہر کرتے ہیں یہ لوگ سیدھے سادھے  شیعوں کے اذہان میں شکوک و شہبات ڈالتے ہیں پس ان کو گمراہ کر کے راہ حق سے راکتے ہیں بے شک ان عوام میں سے جس کے دل میں اپنے دین کے معاملہ میںپورا خلوص ہوتو اللہ اپنے فضل و کرم سے اس کو اس قسم کے مشتبہ کافر (عالم سوء) کے ہاتھ میں کھلونا نہیں بننے دیتا بلکہ اس کی صحیح رہبری کےلئے اس کے پاس ایک ایسے مومن کو بھیج دیتا ہے جو اس کو صحیح راستہ کی طرف رہنمائی کرتا ہے اور خداوند کریم اس کو قبول کرنے کی توفیق بھی دے دیتا ہے پس اس کے لئے دین و دنیا کی بھلائی کو جمع کر دیتا ہے اور اس گمراہ کرنے والے (عالم سوء) پر خدا دنیا میں بھی لعنت کرتا ہے اور آخرت میں بھی اس کو گرفتار عذاب کرے گا امام حسن عسکری علیہ السلام نے فرمایا کہ حضرت امیر المومنین علیہ السلام سے سوال کیا گیا کہ آئمہ ہدی جو تاریکیوں میں روشن فانوس ہیں ان کے بعد اللہ کی تمام مخلوق سے بہتر کون لوگ ہیں تو آپ نے فرمایا العلامء اذاصلحوا یعنی علماء جب کہ وہ صالح ہوں پھر پوچھا گیا کہ ابلیس فرعون نمرود اور تمہارے حقوق کے غاصب دشمنوں (جنہوں نے تمہارے القاب و مقامات پر قبضہ جما لیا ) کے بعد خدا کی پوری خدائی میں بد ترین  انسان کون ہیں تو آپ نے فرمایا العلماء اذا فسدوا یعنی وہ بھی علماء ہیں جبکہ فاسد اور غلط کار ہو جائیں جو باطل کو ظاہر کریں اور حق کو چھپائیں انہیں لوگوں کے متعلق ارشاد قدرت ہے اولئک یلعنھم و یلعنھم الاعنون الا الذین تابوا ایسے ہی لوگ ہیں جن پر اللہ لعنت کرتا ہے اور باقی تمام لعنت کرنے والے بھی لعنت کرتے ہیں باستثناء ان لوگوں کے جو توبہ کر لیں۔

مروی ہے کہ حضرت عیسٰی علیہ السلام نے اپنے حواریوں کو ایک دستور العمل تعلیم فرمایا تھا اور وہ یہ کہ خداالحق من اھل الباطل ولا تاخذو الباطل من اھل الحق یعنی باطل پرستوں سے بے شک حق بات لے لیا کرو لیکن اہل حق سے باطل کو قبول نہ کیا کرو حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا کہ جب عالم کو دنیا کا فریفتہ دیکھو تو اسے دین کے معاملہ میں ناقابل اعتماد سمجھو کیونکہ ہر شخص اپنی محبوب چیز کی ہی پاسداری کرتا ہے اور آپ نے جہنم میں جانے والے علماء کی اس طرح ترتیب بیان فرمائی ۔

وہ عالم جو اپنے علم کو بطور خزانہ کے جمع کریں اور خرچ نہ کریں وہ جہنم کے پہلے طبقہ میں جائیں گے

وہ عالم کہ جب ان کو نصیحت کی جائے تو ناک چڑھائے اور نصیحت کرنے لگے تو سختی سے کرے ایسے لوگ جہنم کے دوسرے طبقہ میں ہوں گے۔

وہ عالم جو علم کو امراء تک محدود رکھے اور مساکین کو اس میں سے فیض نہ پہنچائے۔ وہ جہنم کے تیسرے طبقہ میں ہوں گے ۔

وہ عالم جو علم میں سلاطین جبابرہ کا طرز عمل اختیار کرے کہ اگر اس کی رد کی جائے یا اس کے حقوق میں کوتاہی کی جائے توہ ناراض ہو جائے وہ جہنم کے چوتھے طبقہ میں ہوں گے۔

وہ عالم جو اپنے عالم کی مقبولیت و زیادتی کی خاطر یہود و نصاریٰ کی حدیثیں طلب کریں وہ جہنم کے پانچویں طبقہ میں جائیں گے ۔

وہ عالم جو فتوٰی دینے بیٹھے تو سلونی کہہ کر بڑا عالم اپنے تئیں کہلوائے (اگرچہ جانتا کچھ بھی نہ ہو) وہ جہنم کے چھٹے طبقہ میں جائیں گے ۔

وہ عالم جو علم کو مروت و بڑائی کے طور پر اپنے اندر محفوظ رکھتے ہیں وہ جہنم کے ساتویں طبقہ میں ہوں گے۔

بحارالانوار سے منقول ہے کہ حضرت رسالتمآبؐ نے فرمایا اگر مومن (مصنف) مرجائے اور اپنی تصنیف کا ایک ورق ہی چھوڑ جائے جس پر علم کی باتیں لکھی ہوئی ہیں تو وہی ایک ورق بروز محشر اس مصنف اور دوزخ کے درماین حائل ہو جائے گا جو پوری دنیا سے سات گنا بڑا ہو گا اور جب کوئی مومن ایک عالم کے پاس صرف ایک گھنٹہ ہی بیٹھتا ہے تو اس کو خدا کی جانب سے ندا پہنچتی ہے کہ تو میرے دوست کے ساتھ بیٹھا ہے مجھے اپنی عزت و جلالت کی قسم کہ میں تجھے اس کے ہمراہ جنت میں بھیجوں گا۔

آپ نے فرمایا اہل تقٰوی سردار ہیں اور فقہاء قائد ہیں اور ان دونوں کے پاس بیٹھنا عبادت ہے ایک دفعہ ایک انصاری حضرت پیغمبرؐ کے پاس آیا اور اس نے عرض کی یا رسولؐ اللہ ! اگر ایک طرف جنازہ ہو اور دوسری طرف ایک عالم کی مجلس ہوتو ان دونوں میں سے آپ کے نزدیک کس کی طرف جانا زیادہ بہتر ہے تو آپ نے فرمایا کہ اگر جنازہ کو اٹھانے اور دفن کرنے والے دوسرے لوگ موجود ہوں تو عالم کی مجلس میں جانا ہزار جنازوں ہزار بیماروں کی عیادت (تیمارداری) ہزار راتوں کی عبادت ہزار دن کے روزوں ہزار درہموں (جو مساکین پر خرچ کئے جائیں) فریضہ حج کے علاوہ ہزار حجوں اور فریضہ جہاد کے علاوہ ہزار جہادوں (جو نفس و مال کے ذریعے کئے جائیں) سے افضل ہے بلکہ ان کارہائے خیر کی عالم کی مجلس سے کوئی نسبت ہی نہیں ۔ تم نہیں جانتے کہ علم کے ذریعے سے ہی تو خدا پرستی ہوتی ہے اور دین و دنیا کی۔ بھلائی کا راز عمل ہی میں مضمر ہے اور اس کے برعکس دین و دنیا کا خسارہ جہالت سے وابستہ ہے ۔ آپ نے فرمایا ہر عالم کی مجلس میں نہ بیٹھا کرو بلکہ ایسے عالم کی مجلس میں بیٹھو جو کم از کم پانچ برائیوں سے پانچ خوبیوں کی طرف دعوت دینے والا ہو (1) شک سے یقین کی طرف (2) تکبر سے فروتنی کی طرف (3)  ریاکاری (دکھلاوے) سے خلوص کی طرف (4) دشمنی سے خیر خواہی کی طرف (5) لالچ سے زہد کی طرف۔

حضر ت امیر المومنین علیہ السلام نے فرمایا وہ انسان عقلمند نہیں کہ لوگ اس پر جھوٹی تہمتیں لگائیں اور وہ گھبرا جائے اسی طرح وہ انسان بھی دانان نہیں جو جاہلوں کی تعریف سے خوش ہو جائے الخبر آپ نے فرمایا کہ جاہل سے طلب علم کا عہد  بعد میں لیا گیا جب کہ عالم سے ترویج علم کا عہد پہلے لیا گیا کیونکہ علم جہالت سے پہلے ہے۔

آپ نے اپنے فرزند محمد حنیفیہ کو بطور وصیت کے فرمایا کہ انسان کی مروت دوطرح کی ہے ایک حضری (گھرمیں) اور دوسری سفری ، حضری مروت (یعنی جب گھر میں ہو) یہ ہے کہ تلاوت قرآن کرے ۔ علماء کی صحبت میں بیٹھے ، فقہی مسائل میں نظر کرے ، نماز جماعت سے ادا کرے اور سفری مروت یہ ہے کہ اپنے زاد راہ میں سے ہمسفر ساتھیوں پر خرچ کرے ۔ ساتھیوں کے ساتھ اختلاف ختم کرے اور ہر نشیب و فراز اور نشست و برخواست میں اللہ کا ذکر زبان پر جاری رکھے

ایک روایت میں ہے کہ ایک مرتبہ حواریوں نے حضرت عیٰسی علیہ السلام سے سوال کیا تھا کہ اے روح اللہ ! ہم کیسے انسان کی خدمت میں بیٹھا کریں تو آپ نے فرمایا (جس میں تین خصلتیں ہوں) جس کی زیارت تمہیں اللہ کی یاد دلائے جس کی گفتار تمہارے علم کو زیادہ کرے اور جس کا کردار تمہیں آخرت کی طرف رغبت دلائے ۔

حضرت رسالتمابؐ نے فرمایا جو عالم اپنے بسترہ پر تکیہ لگا کر اپنے علمی مسائل میں غور کر رہا ہو یہ عابد کی ستر سالہ عبادت سے افضل ہے ۔

ایک تبصرہ شائع کریں