التماس سورہ فاتحہ برائے والد بزرگوار،جملہ مومنین و مومنات،شھداۓ ملت جعفریہ ، خصوصاً وہ جن کا کوئی سورہ فاتحہ پڑھنے والا نہ ہو۔ یہاں کلک کریں

Search Suggest

زمیندار اور تکبر

یہ ضروری نہیں کہ ہر زمیندار متکبر ہو کیونکہ ہو سکتا ہے کہ زمیندار بھی ہو اور تکبر کے بجائے انکساری اور فروتنی اپنے اندر رکھتا ہے لیکن ...

یہ ضروری نہیں کہ ہر زمیندار متکبر ہو کیونکہ ہو سکتا ہے کہ زمیندار بھی ہو اور تکبر کے بجائے انکساری اور فروتنی اپنے اندر رکھتا ہے لیکن چونکہ عموماًزمیندار لوگ تکبر کے موذی مرض میں مبتلا ہوتے ہیں اس لئے حدیث میں ان کا ذکر کر دیا گیا ہے اور زمیندار سے مراد مرلہ دو مرلہ یا کنال دو کنال کے مالک نہیں بلکہ ایسے لوگ مراد ہیں جن کے ماتحت چند مزارعین کام کرتے ہوں ۔ ہم نے ایسے زمیندار بھی دیکھے ہیں جو حضرت امیر المومنین علیہ السلام کی سیرت کو اپناتے ہوئے غریبوں اور بے کسوں کے ساتھ بیٹھنا سعادت سمجھتے ہیں اور ایسے بھی دیکھے ہیں جو غریبوں کا پاس بیٹھنا اپنی توہین سمجھتے ہیں بلکہ ان سے ہاتھ ملنا تو درکنا ان کے سلام کا جواب دینا بھی کسر شان سمجھتے ہیں ان کا دربار فرعونیت کی یاد تازہ کرتا ہے ۔ لہجے میں سختی چہرہ پر ترشی کردار میں پستی اور رفتار میں کبریائی کو وہ اپنی شان سمجھتے ہیں جب وہ کرسی یا چار پائی پر بیٹھے ہوں اور ارد گرد خالی کرسیاں یا چار پائیاں بچھی ہوں تو کسی غریب کی مجال نہیں کہ ان کے سامنے کسی خالی کرسی یا چار پائی پر یٹھنے کی جرات کرے ۔

بہر کیف تکبر نہایت بری صفت ہے جو اکثر برائیوں کی جڑ ہے خواہ متکبر زمیندار ہو یا غیر زمیندار اور جس طرح یہ ممکن ہے کہ زمیندار ہو اور متکبر نہ ہو اسی طرح یہ بھی ممکن ہے کہ زمیندار نہ ہو اور متکبر ہو ۔ چننچہ ایک حدیث میں حضرت رسالتمابؐ سے منقول ہے آپ نے فرمایا ثلثۃ لا یکلمھم اللہ ولا ینظر الیھم یوم القیمۃ ولا یزکیھم ولھم عذاب الیم شیخ زان و ملک جبار و مقل مختال۔ یعنی تین قسم کے لوگوں کے ساتھ خداوند کریم بروز محشر کلام نہ کرے گا (ازراہ غضب) اور نہ ان پر نظر رحمت کرے گا اور نہ ان کے اعمال کا تزکیہ کرے گا (یعنی ان کے اعمال قابل جزا نہ ہوں گے ) اور ان کےلئے درد ناک عذاب ہو گا (1) بوڑھا زانی (2) ظالم بادشاہ (3) غریب متکبر

اس میں شک نہیں کہ تکبر کی بدولت ہی ابلیس کی گردن میں ہمیشہ کے لئے طوق لعنت ڈالا گیا ہے چنانچہ جب اس سے دریافت کیا گیا کہ تو نے ترک سجدہ آدم تکبر کی وجہ سے کیا ہے یا عالین میں سے ہے تو اس نے عالین میں سے ہونے کی نفی کر دی اور کہنے لگا تو نے مجھے آگ سے پیدا کیا اور اس کو مٹی سے پیدا کیا یعنی جس میں بلندی ہے وہ اس خاک کے سامنے کیسے جھکے جس میں فطرتاً فروتنی و پستی ہے اور طبیعت میں انانیت کا پیدا ہوجانا تکبر ہے ۔ خواہ اس کا تعلق کسی قوم سے ہو پس اگر عالم اپنے علم میں تکبر کر کے دوسروں کو حقیر سمجھےیا کوئی پیشہ ور اپنے کمال کی وجہ سے دوسروں کو ذلیل سمجھے یہ سب مذموم اور مبغوض خدا ہیں۔ تکبر ہی کی بدولت انسان حق کی بات کو ٹھکرا دیتا ہے کیونکہ جو بات اس کے منہ سے نکلے اور دوسرا شخص دلائل کے ساتھ اس کو سمجھانے کی کوشش کرے تو وہ چونکہ اپنے منہ سے ایک بات کہہ چکا ہوتا ہے لہذا دوسرے کی بات ماننا اپنی کسر شان سمجھتا ہے اور یہ علمی تکبر ہے اور تکبر کے تمام اقسام سے یہ قسم بد ترین ہے چنانچہ حضرت رسالتمابؐ سے منقول ہے آپ نے فرمایا وہ شخص ہر گز جنت میں داخل نہ ہو گا جس کے دل میں رائی کے برابر بھی ایمان ہوگا ۔ تو ایک شخص نے سوال کیا کہ حضور! اچھے کپڑے پہننا اور اچھی سواری پر سوار ہونا بھی تکبر ہے ؟ تو آپ نے فرمایا کہ نہیں بلکہ اپنے قول کی لاج رکھنے کےلئے ازراہ تحقیر قول حق کو ٹھکرا دینا تکبر ہے اور اپنی غلط رائے کو ٹھکرا کر قول حق کے سامنے سر تسلیم خم لینے کا نام ایمان ہے اور اس مضمون کی روایات بکثرت وارد ہیں۔

عموماً جس انسان کی خوشامد کرنے والے موجود ہوں اس میں تکبر آ جاتا ہے اور بہت کم خوش نصیب ایسے ہوتے ہیں کہ اپنی حیثیت کو خود سمجھیں اور جذبات و خواہشات کے طوفانی حملوں سے محفوظ رہیں حضرت رسالتمابؐ کا ارشاد ہے کہ مجھے بچوں کی چند عادات بھاتی ہیں۔ ان میں سے ایک یہ ہے کہ بچے زمین پر بیٹھ جانے میں خوشی محسوس کرتے ہیں اور میں محمدؐ بھی زمین بیٹھ جانے کو محبوب جانتا ہوں اور حضرت امیر المومنین علیہ السلام کا دستور تھا کہ زمین پر بیٹھ کر ہی کھانا، تناول فرماتے تھے اور غرباء طبقہ کے لوگوں کی مجلس میں بیٹھنا پسند فرماتے تھے اور حضرت پیغمبرؐ جب مساکین کے پاس بیٹھتے تو یہ دعا مانگتے تھے اللھم احینی مسکیناً و امتنی مسکینا واحشرنی فی زمرہۃ المساکین (اوکما قال)یعنی اے اللہ ! مجھے مسکینوں کی زندگی اور مسکینوں کی موت عطا کر اور بروز محشر مساکین کے زمرہ میں مجھے محشور فرما۔

ضرار سے جب امیر شام نے حضرت امیر المومنین علیہ السلام کی سیرت کے متعلق دریافت کیا تو ضرار نے اپنے جواب میں کہا کہ حضرت علؑی کی ذات ستووہ صفات کے متعلق کیا عرض کروں کہ وہ غریبوں کے ساتھ اس طرح بے تکلف بیٹھتے تھے کہ معلوم ہوتا تھا آپ بھی انہی کا ایک فرد ہین اور ان کے ساتھ کھانا تناول کرنے میں کسر شان نہیں سمجھتے تھے ۔ لمبی روایت میں سے صرف ایک جملے کا مفہوم میں نے پیش کیا ہے حضرت امام رضا علیہ السلام سے نیشا پور کے راستہ میں غلام نے عرض کی کہ حضورؐ کھانا تناول فرما لیجئے۔ آپ نے فرمایا سب ساتھیوں کو بلاؤ تا کہ مل کر کھالیں غلام نے عرض کی کہ ہم آپ کا پس خوردہ کھانے میں فخر محسوس کرتے ہین آپ نے فرمایا جس کا مقصد یہ ہے کہ تنہا کھانا اور اپنا پس خوردہ دوسروں کھلانا تکبر کی علامت ہے اور شریعت مقدسہ میں اس کی اجازت نہیں ہے ۔

حضرت امیر المومنین علیہ السلام نے اپنی حکومت کے زمانہ میں تنہا جاتے تھے راہ گم کردہ لوگوں کو راہ بتلاتے تھے اور کمزوروں اور ناتوانوں کی دست گیری کرتے تھے اورجب دکانداروں اور سبزی فروشوں کے سامنے سے گذرتے تھے تو قرآن مجید سے یہ آیت تلاوت فرماتے تھے تلک الدارالاخرہ نجعلھا للذین لا یردون علوا فی الارض الایہ یعنی وہ آخرت کا گھر (جنت ) ہم ان لوگوں کےلئے قرار دیں گے جو زمین بڑائی کا ارادہ نہ کریں۔

(اندازہ کیجیے، حضرت امیر المومنین علیہ السلام مملکت اسلامیہ کے تاجدار کی حیثیت رکھنے کے باوجود بازار میں اکیلے چلتے تھے کیونکہ اپنے پیچھے چند آدمیوں کو لگا کر چلنا بڑائی اور تکبر کی نشانی ہے لیکن دور حاضر میں اس کے نام لیوا اکییلا چلنا اپنی توہین سمجھتے ہیں حتا کہ علماء وفقہا بھی اپنی کسر شان سمجھتے ہیں کہ اکیلے چلیں اور میں نے ایک روایت میں دیکھا ہے کہ جس کے کان اپنے پیچھے جوتیوں کی کھٹکھٹاہٹ کی آواز سننے کے عادی ہو جاتیں وہ متکبر ہے) آپ نے آیت مجیدہ کے متعلق فرمایا کہ یہ انصاف پسند متواضع مزاج حکمرانوں کے حق میں نازل ہوئی اور عوام الناس میں سے صاحبان قدرت لوگ بھی اس میں شامل ہیں اور آپ نے فرمایا کہ انسان کی بڑائی اور خود پسندی کا تقاضا  تو یہ ہے کہ ہر انسان چاہتا ہے کہ میرے جوتے کا تسمہ بھی دوسرے کے تسمہ سے عمدہ ہو۔حضرت امیر المومنین علیہ السلام سے منقول ہے ما لبنی اٰدم و الفخر اولہ نطفۃ و اٰ خرہ جیفۃ ولایرزق نفسہ ولا یدفع حتفہ یعنی آدم کی اولاد کا فخر (تکبر) سے کیا واسطہ ؟ جس کی ابتداء نطفہ ہے اور انتہا مردہ ہے نہ وہ اپنے آپ کو رزق دے سکتا ہے اور نہ اپنی ذات سے موت کو دور کر سکتا ہے ۔

حضرت رسالتمابؐ نے بنی تمیم کے ایک شخص کو بطور نصیحت ارشاد فرمایا کہ چار در کو زمین پر گھسیٹ کر چلنے سے بچو کیونکہ اس میں تکبر پایا جاتا ہے ۔

ایک دوسری حدیث میں آپ نے فرمایا کہ جہنم میں اکثریت تکبر کرنے والوں کی ہو گی ۔

حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا کہ ہر قوم میں سے شریر قسم کے لوگ ہی تکبر کیا کرتے ہیں ۔

آپ نے فرمایا جو شکص زمین پر تکبر کی چال سے چلے تو اس پر زمین اور زمین سے نیچے رہنے والی اور اوپر بسنے والی سب مخلوق لعنت کرتی ہے ۔

امام محمد باقر علیہ السلام نے فرمایا کہ تکبر اللہ کی رداء ہے اور جو شخص تکبر کرتا ہے وہ اللہ کی رداء چھیننے کی کوشش کرتا ہے آپ نے فرمایا جہنم میں ایک پہاڑ ہے جس کا نام صعدا ہے اور اس میں ایک وادی ہے جس کا نام سقر ہے اور وادی سقر میں ایک کنواں ہے جس کو حبھب کہا جاتا ہے ۔ جب اس کا ڈھکنا کھولا جاتا ہے تو تمام اہل جہنم اس کی گرمی سے پناہ مانگتے ہیں اور دہی کنواں تکبر کرنے والوں کا ٹھکانا ہے ۔

حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا بڑائی اللہ رداء ہے اور تکبر اس کا لباس ہے پس جو شخص ان دو میں سے کسی ایک صفت کو اپنائے گا خدا اس کو اوندھے منہ جہنم میں ڈالے گا۔ آپ نے فرمایا وہ شخص ہر گز جنت میں داخل نہ ہوگا جس کے دل میں رائی کے دانہ کے برابر بھی تکبر پایا جائے گا آپ سے سوال کیا گیا الحاد کا ادنٰی درجہ کیا ہے ؟ تو آپ نے فرمایا کہ الحاد کا ادنٰی درجہ تکبر ہے ۔


ایک تبصرہ شائع کریں