ذکر موت
جہاں آبادی کے تناسب کو قائم رکھنے کےلئے موت ضروری ہے وہاں اخلاق ناشائستہ سے گریز کرنے اور شائستہ عادات سے مزین ہونے
کےلئے موت کا ڈر بہت بڑا محرک ہے اسی لئے جب کسی نے اپنی قساوت قلبی یاکسی دوسری
نہ چھوٹنے والی بدعادت کا شکوہ
کیا تو معصوم نے اس کو ذکر موت کی ہدایت فرمائی چنانچہ اس مضمون کی ایک
روایت گزرچکی ہے اور اسی ہی مصلحت کی بناء
پر قبر ستان میں جان اور اہل قبور کا فاتحہ پڑھنا مستحب قرار دیا گیا ہے تاکہ جہاں
انکےایصال ثواب کافائدہ ہو وہاں خوف موت کی وجہ سےبرائیوں سے نفرت کی دعوت
بھی ہو اور نیک لوگ اپنی زندگی میں اپنی قبر اور کفن تیار کرلیتے ہیں تاکہ انکو
دیکھ کر نیک اعمال کی طرف رغبت پیداہو اور برائیوں سےکنارہ کشی حاصل ہو لمبی
امیدیں جو انسان کو آخرت کےاعمال سے غافل
کردیتی ہیں انکو ذکر موت سے ہی گھٹایا جاسکتاہے
خداوندکریم نے موت کو اپنے علم تک محدود رکھا ہے اور مخلوق کو
اس کا علم نہیں دیا تاکہ زندگی کےکاروبا ر میں
روکاوٹ پیدا نہ ہو اور تمدنی زندگی کی رونق خراب نہ ہونیز اچانک موت کی آمد کےخطرہ سے انسان ہر وقت اپنے آپ کو تیار رکھ
سکے پس نیکی کےکاموں میںعجلت اور برائیوں کو چھوڑنے اور توبہ کرنے میں تعجیل اسی
صورت میں ہی ہوسکتی ہے جب موت کے وقت کا پتہ نہ ہو