التماس سورہ فاتحہ برائے والد بزرگوار،جملہ مومنین و مومنات،شھداۓ ملت جعفریہ ، خصوصاً وہ جن کا کوئی سورہ فاتحہ پڑھنے والا نہ ہو۔ یہاں کلک کریں

Search Suggest

عورت کےلئے پردہ

پردہ صرف رسمی طور پر برقعہ سر پر ڈال لینے اور منہ چھپا لینے کا نام نہیں بلکہ اپنی ناموس شرافت کی حفاظت کےلئے اور شرم و حیا کی برقراری کے لئے ہر ...
6 min read

پردہ صرف رسمی طور پر برقعہ سر پر ڈال لینے اور منہ چھپا لینے کا نام نہیں بلکہ اپنی ناموس شرافت کی حفاظت کےلئے اور شرم و حیا کی برقراری کے لئے ہر مناسب اقدام کرنا پردہ داری کا حصہ ہے بلکہ بعض فیشنی برقعے جو نقش و نگار سے آراستہ بھی کئے جاتے ہیں وہ پردہ کے لئے نہیں بلکہ دعوت نظارہ کے لئے استعمال ہوتے ہیں اصل پردہ یہ ہے کہ مرد کی نظر عورتوں سے نیچی رہے چنانچہ قرآن مجید میں پردہ کی حقیقت کو اسی انداز سے واضح کیا گیا ہے۔
ہمارے ہاں پردہ کا جو رواج ہے اس میں شرعی پابندیوں کا لحاظ بہت کم رکھا جاتا ہے مثلاً بعض خاندانوں میں پردہ صرف ان لوگوں سے ہوتا ہے جو اس خاندان کے افراد نہ ہوں بعض خاندانوں میں نیچ قوم کے افراد سے پردہ نہیں کیا جاتا پس وہ خدمت گزاری یا دیگر امور ضروریہ کے لئے آزادانہ طور پر گھروں میں آتے جاتے ہیں۔
یہ رواج اکثر بڑے بڑے گھرانوں میں پایا جاتا ہے بعض لوگوں میں ننھال اور ددھال سے پردہ نہیں ہوتا باقی ہر ایک سے پردہ ہوتا ہے بعض جگہوں میں پردہ صرف شہر سے باہر ہوتا ہے اپنے شہر میں پردہ نہیں ہوتا اور بعض اس کے برعکس ہوتے ہیں کہ اپنے شہر میں پردہ کی پوری پابندی ہوتی ہے اور شہر سے باہر کوئی پردہ نہیں ہوتا بعض عورتیں گھروں میں پردہ کی پوری پابند ہوتی ہیں لیکن بازاروں میں خرید و فروخت کے لئے جائیں تو دکانداروں سے ان کو کوئی پردہ نہیں ہوتا۔
بہر کیف صرف برقعہ سر پر ڈال لینے کا نام پردہ نہیں بلکہ عام عورتیں سر پر برقعہ صرف اس لئے ڈالتی ہیں کہ ان کی آوارہ نگاہی کا سراغ نہ لگا یا جا سکتے اور وہ ادھر ادھر دیکھنے میں پوری طرح آزاد ہوں۔
سورہ نور پ 18 میں خداوند کریم نے پردہ کی حقیت اس طرح واضح فرمائی ہے ۔
مومنوں سے کہو کہ اپنی آنکھوں کو (نامحرم عورتوں کو دیکھنے سے) بند رکھیں اور اپنی شرمگاہوں کو (حرام سے) بچائیں یہ ان کےلئے بہتر ہے ، بے شک اللہ جانتا ہے جو وہ کرتے ہیں اور مومنہ عورتوں سے کہو کہ وہ بھی اپنی آنکھوں کو (نامحرم مردوں سے) بند رکھیں اور اپنی شرمگاہوں کو (حرام سے) بچائیں اور اپنے (مقامات) زینت کی نمائش نہ کریں سوائے اس حصہ کے جو کھلا ہے اور اپنے سینوں پر اوڑھنی کا دامن ڈال دیا کریں اور اپنی زینت کو ظاہر نہ کریں ۔ کسی کے سامنے سوائے (ان کے جن کو گنا جا رہا ہے ) شوہر اپنے باپ، دادا، نانا یا اپنی اولاد یا شوہر کی اوالاد یا اپنے بھائی بھتیجے، بھانجے یا اپنی مومن عورتیں یا کنیزیں یا مردوں سے وہ خدمگار ملازم جو جنسی خواہشات سے محروم ہو چکے ہیں یا وہ بچے جو عورتوں کی خصوصیات سے مطلع نہ ہوں اور عورتوں کو زمین پر زور سے پاؤں مار کر نہیں چلنا چاہیے جس سے ان کی پوشیدہ زینت معلوم ہو۔
 
دوسری جگہ فرماتا ہے وہ یائسہ (بوڑھی) عورتیں جنہیں بوجہ بوڑھا پے کے نکاح کی توقع نہیں ان پر کوئی حرج نہیں کہ اپنے برقعے اتار کر رکھ دیں در حالیکہ اپنی زینت کی نمائش نہ کریں اور اگر (برقعہ پہن کر) عفیفہ رہیں تو ان کےلئے زیادہ بتہر ہے (سورہ نور آیت نمبر 60 )۔ سورہ احزاب میں ارشاد فرماتا ہے (اے نبی اپنی بیویوں ، بیٹیوں اور مومنوں کی عورتوں سے کہہ دے کہ اپنے اوپر چادریں اوڑھ لیا کریں یہ ان کی پہنچان کا اچھا ذریعہ ہے تا کہ ان کو اذیت نہ دی جا سکے۔
ان آیات سے پردہ کی حقیقت واضح ہو گئی ہے کہ پردہ نہ تو گھر کی چار دیواری میں عورتوں کو قید کر لینے کا نام ہے اور نہ رسمی برقعہ پہن کر مردوں کے بدوش سڑکوں، بازاروں، گلی کوچوں اور شاہراہوں میں آزادانہ گھومنے پھرنے کا نام ہے بلکہ پردہ در حقیقت عورت کےلئے اس کی ناموش شرافت و عصمت وقار نسوانیت اور متاع غیرت و حمیت کی بقاء و حفاظت کے لئے ہر ممکن تدبیر کو اپنا لینے کا نام ہے۔
پہلی آیت میں مردوں کو حکم دیا گیا ہے کہ اپنی نظروں کو نیچا رکھٰیں اور عوتوں کے حسن کے تعاقب سے باز رہیں اور پھر عورتوں کو حکم دیا گیا ہے کہ وہ بھی اپنی نظروں کو نیچا رکھیں تا کہ مردوں کی نظروں سے دو چار نہ ہوں پس ہر دو کو آوارہ نگاہی سے روکا گیا ہے تا کہ اختلاط نظر خواہشات میں ہیجان پیدا کر کے جنسی بے راہ روی کی دعوت نہ دے اور ناموس شرافت انسانیہ اور متاع عصمت نسوانیہ کی لاج رکھی جا سکے اس کے بعد خصوصی طور پر عورتوں کے لئے تین احکامات کا اضافہ فرمایا۔
1.     نظر کا نیچا رکھنے کے ساتھ ساتھ مردوں کے سامنے مقامات زینت کی نمائش نہ کریں اور ہر ایسے انداز سے گریز کریں جو آوارہ نظر اور عیاش مردوں کےلئے فریب نگاہی اور دل آویزی کا باعث ہو۔
2.     اپنی اوڑھنیوں اور چادروں کا دامن سینے پر ڈال دیا کریں تا کہ نسوانی جوانی کا ابھار دیدہ غیار میں جاذبیت نہ پیدا کر سکے اور خرمن صبر و ضبط کی آگ میں جل کر راکھ نہ ہونے پائے۔
3.     راہ چلتے وقت متانت سے قدم رکھیں ایسا نہ ہو کہ زور زور سے زمین پر قدم مار کر اپنے ڈھکے چھپے بناؤ سنگار کا اعلان کرتی پھیریں تا کہ چور نگاہیں ان کے حسن کے تعاقب کے لئے بے چین نہ ہونے پائیں۔
اسی لئے احادیث میں ہے کہ عورتوں کو سورہ نور کی تعلیم دو جس میں عورت و مرد کے معاشرتی حقوق کی نشاندہی کی گئی ہے وہ بڑھی عورتیں جو نکاح کے قابل نہیں اور جن کا جنسی خواہشات کا زمانہ بیت چکا ہو ، ان کے متعلق بھی حکم خداوندی یہی ہے کہ اگر گھر سے باہر نکلیں تو اپنی زینت کی نمائش نہ کریں تو نوجوان عورت کی زینت و آرائش و زیبائش غیر مردوں کےلئے کس طرح جائز ہو سکتی ہے ؟ نہایت افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ مغرب کی تہذیب نے اسلامی اقدار کو کس قدر تباہ کر دیا ہے چنانچہ آج کل کے مغرب زدہ مسلمان پردہ داری کو عورت کی آزادی پر ضرب کاری تصور کرتے ہیں اور شرم و حیا کو فرسودہ خیالی قرار دیتے ہیں چنانچہ اچھے گھرانوں کی نوجوان حسین لڑکیاں نہایت چست اورنیم عریاں لباس پن کر سڑکوں اور بازاروں میں دعوت نظارہ دیتی ہوئی آزادانہ سیر کرتی ہیں اور غضب بالائے غضب یہ کہ بھائی ، باپ اور دیگر رشتہ داروں کی اس قسم کی شرمناک حرکات کو دیکھ کر ٹس سے مس نہیں ہوتے بلکہ اس کو اپنی بچیوں کی روش خیالی قرار دیکر خوشی محسوس کرتے ہیں۔
جناب بتول معظمہؑ خاتون جنت کے ماننے والی مستورات کو جناب بتولؐ کی سیرت کا مطالعہ کرنا چاہیے اور ان کی کنیزی کو اپنے لئے مایہ افتخار سمجھنا چاہیے ۔ ان کا فرمان ہے کہ عورت کی سب سے بڑی زینت یہ ہے کہ پردہ داری کے طور پر اس کا قدم گھر کی چاردیواری سے باہر نہ جائے اور جناب زینب خاتونؑ کی کنیزان محترمات پر واجب ہے کہ بانوان حرم سیدالشہداء اور دختران جناب فاطمہ زہراؑ کی سیرت کو یاد کر کے اپنے پردہ کی لاج رکھیں اور محسنہ اسلام کی محنت کو ضائع نہ کریں جس نے دین اسلام کی بقاء کی خاطر اپنے برقعے قربان کر کے امت کی مستورات کے برقعے بچا لئے ۔

ایک تبصرہ شائع کریں