مسئلہ کی اہمیت کے پیش نظر خداوند کریم نے قرآن مجید میں
مرد کو بلند حوصلگی اور منصف مزاجی کے ساتھ خانگی معاملات میں اعٰلی کردار پیش
کرنے کی دعوت دی ہے کہ جب تم عورتوں کو طلاق رجعی دو اور وہ عورتیں عدت ختم ہونے
کے نزدیک پہنچ جائیں تو تم کو چاہیے کہ یا تو رجوع کر کے نیکی اور خوش اسلوبی کے
ساتھ ان کو اپنی زوجیت میں رکھ لو ورنہ ان کو چھوڑ دو یعنی ان کو عدت گزارنے دو تا
کہ اس کے بعد کوئی اور شوہر کرنے کے قابل ہوں۔
جاہلی ررسوم کے ماتحت بعض مرد عورتوں کو بے جا تنگ کرنا ہی
اپنی مردانگی و تصور کرتے ہیں اور جذبہ شہوانیہ کی تکمیل میں بے اعتدالی اور بے
راہ روی ہی ان کو اس قسم کے ظالمانہ اقدام کی دعوت دیتی ہے شریعت مقدسہ اسلامیہ نے
انسانی جذبات کے منظم و متعدل کرنے میں جس قدر رہنمائی فرمائی ہے یقیناً جملہ
ادیان عالم ایسی پاکیزہ تعلیمات سے محروم ہیں جس طرح مرد کو جینے کا حق حاصل ہے
اسی طرح عورت کو بھی زندگی کا حق پہنچتا ہے اور عورت و مرد کو جینے کا حق حاصل ہے
اسی طرح عورت کو بھی زندگی کا حق پہنچتا ہے اور عورت و مرد کی ازدواجی زندگی چونکہ
تعمیر انسانیت کے لئے سنگ بنیاد کی حیثیت رکھتی ہے لہذا اس معاملہ میں معتدلانہ
روش انسانیت پر احسان عظیم ہے جس طرح عورت پر مرد کے جذبات کے احترام ضروری ہے اسی
طرح مرد پر بھی شرعی قوانین کے ماتحت عورت کے مفاد ملحوظ رکھنا واجب ہے ان دونوں
کا ایک دوسرے کے در پے ایذا ہونا صرف ان دونوں کےلئے ہی بربادی کا موجب نہیں ہے
بلکہ اس سے ان دونوں کا وجود صفحہ انسانیت پر ایک بد نما داغ بن جاتا ہے۔
کہتے ہیں کہ ابتداء میں عربوں کا یہ طریقہ تھا کہ عورت کو
طلاق دے دیتے تھے اور جب اس کی عدت ختم ہونے کے قریب ہوتی تھی تو رجوع کر لیتے تھے
اور پھر طلاق دے دیتے تھے اور پھر عدت ہونے سے پہلے رجوع کر لیتے تھے اور یہی
سلسلہ متواتر جاری رکھ کر عورتوں کو بے جا اذیت پہنچاتے تھے کہ وہ نہایت ہی تلخ
زندگی گزارتی تھیں پس ان آیات میں خداوند کریم نے مردوں کو ہدایت فرمائی ہے کہ وہ
عورتوں کو تکلیف پہنچانے کے لئے رجوع نہ کریں بلکہ اچھے طریقہ سے رہنے سہنے کے لئے
رجوع کریں ورنہ ان کو آزادی سے عدت گزار کر کسی اور جگہ نکاح کرنے کا موقع دیں اور
رجوع کا اختیار بھی صرف دو طلاقوں تک ہے کیونکہ تسیری طلاق بائن ہے ۔
قرآن مجید میں ولا تعضلوھن کا خطاب عورت کے وارثوں اور
دلیوں سے ہے کہ عدت گزارنے کے بعد اگر عورت پھر اپنے اسی شوہر سے نکاح پر راضی ہو
جائے تو تمہیں حق نہیں کہ ان کو روکو۔ بلکہ یہ چیز تمہارے لئے زیادہ بہتر اور
تمہارے خانگی معاملات میں باعث پاکیزگی ہے ورنہ اگر عورت دل سے چاہتی ہو اور اس کے
اولیاء اس کو منع کر دیں تو اس کے جذبات مجروح ہوں گے اور ممکن ہے کہ وہ خدا اور
رسولؐ کی نافرمانی کر کے اپنی عاقبت بھی خراب کر لے اور خاندان کی ناموس کو بھی
داغدار کرے لہذا اس کو اپنے جائز حق سے محروم نہ کیا جائے تا کہ فعل حرام کا خیال
اس کے دل میں پیدا ہی نہ ہو۔
لیکن علامہ طبرسی نے اس وجہ کو پسند نہیں فرمایا بلکہ وہ
فرماتے ہیں کہ فلاتعضلواً ھن کا خطاب طلاق دینے والوں سے ہے اور آیت کا مطلب یہ ہے
کہ جب تم عورتوں کو طلاق دو اور ان کی عدت ختم ہونے کے قریب پہنچے تو تمہیں جائز
نہیں کہ دوسری جگہ اس عورت کے نکاح کرنے کی روکاوٹ کے لئے رجوع کر لو تا کہ وہ
بیچاری بند ہو کر دوسری جگہ کے نکاح کے قابل نہ ہوں۔
بہر کیف آیت ہر دو معنوں کا احتمال رکھتی ہے اور مقصد یہ ہے
نہ عورت کے وارثوں کے لئے جائز ہے کہ وہ مطلقہ ہونے کے بعد اس کے نکاح ثانی پر
پابندی عائد کریں خواہ وہ اسی سابق شوہر سے کرے یا کسی نئے شوہر سے کرے اور نہ
طلاق دینے والے کے لئے جائز ہے کہ ضرر پہنچانے کے لئے رجوع کر کے عورت کو نکاح
ثانی سے روکے ۔
عورت کی ضرر رسانی سے باز رہنے کا حکم
قرآن مجید میں مرد کو بلند حوصلگی اور منصف مزاجی کے ساتھ خانگی معاملات میں اعٰلی کردار پیش کرنے کی دعوت دی ہے کہ...
3 min read