گویا وہم پڑتا ہے کہ شاید عورت کو قبل دخول طلاق دینا ممنوع ہے تو جان لینا چاہیے کہ ایسا نہیں اگر مرد چاہے تو قبل دخول طلاق دے سکتا ہے اسی طرح جس عورت کا مہر مقرر نہ کیا ہو اس کو بھی طلاق دے سکتا ہے لیکن اس کو کچھ نہ کچھ (حسب حیثیت ) فائدہ پہنچانا ضروری ہو گا تفصیل اس کی یوں سمجھیئے کہ جس عورت کو طلاق دے رہا ہے مس شدہ (مدخولہ) ہے یا غیر مس شدہ (غیر مدخولہ) ہے اور ہر دو صورتوں میں اس کا مہر مقرر ہے یا مہر مقرر نہیں۔
·
اگر مدخولہ ہے اور
مہر مقرر شدہ ہے تو اس کی طلاق کے لئے وہی شرائط ہیں جو گزر چکی ہیں اور ایسی
مطلقہ پورے مہر کی حقدار ہوتی ہے مہر کے علاوہ اس کو کچھ دینا واجب نہیں ہے۔
·
اگر مدخولہ ہو اور
مہر اس کا مقرر شدہ نہ ہوتو طلاق کی شرطیں وہی ہیں لیکن خاندان عمر شکل و صورت
دیگر اوصاف کے لحاظ سے اس جیسی عورتوں کے لئے جس قد مہر ہونا چاہیے وہ اس کو دینا
پڑے گا
·
اگر غیر مدخولہ ہو
اور مہر مقرر ہو تو طلاق میں باقی شرطیں ضروری ہں صرف حیض سے پاک ہونا عورت کا
ضروری نہیں بلکہ غیر مدخولہ کو حالت حیض میں بھی طلاق دی جا سکتی ہے اور مقرر شدہ
مہر کا نصف عورت کو دینا واجب ہے مگر اس صورت میں کہ عورت اپنا نصف مہر کا حق معاف
کر دے یا اس کا ولی معاف کر دے۔
·
اگر غیر مدخولہ ہو
اور مہر مقرر نہ ہو تو طلاق میں حسب سابق اس کا حیض سے پاک ہونا ضروری نہیں ہے اور
مرد پر اس کو متعہ (فائدہ) پہنچانا واجب ہے اور یہ فائدہ مرد کی حیثیت کے لحاظ سے
ہے پس اگر غنی ہو تو گھوڑا یا بلند قیمت کپڑا یا دس دینار دے اور اگر متوسط طبقہ
کا آدمی ہو تو پانچ دینا دے اور اگر غریب ہوتو ایک دینا یا سونے کی انگوٹھی یا
چاندی کی انگوٹھی دیدے اور مرد کا غنی یا فقیر یا متوسط طبقہ سے شمار ہونا ، زمان،
مکان اور پوزیشن کے لحاظ سے عام عرف کے تابع ہے۔
مسئلہ: غیر مدخولہ عورت جس مہر مقرر ہو اس کو طلاق دینے کی
صورت میں مرد پر اس کا نصف مہر ادا کرنا واجب ہو کرتا ہے مگر یہ کہ عورت اپنا حق
یعنی نصف مہر معاف کر دے یا وہ شخص جس کے ہاتھ میں نکاح کی گرہ ہے اور اس سے مراد
عورت کا ولی ہے اور علمائے امامیہ کے نزدیک باکرہ غیر بالغہ لڑکی کا ولی باپ یا
دادا ہی ہو سکتے ہیں پس اگر بالغہ ہو گی تو معاف کرنا یا وصول کرنا اس کے اپنے
اختیار میں ہے اور نابالغہ ہو گی تو اس کے ولی کو اختیار ہے ۔
مسئلہ: غیر مدخولہ مطلقہ کا ولی پورا نصف مہر معاف کرنے کا حق
نہیں رکھتا بلکہ بعض حصہ معاف کر سکتا ہے۔
مسئلہ: اگر لڑکی اپنے ولی (باپ، دادا) کے تصرف معافی پر
ناراض ہو تو اس کا کوئی اثر نہیں بشرطیکہ ولی نے اس کی مصلحت کے لئے ایسا کیا ہو۔
مسئلہ: مطلقہ غیر مدخولہ عورت کی کوئی عدت نہیں ہوا کرتی
بلکہ طلاق کے بعد فوراً اس کا نکاح دوسری جگہ جائز ہے ۔
x