اس میں شک نہیں کہ علم
صفت کما ل ہے اور صفات اللہ کی عین ذات ہیں پس خداوند کریم حاضر و غائب تمام کو
جانتا ہے اور علم اس کی عین ذات ہے قرآن مجید میں کسی مقام پرارشاد ہے کہ سوائے
پرورردگارکے کوئی بھی غیب پر مطلع نہیں اور
کسی مقام پر فرماتا ہے وما کان اللہ لیطلعکم علی الغیب ولکن اللہ یجتبی من
رسلہ من یشاءیعنی خدا تم کو غیب پر مطلع
نہیں کرنے لگا لیکن خدا نبیوں میں ہے جسے چن لے یعنی پھر اس کو مطلع فرماتا دیتا ہے گویا علم غیب کی دو قسمیں ہیں
ایک ذاتی جس کو سوائے خدا کے اور
کوئی نہیں جان سکتا اور د وسرا مستفاد جس کو خدا کے برگزیدہ نبی و رسول یا
آئمہ طاہرین علہیم السلام جان سکتے ہیں جتنا وہ عطا کرے اس مقصد کو ذہن کے زیادہ
فریب کرنے کے لئے میں ایک مضبوط عقلی طریقہ سے واضح کرتا ہوں تاکہ مسئلہ کی حقیقت
کھل جائے اور یہ کسی عالم بزرگوار کے کلام
سے نہیں بلکہ کتاب آفاق کے مطالعہ سے جو میں نے اخذ کیا ہے اس کا نچوڑ ہے طبقات
موجودات میں سے حیوان کو نبات پر فوقیت ہے
کیونکہ اس میں ایک جس موجود ہے جس سے وہ
تہی دامن ہے اور انسان کو عام حیوان سے برتری حاصل ہے کہ اس میں
ایک ایسا جوہر موجود ہے جس سے وہ خالی ہے
پس روح بناتی ہےوہ شعور غائب ہے جس کو روح حیوان اپنے دامن میں لئے ہوئے ہے اگر
روح بناتی کے سامنے شعور حیوانی کو پھیلایا جائے تو معلوم ہو گا نبات کے مقابلہ میں
حیوان کے پاس علم غیب کاایک بے پناہ ذخیرہ موجود ہے جس کا روح بناتی تصور تک نہیں
کر سکتا اسی طرح روح حیوان کےسامنے روح
انسا نی روح انسانی کےاور اکات کو بسط دیا جائے تووہ اس میں علم غیب کا ایک بہتا
ہوادریا پائے گا کیونکہ حیوان صرف کھانے پینے اور جنسی لذات ہی کو جانتا ہے اور انسان کی علوم و فنون میں
دسترس عقلی دنیا میں اس کی عظیم الشان فتوحات تسخیر موجودات میں روز افزوں اقدامات
اور ظاہری لحاظ سے ناشدنی امور پر تسلط وغیرہ حیوانی روح کے سامنے علوم غیبہ نہیں
تو اور کیا ہیں اب اس سے ذرا آگے بڑھئے
عام انسانی شعور سے شعور قدسئی نبوتی اس قدر بلند ہے جیسے حیوان کے مقابلہ میں
انسان کے سامنے جب نبوتی شعور کی وستعیں
آئیں تو وہ نبی میں علم غیبی کا ایک موجزن سمندر محسوس کرے گا۔
انبیا میں بھی اپنے اپنے مقام پر فرق ہے کوئی ذات کا کوئی قبیلہ کا کوئی قوم کا اور حضرت رسالت مآب تمام عالمین کے نبی تھے پس ان کی عقل عالمین کے مقابلہ میں عقل کل ہو گی اور ان کا شعور عالمی شعور پر حاوی ہو گا لہذا ان کے معلومات کی وسعت کا عام انسانی دماغ تصور تک نہیں کر سکتا کیونکہ عام انسانی عقل کے مقابلہ میں ان کا عقل عالمی مفاسد و مصالح پر حاوی ہے پس ان کے ہمہ گیر معلومات عام انسان سطح سے چونکہ بلند مقام رکھتے ہیں لہذا عام انسان کے ذہن کے سامنے ان کا علم معلومات غیبہ کا خزانہ ہے جس طرح حیوان کے مقابلہ میں انسان عالم الغیب ہے ماتحت کیلئے جو مسائل عقدہ لا یخل ہواکرتے ہیں وہ ما فوق کی عادی رفتار ہو نے کی حیثیت سے اس کیلئے چند اں توبہ کے محتاج بھی نہیں ہوتے مثلا نبات کے سامنے حیواناتی اور اکات عقدہ لا یخل ہیں لیکن وہ حیوان کے لئے عادی ہیں اور حیوان کے سامنے انسانی معلومات عقدہ لایخل ہیں لیکن وہ انسان کے عام مشاغل سمجھے جاتے ہیں اور انسان عام ترقیاں جہاں تک انتہا کو پہنچتی ہیں اور اسے وہ مسئلہ لایخل سمجھتے ہیں تو ہوا کرتے ہیں وہ مافوق کی عادی رفتار ہونے کی حیثیت سے اس کے لیے چنداں توجہ کے محتاج بھی نہیں ہوتے مثلاً نبات کے سامنے انسانی معلومات عقدہ لاینجل ہیں لیکن وہ انسان کے عام مشاغل سمجھے جاتے ہیں وہ عام دعاوی ہوا کرتے ہیں اور نبوت کے تمام کمالات کمالات خداوندی کے مقابلہ میں کوئی نسبت ہی نہیں رکھتے اب آسانی سے سمجھ میں آسکے گا کہ خدا کسی کو علوم غیبہ پر مطلع نہیں فرماتا مگر جسے اپنے رسلوں میں سے منتخب کر لے یعنی ان کو ان چیزوں پر اطلاع دے دیتا ہے جو عام انسانوں کے عقول سے بالاتر ہوتی ہیں اور وہ غیوب ہیں جو روح نبوتی کی حدود کے اندر ہیں اور ادراک انسانی کی حدود سے باہر اور جہاں فرمایا کہ سوائے میرے اور کوئی غیب نہیں جان سکتا اس سے مراد وہ غیوب ہیں جو شعوت نبوتی کی حدود سے بالاتر ہیں اور ذات اقدس الہیہ کے شایان شان ہیں اور وہ ہر شئی پر محیط ہے اور اس کی سعتیں غیر محدود ہیں اس کہ کنہ تک نہ انسان کی رسائی ہے نہ جن و ملک کی اور نہ نبی و مرسل کی بلکہ مخلوق میں سے کوئی بھی اس کی کنہ کا تصور نہیں کر سکتا یہ انسان کی رسائی ہے نہ جن و ملک کی اور نہ نبی و مرسل کی بلکہ مخلوق میں سے کوئی بھی اس کی کنہ کا تصور نہیں کر سکتا یہ انسان کی عقل نارسا کا غلط فیصلہ ہے کہ نبی کلی غیب کا علم رکھتا ہے ورنہ علم الہی کے مقابلہ میں تو نبی کے علم کو لانا نا خدا شناسی کے علاوہ اور کچھ نہیں دور حاضر میں علم غیب کامسئلہ خواہ مخواہ جہال نے اچھال رکھا ہے ورنہ اس کی ضرورت ہی کیا ہے نبی کا علم اس قدر وسیع ہے کہ عام انسان اس کا تصور ہی نہیں کر سکتا اور خدا کے علم کا اندازہ نبی کےتصور سے بالاتر ہے کیونکہ اللہ کا علم اس کی عین ذات ہے اور اس کی انتہا کو جاننا محالات میں سے ہے پس نبی یا امام کو عالم غیب کہنا اس لحاظ سے کہ خداوند کریم نے ان کو بعض غیب چیزوں کا علم عطا فرمایا جو اس کی مشیت کا تقاضا تھا درست ہے اور اس مسئلہ کو ہم نے تفسیر انوار النجف کی مختلف جلدوں میں آیات کی مناسب سے بیان کیا ہے
انبیا میں بھی اپنے اپنے مقام پر فرق ہے کوئی ذات کا کوئی قبیلہ کا کوئی قوم کا اور حضرت رسالت مآب تمام عالمین کے نبی تھے پس ان کی عقل عالمین کے مقابلہ میں عقل کل ہو گی اور ان کا شعور عالمی شعور پر حاوی ہو گا لہذا ان کے معلومات کی وسعت کا عام انسانی دماغ تصور تک نہیں کر سکتا کیونکہ عام انسانی عقل کے مقابلہ میں ان کا عقل عالمی مفاسد و مصالح پر حاوی ہے پس ان کے ہمہ گیر معلومات عام انسان سطح سے چونکہ بلند مقام رکھتے ہیں لہذا عام انسان کے ذہن کے سامنے ان کا علم معلومات غیبہ کا خزانہ ہے جس طرح حیوان کے مقابلہ میں انسان عالم الغیب ہے ماتحت کیلئے جو مسائل عقدہ لا یخل ہواکرتے ہیں وہ ما فوق کی عادی رفتار ہو نے کی حیثیت سے اس کیلئے چند اں توبہ کے محتاج بھی نہیں ہوتے مثلا نبات کے سامنے حیواناتی اور اکات عقدہ لا یخل ہیں لیکن وہ حیوان کے لئے عادی ہیں اور حیوان کے سامنے انسانی معلومات عقدہ لایخل ہیں لیکن وہ انسان کے عام مشاغل سمجھے جاتے ہیں اور انسان عام ترقیاں جہاں تک انتہا کو پہنچتی ہیں اور اسے وہ مسئلہ لایخل سمجھتے ہیں تو ہوا کرتے ہیں وہ مافوق کی عادی رفتار ہونے کی حیثیت سے اس کے لیے چنداں توجہ کے محتاج بھی نہیں ہوتے مثلاً نبات کے سامنے انسانی معلومات عقدہ لاینجل ہیں لیکن وہ انسان کے عام مشاغل سمجھے جاتے ہیں وہ عام دعاوی ہوا کرتے ہیں اور نبوت کے تمام کمالات کمالات خداوندی کے مقابلہ میں کوئی نسبت ہی نہیں رکھتے اب آسانی سے سمجھ میں آسکے گا کہ خدا کسی کو علوم غیبہ پر مطلع نہیں فرماتا مگر جسے اپنے رسلوں میں سے منتخب کر لے یعنی ان کو ان چیزوں پر اطلاع دے دیتا ہے جو عام انسانوں کے عقول سے بالاتر ہوتی ہیں اور وہ غیوب ہیں جو روح نبوتی کی حدود کے اندر ہیں اور ادراک انسانی کی حدود سے باہر اور جہاں فرمایا کہ سوائے میرے اور کوئی غیب نہیں جان سکتا اس سے مراد وہ غیوب ہیں جو شعوت نبوتی کی حدود سے بالاتر ہیں اور ذات اقدس الہیہ کے شایان شان ہیں اور وہ ہر شئی پر محیط ہے اور اس کی سعتیں غیر محدود ہیں اس کہ کنہ تک نہ انسان کی رسائی ہے نہ جن و ملک کی اور نہ نبی و مرسل کی بلکہ مخلوق میں سے کوئی بھی اس کی کنہ کا تصور نہیں کر سکتا یہ انسان کی رسائی ہے نہ جن و ملک کی اور نہ نبی و مرسل کی بلکہ مخلوق میں سے کوئی بھی اس کی کنہ کا تصور نہیں کر سکتا یہ انسان کی عقل نارسا کا غلط فیصلہ ہے کہ نبی کلی غیب کا علم رکھتا ہے ورنہ علم الہی کے مقابلہ میں تو نبی کے علم کو لانا نا خدا شناسی کے علاوہ اور کچھ نہیں دور حاضر میں علم غیب کامسئلہ خواہ مخواہ جہال نے اچھال رکھا ہے ورنہ اس کی ضرورت ہی کیا ہے نبی کا علم اس قدر وسیع ہے کہ عام انسان اس کا تصور ہی نہیں کر سکتا اور خدا کے علم کا اندازہ نبی کےتصور سے بالاتر ہے کیونکہ اللہ کا علم اس کی عین ذات ہے اور اس کی انتہا کو جاننا محالات میں سے ہے پس نبی یا امام کو عالم غیب کہنا اس لحاظ سے کہ خداوند کریم نے ان کو بعض غیب چیزوں کا علم عطا فرمایا جو اس کی مشیت کا تقاضا تھا درست ہے اور اس مسئلہ کو ہم نے تفسیر انوار النجف کی مختلف جلدوں میں آیات کی مناسب سے بیان کیا ہے