بحارالانوار میں علل
الشرائع سے مروی ہے حضرت رسول کریمؐ نے فرمایا خداوند کریم نے ان مردوں پر لعنت کی
ہے جو عورتوں کی مشابہت اختیار کرتے ہیں یعنی عورتوں کا سا لباس اور عورتوں کی سی
وضع قطع کو اپناتے ہیں اور اسی طرح اللہ نے ان عورتوں پر لعنت کی ہے جو اپنے آپ کو
مردوں کے مشابہ بناتی ہیں اللہ سے دعا ہے کہ وہ ہمارے نوجوانوں کو ہدایت دے تا کہ
عمومی لعنت سے بچنے کی سعادت حاصل کریں۔
بحارالانوار جلد 23 میں ہے ایک عورت جناب رسالتمابؐ کی بارگاہ فیض انتساب میں آئی اور اس نے عرض کی کہ حضورؐ آپ یہ فرمائیں کہ گواہی میں دو عورتیں، ایک مرد کے برابر کیوں ہیں؟ اسی طرح میراث میں عورتوں کا حصہ ایک مرد کے برابر کیوں ہے؟ تو آپ نے جواب میں ارشاد فرمایا کہ تم دین اور عقل میں ناقص ہو اس لئے تمہارا حصہ مردوں سے آدھا ہے اور تم دو کو گواہی میں ایک مرد کے برابر قرار دیا گیا ہے ۔ عورت نے عرض کیا کہ ہمارا دین کیسے ناقص ہے؟ تو آپ نے فرمایا کہ تم پر ایک وقت ایسا آتا ہے کہ عبادت خدا سے محروم ہو جاتی ہو اسی طرح لعن طعن کرنا تمہاری عادت ہے اور مرد کی اچھی صحبت کو فراموش کر دینا تمہاری فطرت ہے مثال کے طور پر اگر کوئی عورت مرد کے پاس دس برس گزارے اور مرد اس پر ہر قسم کا احسان کرے اور اس پر ناز و نعمت کی بارش کرتا رہے لیکن خدانخواستہ اس پر برا وقت آ جائے اور کسی دن اس کا ہاتھ تنگ ہو یا کسی دن وہ سخت کلامی کر بیٹھے تو عورت کی فطرت ہے کہ اس کے پورے دس برس کے احسانات اور ناز برداریوں کو پس پشت ڈال کر فوراً کہہ دے گی میں جب سے تیرے گھر میں آئی ہوں تم سے کبھی کوئی بھلائی نہیں دیکھی ۔ ہاں اگر شازو نادر کوئی عورت اس قسم کی رذیل عادات سے بچی ہوئی ہو تو مرد سے اس کے حصۃ کا کم ہونا اس کا امتحان ہے پس اسے صبر کرنا چاہیے تا کہ اللہ اس کے اجر میں اضافہ فرمائے پس تمہیں یہ خوش خبری ہو۔
بحارالانوار میں کنز کراجکی سے مروی ہے حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا ۔ ملعون ہے ملعون ہے وہ عورت جو مرد کو اذیت پہنچائے اور اس کو غمزدہ کرے اور نیک بخت ہے ، نیک بخت ہے وہ عورت جو مرد کی عزت کرے اور اسے دکھ نہ پہنچائے اور ہر حالت میں اس کی اطاعت گزار رہے۔
اسی کتاب سے منقول ہے حضرت امیر المومنین علیہ السلام نے فرمایا عورتوں کے ساتھ مشورہ کرنے سے بچو البتہ وہ عورت جس کی دانائی اور کمال عقل کا تمہیں تجربہ ہو چکا ہے (اس سے مشورہ لینے میں کوئی حرج نہیں ہے) کیونکہ عورتوں کی رائے کا انجام افسوس ناک ہوتا ہے اور ان کا نظریہ کمزور ہوتا ہے لہذا ن کے دلائل پر کان زیادہ نہ دھرو اور اس میں ان کی بھی بہتری ہے اور ان کا گھروں سے باہر نکلنا اتنا نقصان دو نہیں جتنا غیر محرموں سے پردہ ختم کر کے ان کو اپنے گھروں میں داخل کرنا نقصان دہ ہے اور اگر تم کر سکتے ہو کہ تمہارے سواتمہاری عورت کو کسی دوسرے مرد کی واقف کار نہ بنے تو ایسا ہی کرو اور عورت کو اپنے معاملات میں اس قدر خود مختاری دو جو اس کی ذات تک محدود ہو تا کہ وہ اس سے آگے نہ بڑھے یہ اس کے لئے بھی فائدہ مند ہے اور تمہارے لئے بھی نفع بخش ہے اور عورت کو ریحان سمجھو اسے اپنے اوپر قہر نہ بناؤ اور اسے یہ جرات نہ دلاؤ کہ تمہارے پاس کسی کی سفارش کرے عورتوں کے ساتھ علیحدگی کو زیادہ طور نہ دو تا کہ تم سے تھک نہ جائیں بلکہ ان کی اشتیاق نہ کرو ورنہ اس قسم کی بے غیرت، صحیح عورت کو بھی غلط کار بنا دے گی ہاں اگر عورت کی غلطی دیکھو تو فوراً ٹوک دو اور عورت پر غصہ ہر گز نہ کرو مگر جب ان کا عیب یا گناہ دیکھو تو غصہ کرنا درست ہے آگے چل کر فرماتے ہیں(عورت کی فطرت یہ ہے) کہ تمہاری طرف سے وہ بری بات کو یاد رکھے گی اور تمہاری اچھی بات اور احسان کو فراموش کر دگے پس تم ان سے اچھائی سے پیش آؤ تا کہ وہ اپنی کارکردگی میں عمدگی کا خیال کریں۔
نیز کتاب نہج البلاغہ سے اسی مضمون کی روایت منقول ہے جو آپ نے اپنے حضرت حسن مجتبیٰ علیہ السلام کو بطور وصیت کے فرمائی آپ نے فرمایا (مرد کی دوسری شادی پر) عورت کا غیرت کرنا کفر کی نشانی ہے اور اس کے مقابلہ میں مرد کی غیرت ایمان کی علامت ہے۔
امالی شیخ سے منقول ہے ایک دفعہ جناب ام سلمہ نے حضرت رسول کریمؐ سے دریافت کیا کہ شوہر کی خدمت کرنے میں عورت کا کیا درجہ ہے؟ تو آپؐ نے فرمایا جو عورت شوہر کے گھر میں اصلاح کے طور پر ایک چیز کو ایک جگہ سے اٹھا کر دوسری جگہ رکھے اس پر خدا کی رحمت کی نگاہ ہوتی ہے اور جس پر اللہ کی رحمت کی نگاہ ہو اس کو خدا عذاب نہ دے گا۔
نوادر راوندی سے منقول ہے حضرت رسالتمابؐ نے فرمایا جو شخص اپنے گھر میں فجور (گناہ) دیکھے اور غیرت نہ کرے تو خداوند کریم ایک سفید رنگ کا پرندہ بھیجتا ہے جو چالیس روز تک اس پر سایہ فگن رہتا ہے اور اس کے گھر میں آتے اور جاتے ہوئے کہتا ہے، غیرت کرو، غیرو پس اگر وہ غیرت کو اپنا لے تو فبہا ورنہ وہ پرندہ اس کی آنکھوں پر اپنے پروں کو پھیر دیتا ہے اس کے بعد وہ آدمی اگر اچھا کام دیکھے تو خوش نہ ہو گا اور اگر برا کام دیکھےگا تو رنجیدہ نہ ہو گا۔
اسی کتاب سے منقول ہے ایک دفعہ ایک انصاری حضرت پیغمبرؐ کے پاس اپنی لڑکی کو لایا اور شکایت کی کہ حضورؐ والا! میری لڑکی کے شوہر نے میری لڑکی کے منہ پر تھپڑ مارا ہے کہ اس کے چہرہ پر اس کا نشان موجود ہے میں لڑکی کی طرف سے اس سے بدلہ لینا چاہتا ہوں تو قرآن مجید کی آیت اتری الرجال قوامون علی النساء یعنی مرد عورتوں پر حاکم ہیں آپ نے اس انصاری کو قرآن مجید کی یہ آیت سنا دی اور فرمایا تم کچھ اور چاہتے تھے لیکن اللہ نے کچھ اور چاہا ہے
بحارالانوار میں عدۃ الداعی سے منقول ہے حضرت پیغمبرؐ نے فرمایا عورت کا شوہر پر حق یہ ہے کہ اس کی روٹی کپڑے میں یعنی نان و نفقہ میں اس کو تکلیف نہ دے اور اس سے تر شروئی نہ کرے اگر مرد ایسا کرے تو اس نے بیوی کا حق ادا کر دیا ۔ مکارم الاخلاق سے مروی ہے امام جعفر صادق علیہ السلام یا امام محمد باقر علیہ السلام نے فرمایا عورت کو بے زیور نہ رہنا چاہیے اور نہیں تو کم از کم اس کی گردن میں تو ہار تو ہو اور آپ نے فرمایا شادی شدہ عورت کا ہاتھ مہندی سے خالی نہ ہونا چاہیے اگرچہ سن رسیدہ ہی کیوں نہ ہو؟ اور وسائل کی ایک روایت میں ہے کہ حضرت علی علیہ السلام نے ہاتھوں پر مہندی سے نقش و نگار سے منع فرمایا ہے ایک روایت میں عورت کے کاجل سرمہ نہ لگانے کی مذمت کی گئی ہے ۔
بحارالانوار میں دعوات راوندی سے منقول ہے حضرت نبی کریمؐ نے فرمایا جس کے پاس اللہ کی پانچ نعمتیں ہوں پھر بھی عمل آخرت میں کوتاہی کرے تو اس کو کوئی عذر قابل قبول نہ ہو گا (1) بیوی صالحہ ہو جو دنیا و آخرت کا کاموں میں اس کی شریک کار اور معاون ہو (2) اولاد لائق ہو (3) اس کی روزی اپنے شہر میں ہو (4) لوگوں کے ساتھ معاملہ خوش خلقی سے کرتا ہو (5) میری اہل بیت سے محبت کرتا ہو۔
امالی شیخ سے منقول ہے جس کے پاس اللہ کی چار نعمتیں ہوں اس کے پاس دنیا و آخرت کی بھلائی جمع ہوتی ہے ۔
1. خوف خدا جو اس کو اللہ کی حرام کردہ چیزوں سے روکے۔
2. خوش خلقی جس کی بدولت لوگوں میں اچھی زندگی بسر کر رہا ہو۔
3. صبر و حوصلہ جس کی بدولت جاہل لوگوں کی جہالت کا مقابلہ اس کےلئے آسان ہو
4. اچھی بیوی جو دنیا و آخرت میں اس کی مدد گار ہو۔
نوادر راوندی سے منقول ہے آپ نے فرمایا میری امت کی عورتوں میں سے اچھی عورت وہ ہے جو خوبصورت بھی ہو اور کم حق مہر پر راضی ہو۔
ایک روایت میں آپ نے فرمایا شوہر سے محبت کرنے والی عورت سے شادی کر لو اگرچہ وہ سیام فام ہی کیوں نہ ہو لیکن عاقر (جس کی اولاد پیدا نہ ہو) سے شادی نہ کرو اگرچہ کتنی ہی خوبصورت ہو کیونکہ میں قیامت کے دن اپنی امت کی کثرت پر فخر کروں گا اور تمہیں یہ بھی معلوم ہونا چاہیے کہ تمہارے بچپن میں مر جانے والے بچے عرش پروردگار کے نیچے اپنے والدین کے لئے دعائے مغفرت کرتے ہیں اور حضرت ابراہیم علیہ السلام ان کی کفالت کرتے ہیں اور جناب سارہ ان کی تربیت کرتی ہیں ایسے پہاڑ کے زیر سایہ جس کی زمین عنبر کستوری اور زعفران سے بنی ہوتی ہے آپ نے فرمایا نیلگوں چشم عورتوں سے شادی کرو کیونکہ وہ باعث برکت ہوتی ہیں۔
ایک روایت میں آپ نے فرمایا کنواری عورت سے شادی کرو کیونکہ ان کے منہ شیریں، رحم پاکیزہ ان سکھانا آسان اور ان کی محبت پائیدار ہوتی ہے ۔
آپ نے فرمایا کہ اپنی کفو میں اپنی لڑکیوں کی شادی کرو اور اپنی کفو کی لڑکیوں سے خود شادی کرو اور زنج کی عورتوں سے یعنی حبشی عورتوں سے شادی مت کرو کیونکہ ان کی شکل پسندیدہ نہیں ہوتی ۔
آپ نے فرمایا گھوڑوں میں سے مشکی گھوڑا بہتر ہے اور رشتہ کے لئے اپنے چچا کی بیٹی سے بہتر کوئی زوجہ نہیں ہے۔
روضۃ الواعظین سے منقول ہے جابر بن عبداللہ انصاری کہتا ہے کہ ایک دفعہ ہم رسول اللہ ؐ کے پاس بیٹھے تھے کہ عورتوں کا ذکر چھڑ گیا تو آپ نے فرمایا ان کے متعلق میں تم کو ایک حتمی بات بتاتا ہوں اور وہ یہ کہ بہترین عورت وہ ہے جو صاحب اولاد ہو اور شوہر کے ساتھ پیار کرنے والی ہو پردہ کی پابند ہو ۔ اپنے اہل میں خود دار اور شوہر کی پوری فرمانبردار ہو ، اپنے شوہر کے ساتھ بے تکلف ہو اور اغیار سے پوری طرح کنارہ کش ہو جو مرد کی بات کان دھر کر سنے اور اس کی اطاعت کرے اور جب مرد کے ساتھ خلوت میں ہو تو اس کے جذبات کا پورا احترام کرے اور کسی قسم کا بخل نہ کرے ۔ پھر آپ نے فرمایا ( اس کے برعکس ) بد ترین عورت وہ ہے جو اپنے خاندان میں پوری اطاعت گزقار اور وفا شعار ہو لیکن شوہر کے سامنے ہر معاملہ میں خوداری ظاہر کرے اولاد کے معاملہ میں عقیم ہو اور کینہ ور ہونے کے علاوہ کسی قبیح فعل سے نہ بچپتی ہو جب شوہر موجود نہ ہوتو گھر سے نکل کھڑی ہو اور لوگوں کے ساتھ بے تکلف ہو جائے اور شوہر موجود ہو تو اس کے سامنے تکلف کرے اور اکڑ جائے جس طرح بری سواری ، سوار کو سوار ہونے سے روکتی ہے ۔ ایسی عورت جو مرد کو کوئی عذر قبول نہ کرے اور مرد کی کسی غلطی کو معاف نہ کرے۔
مکارم الاخلاق سے منقول ہے ابن بی یعفور کہتا ہے میں نے حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے دریافت کیا کہ میں ایک عورت سے شادی کرنا چاہتا ہوں لیکن میرے والدین نے میرے لئے ایک دوسری عورت کا انتخاب کیا ہے تو اس صورت میں میں کونسی عورت سے شادی کروں ؟ آپ نے فرمایا اس عورت سے شادی کرو جس کو تم خود پسند کرتے ہو اور اس سے شادی نہ کرو جس کو تمہارے والدین پسند کرتے ہوں۔
اقول: یہ اس وقت ہے جب کہ اس کو والدین دوسری شادی کا حکم نہ دیں بلکہ صرف مشورہ دیں ورنہ اگر وہ حکم دیں تو اولاد کے لئے دنیاوی معاملات میں والدین کی اطاعت واجب ہے اور سرتابی گناہ ہے۔
کتاب مکارم الاخلاق سے مروی ہے حسین بن بشار بیان کرتا ہے کہ میں نے حضرت امام موسٰی کاظم علیہ السلام کی خدمت میں ایک خط بھیجا کہ میرا ایک قریبی رشتہ دار ہے جس کے اخلاق اچھے نہیں اور وہ ہم سے رشتہ طلب کرتا ہے کیا میں اپنا ایسے شخص کو رشتہ دے دوں ؟ تو آپ نے جواب میں تحریر فرمایا کہ اگر وہ بد خلق ہے تو اس کو رشتہ نہ دو ۔
کتاب معافی الاخبار سے مروی ہے حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا کہ عورت مرد کے گلے کا ہار ہے لہذا شادی کرنے سے پہلے معلوم کر لو کہ کسی قسم کا ہار گھلے میں ڈال رہے ہو۔ فرمایا عورت کی کوئی قیمت نہیں ڈالی جا سکتی نہ اچھی عورت کی اور نہ بری عورت کی اچھی عورت کی قیمت اس لئے نہیں ڈالی جا سکتی کہ قیمت سونا اور چاند ہوا کرتی ہے اور اچھی عورت سونے اور چاندی سے بدرجہا بہترا ہوا کرتی ہے اور بری عورت کی قیمت اس لئے نہیں کی جا سکتی کہ اگر بری عورت کی قیمت مٹی بھی ڈالی جائے تو بے انصافی ہے کیونکہ مٹی بری عورت سے بدرجہا بہتر ہے ۔
معانی الاخبار سے مروی ہے براہیم کرخی کہتا ہے میں نے حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے درخواست کی کہ میری اہلیہ وفات پا چکی ہے اور میں اب دوبارہ شادی کرنا چاہتا ہوں اس بارے میں آپ مشورہ دیں کہ میں کیا کروں تو آپ نے فرمایا پہلے اچھی طرح سوچ لو کہ اپنے نفس کوکہاں ڈال رہے ہو؟ اپنے مال میں کس کو شریک کر رہے ہو؟ اور اپنے دین امانت اور رازوں میں کس کو مطلع کر رہے ہو؟ پھر اگر تم نے ضرور شادی کرنی ہو تو کنواری عورت سے شادی کرنا جس کی شہرت اچھی ہو اور با کردار ہو ۔ الحدیث
حضرت امیر المومنین علیہ السلام نے جنگ جمل سے واپس پر ارشاد فرمایا ۔ لوگو! عورتیں ناقص الایمان، ناقص الخط اور ناقص العقل ہوا کرتی ہیں ان کا ناقص الایمان ہونا اس بات سے ظاہر ہے کہ ماہواری کے ایام میں وہ نماز روزہ سے محروم ہوتی ہیں۔
· ان کا ناقص العقل ہونا اس سے واضح ہے کہ دو عورتوں کی گواہی ایک مرد کے برابر ہے۔
·
اور ناقص الحظ ہونا اس سے معلوم ہوتا ہے کہ میراث میں ان کا حصہ مرد سے آدھا
ہے ۔
· پس بری عورتوں سے بچو اور اچھی عورتوں سے بھی محتاط رہو پس ان کی اچھی باتوں میں ان کی فرمانروائی کو تسلیم نہ کرو ورنہ ہو سکتا ہے کہ غلط نظریات کو بھی تم پر ٹھونسنے کی کوشش کریں۔
· نہج البلاغہ میں ہے آپ نے ارشاد فرمایا عورت ایک ایسا بچھو ہے جس کے ڈسنے میں بھی شیرینی ہے ۔
کتاب مکارم الاخلاق سے منقول ہے حضرت رسالتمابؐ نے فرمایا جو شخص عورت کی اطاعت کرے گا خدا اس کو الٹے منہ جہنم میں ڈالے گا کسی نے پوچھا یا رسول اللہ اس اطاعت سے کیا مراد ہے؟ تو آپ نے فرمایا، جب عورت حمام جانے کے لئے شادیوں میں شرکت کے لئے گانے کی محفل میں شمولیت کے لئے کسی مرنے والے کی میت پر رسمی طور پر رونے کےلئے اور باریک لباس پننے کے لئے اپنے مرد سے اجازت طلب کرے اور وہ بخوشی اس کا اجازت دے دے تو عورت کی اس قسم کی اطاعت مرد کے لئے پیغام جہنم ہے۔
کتاب مکارم الاخلاق سے مروی ہے حضرت امیر المومنین علیہ السلام نے فرمایا، جس شخص کی تدبیر عورت کے تابع ہو وہ ملعون ہے۔
حضرت امام محمد باقر علیہ السلام سے منقول ہے عورتوں کو اپنا مشیر کار نہ قرار دو اور رشتوں ناطوں کے معاملہ میں عورت کی اطاعت نہ کرو کیونکہ عورت جب سن رسیدہ ہوتی ہے تو اس کی اچھی وصف ختم ہو جاتی ہے اور بری صفت باقی رہتی ہے یعنی اس کا حسن ختم ہو جاتا ہے اور رحم ناقابل تولید ہو جاتا ہے لیکن اس کی زبان تیز ہو جاتی ہے اور بخلاف اس کے مرد جب بزرگ ہوتا ہے تو اس کی بری صفت ختم ہو جاتی ہے اور اچھی صفت باقی رہ جاتی ہے یعنی اس کی جہالت اور چھرچھراپن ختم ہو جاتا ہے اور اس کی سمجھ بوجھ اور عقل و دانش پختہ ہو جاتی ہے ۔
اقول: معصوم کا یہ فرمان عمومی حیثیت سے ہے ورنہ بعض عورتوں سن رسیدہ تجربہ کار اور بہت با سمجھ ہو کر اچھے فیصلے کرتی ہیں اور اس کے برعکس بعض مرد سن رسیدہ ہونے کے باوجود احمق اور نالائق ہوتے ہیں اور غلط فیصلے کر کے اپنی اولاد کے لئے مشکلات میں اضافہ کا موجب بنتے ہیں۔
امالی طوسی سے منقول ہے حضرت پیغمبرؐ نے فرمایا مومن کامل الایمان وہ ہے جس کے اخلاق اچھے ہوں اور بہتر آدمی وہ ہے جس کا عورت سے سلوک اچھا ہو۔
بروایت خصال حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے مروی ہے آپ نے فرمایا
پانچ چیزیں پانچ قسم کے لوگوں سے ناممکن ہیں۔
1. حسد کرنے والے سے خیر خواہی ناممکن ہے۔
2. دشمن سے رحم کا صدور نا ممکن ہے ۔
3. فاسق شخص سے کسی کے حق کا احترام ناممکن ہے۔
4. عورت سے وفا ناممکن ہے۔
5. فقیر و تنگدست سے ہیبت یعنی اس کا بارعب ہونا ناممکن ہے۔
اقول: روایت میں عورت کی وفاداری کو ناممکن ہونا بیان کیا گیا ہے اور یہ بھی عمومی فیصلہ ہے یعنی عام طور پر عورت اپنی خواہشات و جذبات کی تکمیل کی خاطر بے وفا ثابت ہوتی ہے ورنہ بعض وفادار عورتوں کے اذکار اب تک زیب قرطاس ہیں جن کی وفا پر انسانیت کو ناز ہے ۔
بروایت خصال حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے مروی ہے ۔
1. جس کی زبان سچی ہو اس کا عمل پاکیزہ ہوتا ہے ۔
2. جس کی نیت درست ہو خدا اس کے رزق میں ترقی دیتا ہے ۔
3. اور جو اپنے اہل سے اچھا سلوک کرے اس کی عمر زیادہ ہوتی ہے ۔
قرب الاسناد سے مروی ہے حضرت رسالتمابؐ نے فرمایا تین شخصوں کی دعا مقبول نہیں ہوتی ان میں سے ایک یہ ہے وہ مرد جس کو عورت ہر ممکن اذیت پہنچاتی ہو اور دعا مانگے کہ اے پروردگار! مجھے اس سے نجات عطا فرما پس ایسے شخص کو اللہ کی جانب سے جواب ملتا ہے کہ میں اس کا معاملہ تیرے سپرد کیا ہے۔ اگر تو چاہے تو اس کو طلاق دیکر آزاد کر دے (اور اس سے راحت پا لے) اور اگر چاہے تو اس کو اپنے پاس رکھ۔
بروایت معافی الاخبار حضرت امیر المومنین علیہ السلام سے منقول ہے آپؐ نے فرمایا عقول النسآ فی جما لھن و جمال الرجال فی عقولھم یعنی عورتوں کی عقلیں حسن میں ہوتی ہیں اور مردوں کا حسن عقل میں ہوتا ہے اس کے علماء نے کئی معفای کئے ہیں مقصد یہ ہے کہ عورتوں کے فہم و فکر اور عقل و دانش کی تگ و دو اپنے جمال آرائش اور بناؤ سنگار تک محدود ہوتی ہے اور بخلاف اس کے مردوں کا احسن و جمال ان کے عقل میں مضمر ہے اور اس میں شک نہیں کہ عورتوں کا معیار انتخاب حسن و جمال ہوا کرتا ہے اور عقل و دانش اور فہم و فراست کو ثانوی حیثیت حاصل ہوتی ہے لیکن مرد کا معیار انتخاب اس کا علم و دانش ہوتا ہے اور اس کی ظاہری شکل کو ثانوی حیثیت حاصل ہوا کرتی ہے اس کی مزید وضاحت ہم نے اپنی تفسیر میں کی ہے ۔
· بحارالانوار میں کتاب الغایات سے منقول ہے حضورؐ نے فرمایا کہ مرد کے لئے بری عورت تمام بری چیزوں سے بہت بری ہے۔
· دوسری روایت میں ہے آپ نے فرمایا مومنوں کے دشمنوں میں سے اس پر غالب دشمن اس کی بری بیوی ہوا کرتی ہے ۔
بروایت خصال حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے مروی ہے آپ نے فرمایا چار قسم کے آدمیوں کی نماز قبول نہیں ہوتی ۔
1. حاکم ظالم
2. وہ پیشنماز جو مقتدیوں کے نہ چاہنے کے باوجود ان کو نماز پڑھائے
3. مالکوں سے بھاگا ہوا غلام
4. وہ عورت جو اپنے شوہر کی اجازت کے بغیر اپنے گھر سے باہر نکلے
امالی صدوق سے منقول ہے حضرت پیغمبرؐ نے فرمایا عورت کا شوہر کی اجازت کے بغیر گھر سے باہر جانا ممنوع ہے ۔
پس اگر کوئی عورت اپنے شوہر کی اجازت کے بغیر گھر سے باہر جائے تو اس پر آسمان کا ہر فرشتہ لعنت بھیجتا ہے اور ہر وہ جس کے پاس سے وہ گزرتی ہے خواہ جن ہوں یا انسان سب اس پر لعنت بھیجتے ہیں جب تک واپس اپنے گھر میں داخل نہ ہو۔
آپ نے فرمایا، عورت کا اپنے شوہر کے علاوہ کسی دوسرے مرد کےلئے بناؤ سنگار حرام ہے اگر کوئی عورت ایسا کرے تو اللہ لازماً اس کو عذاب آتش میں مبتلا کرے گا اور آپ نے فرمایا کہ عورت کا اپنے شوہر یا اپنے محرم کے علاوہ کسی دوسرے مرد کے ساتھ بوقت ضرورت پانچ کلمات سے زیادہ کلام کرنا ممنوع ہے نیز آپ نے فرمایا عورت و مرد جا باتیں خلوت میں کرتے ہیں عورت پر حرام ہے کہ دوسروں کو وہ باتیں بتائے۔
آپ نے فرمایا وہ عورت جو زبانی باتوں سے اپنے مرد کی دل شکنی کرے اور اس کو رنج پہنچائے خداوند کریم اس کی کوئی نیکی قبول نہ کرے گا جب تک اپنے شوہر کو راضی نہ کرے خواہ وہ روزہ دار ہو عبادت گزار ہو اس نے کئی غلام آزاد کئے ہوں اور اللہ کی راہ میں جہاد کےلئے فوجی امداد کی ہو اگر شوہر اس پر ناراض ہے تو سب سے پہلے جہنم کا ایندھن بنے ( اور اس کی کوئی نیکی اس کو عذاب خدا سے نہ بچا سکے گی) اسی طرح اگر عورت وفادار ہو اور مرد اس پر بےجا ظلم کرتا ہوتو اس کی بھی کوئی نیکی مقبول نہ ہو گی اور وہ نیکیوں کے باوجود جہنم میں جائے گا۔
اقول: روایت میں ہے کہ صحابی رسول سعد بن معاذ جب فوت ہوا تو حضورؐ بنفس نفیس اس کی تشییع جنازہ میں شامل تھے اور بہت خوش تھے اور فرمایا کہ کئی ہزار فرشتوں نے سعد کے جنازہ میں شمولیت کی ہے لیکن جب سعد کو دفن کر چکے تو آپ کے چہرہ پر ملال کے آثار نمودار ہوئے لوگوں نے وجہ پوچھی تو آپ نے فرمایا کہ سعد پر فشار قبر ہو رہا ہے اس لئے کہ اپنی اہلیہ کے لئے اس کا اخلاق اچھا نہ تھا۔
حضورؐ نے فرمایا جو شخص عورت کی بدخلقی اور تلخ کلامی کو برداشت کرے تو بروزقیامت اللہ اس کو شاکرین کا ثواب دے گا اور جو عورت اپنے شوہر سے نرمی نہ برتے اور اس کو ایسے کاموں کا حکم دے جو اس سے نہ ہو سکتے ہیں ہو تو ایسی عورت کی کوئی نیکی مقبول نہ ہوگی اور جب وہ بارگاہ خداوندی میں حاضر ہو گی تو اس کو غضب پروردگار سے دو چار ہونا پڑے گا۔
ایک شخص نے حضورؐ سے پوچھا کہ کیا عورت شوہر کے گھر سے کسی کو کچھ دے سکتی ہے ؟ تو آپ نے فرمایا نہیں مگر اس صورت میں کہ جب شوہر کی اجازت حاصل کرے ۔
کتاب ثواب الاعمال سے منقول ہے حضرت پیغمبرؐ نے فرمایا جو عورت بن سنور کر خوشبو لگا کر گھر سے باہر نکلے اس پر لعنت برستی ہے یہانتک کہ واپس اپنے گھر میں داخل ہو شوہر کی فرمانبرداری کرے نا فرمانی نہ کرے۔
اس کے گھر سے اس کی اجازت کے بغیر کوئی خیرات و صدقہ نہ دے۔
اس کی اجازت کے بغیر مستحب روزہ نہ رکھے۔
اس کو جنسی خواہشات کی تکمیل سے نہ روکے۔
اس کے گھر سے اس کی اجازت کے بغیر قدم باہر نہ نکالے ورنہ اگر گھر سے باہر نکلی تو آسمانوں زمینوں کے فرشتے اور رحمت و غضب کے فرشتے اس پر لعنت کرتے رہیں گے ۔ جب تک گھر میں واپس نہ آئے ۔
حضرت نبی کریمؐ نے فرمایا مجھے اس بوڑھے انسان پر تعجب آتا ہے جو عورت کو مارتا ہے حالانکہ وہ خود مار کھانے کے لائق ہے آپ نے فرمایا لکڑی کے ساتھ عورت کو نہ مارو کیونکہ اس میں قصاص واجب ہو جاتا ہے البتہ اس کو خوراک اور لباس کی تنگی دو (گر نافرمان ہو تاکہ اپنی غلطیوں سے باز آ جائے) اس طریقہ سے تم دنیا و آخرت میں راحت پاؤ گے جس مرد کی بن سنور کر گھر سے باہر جاتی ہو تو وہ مرد یوث ہے اور اس کو دیوث کہنے والا گنہگار نہ ہوگا اسی طرح اگر کوئی عورت زینت کر کے اور خوشبو لگا کے گھر سے باہر نکلے اور شوہر بھی اس کے طرز عمل پر راضی ہو تو ہر قدم کے بدلے میں شوہر کے لئے دوزخ کا گھر تعمیر ہو گا۔
اعلام الدین(۔۔۔) سے منقول ہے حضرت امیر المومنین علیہ السلام نے فرمایا لوگوں پر ایک ایسا زمانہ آئے گا کہ فاجر انسان کو خوش طبع سمجھا جائے گا اور نقالی اور مذاق کرنے والوں کو مقرب بنایا جائے گا اور انصاف پسند لوگوں کو حقیر سمجھا جائیگا تو لوگوں نے دریافت کیا کہ یہ کب ہو گا؟ آپ نے فرمایا جب امانت کو مال غنیمت سمجھا جائے گا اور صلہ رحمی کو احسان سمجھا جائے گا پھر پوچھا گیا کہ یہ باتیں کب ہوں گی ؟ آپ نے فرمایا جب عورتوں اور کنیزوں کی حکومت ہو گی اور لڑکوں کا اقتدار پر قبضہ ہو گا
وسائل میں حضرت رسالتمابؐ سے منقول ہے آپ نے فرمایا جنت کی خوشبو پانچ سو برس کی مسافت پہنچتی ہے لیکن والدین کا نافرمان اور دیوث آدمی اس خوشبو کو نہ سونگھ سکیں گے تو لوگوں نے سوال کیا دیوث کسے کہتے ہیں ؟ آپ نے فرمایا جس کی عورت زنا کار ہو اور اس کو بھی پتہ ہو وسائل میں حضرت پیغمبرؐ سے مروی ہے آپ نے فرمایا کہ جو عورت اپنے شوہر کو اذیت پہنچائے نہ اس کی نماز مقبول ہوتی ہے اور نہ کوئی دوسری نیکی قابل قبول ہوتی ہے جب تک شوہر کو راضی نہ کرے اور شوہر کی نافرمان عورت ساری زندگی روزے رکھے نمازیں پڑھے غلام آزاد کرے راہ خدا میں خرچ کرے تب بھی سب سے پہلے جہنم میں جائے گی اور آپ نے فرمایا اگر مرد بھی عورت کو اذیت دینے والا ہوتو اس کا بھی یہی حال ہے اور اس کےلئے بھی اسی طرح کا عذاب ہے اور جو شخص عورت کی بد خلقی پر صبر سے وقت گزار دے تو اس کو حضرت ایوب کی طرح صبر کا ثواب ملے گا اور شوہر کو اذیت پہنچانے ولای عورت پر ریگستان کے ذرات کے برابر گناہوں کا بوجھ ہو گا اور اگر شوہر کو راضی کئے بغیر مر جائے تو دوزخ کے نچلے طبقہ میں اس کو ڈالا جائیگا۔
بحارالانوار جلد 23 میں ہے ایک عورت جناب رسالتمابؐ کی بارگاہ فیض انتساب میں آئی اور اس نے عرض کی کہ حضورؐ آپ یہ فرمائیں کہ گواہی میں دو عورتیں، ایک مرد کے برابر کیوں ہیں؟ اسی طرح میراث میں عورتوں کا حصہ ایک مرد کے برابر کیوں ہے؟ تو آپ نے جواب میں ارشاد فرمایا کہ تم دین اور عقل میں ناقص ہو اس لئے تمہارا حصہ مردوں سے آدھا ہے اور تم دو کو گواہی میں ایک مرد کے برابر قرار دیا گیا ہے ۔ عورت نے عرض کیا کہ ہمارا دین کیسے ناقص ہے؟ تو آپ نے فرمایا کہ تم پر ایک وقت ایسا آتا ہے کہ عبادت خدا سے محروم ہو جاتی ہو اسی طرح لعن طعن کرنا تمہاری عادت ہے اور مرد کی اچھی صحبت کو فراموش کر دینا تمہاری فطرت ہے مثال کے طور پر اگر کوئی عورت مرد کے پاس دس برس گزارے اور مرد اس پر ہر قسم کا احسان کرے اور اس پر ناز و نعمت کی بارش کرتا رہے لیکن خدانخواستہ اس پر برا وقت آ جائے اور کسی دن اس کا ہاتھ تنگ ہو یا کسی دن وہ سخت کلامی کر بیٹھے تو عورت کی فطرت ہے کہ اس کے پورے دس برس کے احسانات اور ناز برداریوں کو پس پشت ڈال کر فوراً کہہ دے گی میں جب سے تیرے گھر میں آئی ہوں تم سے کبھی کوئی بھلائی نہیں دیکھی ۔ ہاں اگر شازو نادر کوئی عورت اس قسم کی رذیل عادات سے بچی ہوئی ہو تو مرد سے اس کے حصۃ کا کم ہونا اس کا امتحان ہے پس اسے صبر کرنا چاہیے تا کہ اللہ اس کے اجر میں اضافہ فرمائے پس تمہیں یہ خوش خبری ہو۔
بحارالانوار میں کنز کراجکی سے مروی ہے حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا ۔ ملعون ہے ملعون ہے وہ عورت جو مرد کو اذیت پہنچائے اور اس کو غمزدہ کرے اور نیک بخت ہے ، نیک بخت ہے وہ عورت جو مرد کی عزت کرے اور اسے دکھ نہ پہنچائے اور ہر حالت میں اس کی اطاعت گزار رہے۔
اسی کتاب سے منقول ہے حضرت امیر المومنین علیہ السلام نے فرمایا عورتوں کے ساتھ مشورہ کرنے سے بچو البتہ وہ عورت جس کی دانائی اور کمال عقل کا تمہیں تجربہ ہو چکا ہے (اس سے مشورہ لینے میں کوئی حرج نہیں ہے) کیونکہ عورتوں کی رائے کا انجام افسوس ناک ہوتا ہے اور ان کا نظریہ کمزور ہوتا ہے لہذا ن کے دلائل پر کان زیادہ نہ دھرو اور اس میں ان کی بھی بہتری ہے اور ان کا گھروں سے باہر نکلنا اتنا نقصان دو نہیں جتنا غیر محرموں سے پردہ ختم کر کے ان کو اپنے گھروں میں داخل کرنا نقصان دہ ہے اور اگر تم کر سکتے ہو کہ تمہارے سواتمہاری عورت کو کسی دوسرے مرد کی واقف کار نہ بنے تو ایسا ہی کرو اور عورت کو اپنے معاملات میں اس قدر خود مختاری دو جو اس کی ذات تک محدود ہو تا کہ وہ اس سے آگے نہ بڑھے یہ اس کے لئے بھی فائدہ مند ہے اور تمہارے لئے بھی نفع بخش ہے اور عورت کو ریحان سمجھو اسے اپنے اوپر قہر نہ بناؤ اور اسے یہ جرات نہ دلاؤ کہ تمہارے پاس کسی کی سفارش کرے عورتوں کے ساتھ علیحدگی کو زیادہ طور نہ دو تا کہ تم سے تھک نہ جائیں بلکہ ان کی اشتیاق نہ کرو ورنہ اس قسم کی بے غیرت، صحیح عورت کو بھی غلط کار بنا دے گی ہاں اگر عورت کی غلطی دیکھو تو فوراً ٹوک دو اور عورت پر غصہ ہر گز نہ کرو مگر جب ان کا عیب یا گناہ دیکھو تو غصہ کرنا درست ہے آگے چل کر فرماتے ہیں(عورت کی فطرت یہ ہے) کہ تمہاری طرف سے وہ بری بات کو یاد رکھے گی اور تمہاری اچھی بات اور احسان کو فراموش کر دگے پس تم ان سے اچھائی سے پیش آؤ تا کہ وہ اپنی کارکردگی میں عمدگی کا خیال کریں۔
نیز کتاب نہج البلاغہ سے اسی مضمون کی روایت منقول ہے جو آپ نے اپنے حضرت حسن مجتبیٰ علیہ السلام کو بطور وصیت کے فرمائی آپ نے فرمایا (مرد کی دوسری شادی پر) عورت کا غیرت کرنا کفر کی نشانی ہے اور اس کے مقابلہ میں مرد کی غیرت ایمان کی علامت ہے۔
امالی شیخ سے منقول ہے ایک دفعہ جناب ام سلمہ نے حضرت رسول کریمؐ سے دریافت کیا کہ شوہر کی خدمت کرنے میں عورت کا کیا درجہ ہے؟ تو آپؐ نے فرمایا جو عورت شوہر کے گھر میں اصلاح کے طور پر ایک چیز کو ایک جگہ سے اٹھا کر دوسری جگہ رکھے اس پر خدا کی رحمت کی نگاہ ہوتی ہے اور جس پر اللہ کی رحمت کی نگاہ ہو اس کو خدا عذاب نہ دے گا۔
نوادر راوندی سے منقول ہے حضرت رسالتمابؐ نے فرمایا جو شخص اپنے گھر میں فجور (گناہ) دیکھے اور غیرت نہ کرے تو خداوند کریم ایک سفید رنگ کا پرندہ بھیجتا ہے جو چالیس روز تک اس پر سایہ فگن رہتا ہے اور اس کے گھر میں آتے اور جاتے ہوئے کہتا ہے، غیرت کرو، غیرو پس اگر وہ غیرت کو اپنا لے تو فبہا ورنہ وہ پرندہ اس کی آنکھوں پر اپنے پروں کو پھیر دیتا ہے اس کے بعد وہ آدمی اگر اچھا کام دیکھے تو خوش نہ ہو گا اور اگر برا کام دیکھےگا تو رنجیدہ نہ ہو گا۔
اسی کتاب سے منقول ہے ایک دفعہ ایک انصاری حضرت پیغمبرؐ کے پاس اپنی لڑکی کو لایا اور شکایت کی کہ حضورؐ والا! میری لڑکی کے شوہر نے میری لڑکی کے منہ پر تھپڑ مارا ہے کہ اس کے چہرہ پر اس کا نشان موجود ہے میں لڑکی کی طرف سے اس سے بدلہ لینا چاہتا ہوں تو قرآن مجید کی آیت اتری الرجال قوامون علی النساء یعنی مرد عورتوں پر حاکم ہیں آپ نے اس انصاری کو قرآن مجید کی یہ آیت سنا دی اور فرمایا تم کچھ اور چاہتے تھے لیکن اللہ نے کچھ اور چاہا ہے
بحارالانوار میں عدۃ الداعی سے منقول ہے حضرت پیغمبرؐ نے فرمایا عورت کا شوہر پر حق یہ ہے کہ اس کی روٹی کپڑے میں یعنی نان و نفقہ میں اس کو تکلیف نہ دے اور اس سے تر شروئی نہ کرے اگر مرد ایسا کرے تو اس نے بیوی کا حق ادا کر دیا ۔ مکارم الاخلاق سے مروی ہے امام جعفر صادق علیہ السلام یا امام محمد باقر علیہ السلام نے فرمایا عورت کو بے زیور نہ رہنا چاہیے اور نہیں تو کم از کم اس کی گردن میں تو ہار تو ہو اور آپ نے فرمایا شادی شدہ عورت کا ہاتھ مہندی سے خالی نہ ہونا چاہیے اگرچہ سن رسیدہ ہی کیوں نہ ہو؟ اور وسائل کی ایک روایت میں ہے کہ حضرت علی علیہ السلام نے ہاتھوں پر مہندی سے نقش و نگار سے منع فرمایا ہے ایک روایت میں عورت کے کاجل سرمہ نہ لگانے کی مذمت کی گئی ہے ۔
بحارالانوار میں دعوات راوندی سے منقول ہے حضرت نبی کریمؐ نے فرمایا جس کے پاس اللہ کی پانچ نعمتیں ہوں پھر بھی عمل آخرت میں کوتاہی کرے تو اس کو کوئی عذر قابل قبول نہ ہو گا (1) بیوی صالحہ ہو جو دنیا و آخرت کا کاموں میں اس کی شریک کار اور معاون ہو (2) اولاد لائق ہو (3) اس کی روزی اپنے شہر میں ہو (4) لوگوں کے ساتھ معاملہ خوش خلقی سے کرتا ہو (5) میری اہل بیت سے محبت کرتا ہو۔
امالی شیخ سے منقول ہے جس کے پاس اللہ کی چار نعمتیں ہوں اس کے پاس دنیا و آخرت کی بھلائی جمع ہوتی ہے ۔
1. خوف خدا جو اس کو اللہ کی حرام کردہ چیزوں سے روکے۔
2. خوش خلقی جس کی بدولت لوگوں میں اچھی زندگی بسر کر رہا ہو۔
3. صبر و حوصلہ جس کی بدولت جاہل لوگوں کی جہالت کا مقابلہ اس کےلئے آسان ہو
4. اچھی بیوی جو دنیا و آخرت میں اس کی مدد گار ہو۔
نوادر راوندی سے منقول ہے آپ نے فرمایا میری امت کی عورتوں میں سے اچھی عورت وہ ہے جو خوبصورت بھی ہو اور کم حق مہر پر راضی ہو۔
ایک روایت میں آپ نے فرمایا شوہر سے محبت کرنے والی عورت سے شادی کر لو اگرچہ وہ سیام فام ہی کیوں نہ ہو لیکن عاقر (جس کی اولاد پیدا نہ ہو) سے شادی نہ کرو اگرچہ کتنی ہی خوبصورت ہو کیونکہ میں قیامت کے دن اپنی امت کی کثرت پر فخر کروں گا اور تمہیں یہ بھی معلوم ہونا چاہیے کہ تمہارے بچپن میں مر جانے والے بچے عرش پروردگار کے نیچے اپنے والدین کے لئے دعائے مغفرت کرتے ہیں اور حضرت ابراہیم علیہ السلام ان کی کفالت کرتے ہیں اور جناب سارہ ان کی تربیت کرتی ہیں ایسے پہاڑ کے زیر سایہ جس کی زمین عنبر کستوری اور زعفران سے بنی ہوتی ہے آپ نے فرمایا نیلگوں چشم عورتوں سے شادی کرو کیونکہ وہ باعث برکت ہوتی ہیں۔
ایک روایت میں آپ نے فرمایا کنواری عورت سے شادی کرو کیونکہ ان کے منہ شیریں، رحم پاکیزہ ان سکھانا آسان اور ان کی محبت پائیدار ہوتی ہے ۔
آپ نے فرمایا کہ اپنی کفو میں اپنی لڑکیوں کی شادی کرو اور اپنی کفو کی لڑکیوں سے خود شادی کرو اور زنج کی عورتوں سے یعنی حبشی عورتوں سے شادی مت کرو کیونکہ ان کی شکل پسندیدہ نہیں ہوتی ۔
آپ نے فرمایا گھوڑوں میں سے مشکی گھوڑا بہتر ہے اور رشتہ کے لئے اپنے چچا کی بیٹی سے بہتر کوئی زوجہ نہیں ہے۔
روضۃ الواعظین سے منقول ہے جابر بن عبداللہ انصاری کہتا ہے کہ ایک دفعہ ہم رسول اللہ ؐ کے پاس بیٹھے تھے کہ عورتوں کا ذکر چھڑ گیا تو آپ نے فرمایا ان کے متعلق میں تم کو ایک حتمی بات بتاتا ہوں اور وہ یہ کہ بہترین عورت وہ ہے جو صاحب اولاد ہو اور شوہر کے ساتھ پیار کرنے والی ہو پردہ کی پابند ہو ۔ اپنے اہل میں خود دار اور شوہر کی پوری فرمانبردار ہو ، اپنے شوہر کے ساتھ بے تکلف ہو اور اغیار سے پوری طرح کنارہ کش ہو جو مرد کی بات کان دھر کر سنے اور اس کی اطاعت کرے اور جب مرد کے ساتھ خلوت میں ہو تو اس کے جذبات کا پورا احترام کرے اور کسی قسم کا بخل نہ کرے ۔ پھر آپ نے فرمایا ( اس کے برعکس ) بد ترین عورت وہ ہے جو اپنے خاندان میں پوری اطاعت گزقار اور وفا شعار ہو لیکن شوہر کے سامنے ہر معاملہ میں خوداری ظاہر کرے اولاد کے معاملہ میں عقیم ہو اور کینہ ور ہونے کے علاوہ کسی قبیح فعل سے نہ بچپتی ہو جب شوہر موجود نہ ہوتو گھر سے نکل کھڑی ہو اور لوگوں کے ساتھ بے تکلف ہو جائے اور شوہر موجود ہو تو اس کے سامنے تکلف کرے اور اکڑ جائے جس طرح بری سواری ، سوار کو سوار ہونے سے روکتی ہے ۔ ایسی عورت جو مرد کو کوئی عذر قبول نہ کرے اور مرد کی کسی غلطی کو معاف نہ کرے۔
مکارم الاخلاق سے منقول ہے ابن بی یعفور کہتا ہے میں نے حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے دریافت کیا کہ میں ایک عورت سے شادی کرنا چاہتا ہوں لیکن میرے والدین نے میرے لئے ایک دوسری عورت کا انتخاب کیا ہے تو اس صورت میں میں کونسی عورت سے شادی کروں ؟ آپ نے فرمایا اس عورت سے شادی کرو جس کو تم خود پسند کرتے ہو اور اس سے شادی نہ کرو جس کو تمہارے والدین پسند کرتے ہوں۔
اقول: یہ اس وقت ہے جب کہ اس کو والدین دوسری شادی کا حکم نہ دیں بلکہ صرف مشورہ دیں ورنہ اگر وہ حکم دیں تو اولاد کے لئے دنیاوی معاملات میں والدین کی اطاعت واجب ہے اور سرتابی گناہ ہے۔
کتاب مکارم الاخلاق سے مروی ہے حسین بن بشار بیان کرتا ہے کہ میں نے حضرت امام موسٰی کاظم علیہ السلام کی خدمت میں ایک خط بھیجا کہ میرا ایک قریبی رشتہ دار ہے جس کے اخلاق اچھے نہیں اور وہ ہم سے رشتہ طلب کرتا ہے کیا میں اپنا ایسے شخص کو رشتہ دے دوں ؟ تو آپ نے جواب میں تحریر فرمایا کہ اگر وہ بد خلق ہے تو اس کو رشتہ نہ دو ۔
کتاب معافی الاخبار سے مروی ہے حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا کہ عورت مرد کے گلے کا ہار ہے لہذا شادی کرنے سے پہلے معلوم کر لو کہ کسی قسم کا ہار گھلے میں ڈال رہے ہو۔ فرمایا عورت کی کوئی قیمت نہیں ڈالی جا سکتی نہ اچھی عورت کی اور نہ بری عورت کی اچھی عورت کی قیمت اس لئے نہیں ڈالی جا سکتی کہ قیمت سونا اور چاند ہوا کرتی ہے اور اچھی عورت سونے اور چاندی سے بدرجہا بہترا ہوا کرتی ہے اور بری عورت کی قیمت اس لئے نہیں کی جا سکتی کہ اگر بری عورت کی قیمت مٹی بھی ڈالی جائے تو بے انصافی ہے کیونکہ مٹی بری عورت سے بدرجہا بہتر ہے ۔
معانی الاخبار سے مروی ہے براہیم کرخی کہتا ہے میں نے حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے درخواست کی کہ میری اہلیہ وفات پا چکی ہے اور میں اب دوبارہ شادی کرنا چاہتا ہوں اس بارے میں آپ مشورہ دیں کہ میں کیا کروں تو آپ نے فرمایا پہلے اچھی طرح سوچ لو کہ اپنے نفس کوکہاں ڈال رہے ہو؟ اپنے مال میں کس کو شریک کر رہے ہو؟ اور اپنے دین امانت اور رازوں میں کس کو مطلع کر رہے ہو؟ پھر اگر تم نے ضرور شادی کرنی ہو تو کنواری عورت سے شادی کرنا جس کی شہرت اچھی ہو اور با کردار ہو ۔ الحدیث
حضرت امیر المومنین علیہ السلام نے جنگ جمل سے واپس پر ارشاد فرمایا ۔ لوگو! عورتیں ناقص الایمان، ناقص الخط اور ناقص العقل ہوا کرتی ہیں ان کا ناقص الایمان ہونا اس بات سے ظاہر ہے کہ ماہواری کے ایام میں وہ نماز روزہ سے محروم ہوتی ہیں۔
· ان کا ناقص العقل ہونا اس سے واضح ہے کہ دو عورتوں کی گواہی ایک مرد کے برابر ہے۔
· پس بری عورتوں سے بچو اور اچھی عورتوں سے بھی محتاط رہو پس ان کی اچھی باتوں میں ان کی فرمانروائی کو تسلیم نہ کرو ورنہ ہو سکتا ہے کہ غلط نظریات کو بھی تم پر ٹھونسنے کی کوشش کریں۔
· نہج البلاغہ میں ہے آپ نے ارشاد فرمایا عورت ایک ایسا بچھو ہے جس کے ڈسنے میں بھی شیرینی ہے ۔
کتاب مکارم الاخلاق سے منقول ہے حضرت رسالتمابؐ نے فرمایا جو شخص عورت کی اطاعت کرے گا خدا اس کو الٹے منہ جہنم میں ڈالے گا کسی نے پوچھا یا رسول اللہ اس اطاعت سے کیا مراد ہے؟ تو آپ نے فرمایا، جب عورت حمام جانے کے لئے شادیوں میں شرکت کے لئے گانے کی محفل میں شمولیت کے لئے کسی مرنے والے کی میت پر رسمی طور پر رونے کےلئے اور باریک لباس پننے کے لئے اپنے مرد سے اجازت طلب کرے اور وہ بخوشی اس کا اجازت دے دے تو عورت کی اس قسم کی اطاعت مرد کے لئے پیغام جہنم ہے۔
کتاب مکارم الاخلاق سے مروی ہے حضرت امیر المومنین علیہ السلام نے فرمایا، جس شخص کی تدبیر عورت کے تابع ہو وہ ملعون ہے۔
حضرت امام محمد باقر علیہ السلام سے منقول ہے عورتوں کو اپنا مشیر کار نہ قرار دو اور رشتوں ناطوں کے معاملہ میں عورت کی اطاعت نہ کرو کیونکہ عورت جب سن رسیدہ ہوتی ہے تو اس کی اچھی وصف ختم ہو جاتی ہے اور بری صفت باقی رہتی ہے یعنی اس کا حسن ختم ہو جاتا ہے اور رحم ناقابل تولید ہو جاتا ہے لیکن اس کی زبان تیز ہو جاتی ہے اور بخلاف اس کے مرد جب بزرگ ہوتا ہے تو اس کی بری صفت ختم ہو جاتی ہے اور اچھی صفت باقی رہ جاتی ہے یعنی اس کی جہالت اور چھرچھراپن ختم ہو جاتا ہے اور اس کی سمجھ بوجھ اور عقل و دانش پختہ ہو جاتی ہے ۔
اقول: معصوم کا یہ فرمان عمومی حیثیت سے ہے ورنہ بعض عورتوں سن رسیدہ تجربہ کار اور بہت با سمجھ ہو کر اچھے فیصلے کرتی ہیں اور اس کے برعکس بعض مرد سن رسیدہ ہونے کے باوجود احمق اور نالائق ہوتے ہیں اور غلط فیصلے کر کے اپنی اولاد کے لئے مشکلات میں اضافہ کا موجب بنتے ہیں۔
امالی طوسی سے منقول ہے حضرت پیغمبرؐ نے فرمایا مومن کامل الایمان وہ ہے جس کے اخلاق اچھے ہوں اور بہتر آدمی وہ ہے جس کا عورت سے سلوک اچھا ہو۔
بروایت خصال حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے مروی ہے آپ نے فرمایا
پانچ چیزیں پانچ قسم کے لوگوں سے ناممکن ہیں۔
1. حسد کرنے والے سے خیر خواہی ناممکن ہے۔
2. دشمن سے رحم کا صدور نا ممکن ہے ۔
3. فاسق شخص سے کسی کے حق کا احترام ناممکن ہے۔
4. عورت سے وفا ناممکن ہے۔
5. فقیر و تنگدست سے ہیبت یعنی اس کا بارعب ہونا ناممکن ہے۔
اقول: روایت میں عورت کی وفاداری کو ناممکن ہونا بیان کیا گیا ہے اور یہ بھی عمومی فیصلہ ہے یعنی عام طور پر عورت اپنی خواہشات و جذبات کی تکمیل کی خاطر بے وفا ثابت ہوتی ہے ورنہ بعض وفادار عورتوں کے اذکار اب تک زیب قرطاس ہیں جن کی وفا پر انسانیت کو ناز ہے ۔
بروایت خصال حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے مروی ہے ۔
1. جس کی زبان سچی ہو اس کا عمل پاکیزہ ہوتا ہے ۔
2. جس کی نیت درست ہو خدا اس کے رزق میں ترقی دیتا ہے ۔
3. اور جو اپنے اہل سے اچھا سلوک کرے اس کی عمر زیادہ ہوتی ہے ۔
قرب الاسناد سے مروی ہے حضرت رسالتمابؐ نے فرمایا تین شخصوں کی دعا مقبول نہیں ہوتی ان میں سے ایک یہ ہے وہ مرد جس کو عورت ہر ممکن اذیت پہنچاتی ہو اور دعا مانگے کہ اے پروردگار! مجھے اس سے نجات عطا فرما پس ایسے شخص کو اللہ کی جانب سے جواب ملتا ہے کہ میں اس کا معاملہ تیرے سپرد کیا ہے۔ اگر تو چاہے تو اس کو طلاق دیکر آزاد کر دے (اور اس سے راحت پا لے) اور اگر چاہے تو اس کو اپنے پاس رکھ۔
بروایت معافی الاخبار حضرت امیر المومنین علیہ السلام سے منقول ہے آپؐ نے فرمایا عقول النسآ فی جما لھن و جمال الرجال فی عقولھم یعنی عورتوں کی عقلیں حسن میں ہوتی ہیں اور مردوں کا حسن عقل میں ہوتا ہے اس کے علماء نے کئی معفای کئے ہیں مقصد یہ ہے کہ عورتوں کے فہم و فکر اور عقل و دانش کی تگ و دو اپنے جمال آرائش اور بناؤ سنگار تک محدود ہوتی ہے اور بخلاف اس کے مردوں کا احسن و جمال ان کے عقل میں مضمر ہے اور اس میں شک نہیں کہ عورتوں کا معیار انتخاب حسن و جمال ہوا کرتا ہے اور عقل و دانش اور فہم و فراست کو ثانوی حیثیت حاصل ہوتی ہے لیکن مرد کا معیار انتخاب اس کا علم و دانش ہوتا ہے اور اس کی ظاہری شکل کو ثانوی حیثیت حاصل ہوا کرتی ہے اس کی مزید وضاحت ہم نے اپنی تفسیر میں کی ہے ۔
· بحارالانوار میں کتاب الغایات سے منقول ہے حضورؐ نے فرمایا کہ مرد کے لئے بری عورت تمام بری چیزوں سے بہت بری ہے۔
· دوسری روایت میں ہے آپ نے فرمایا مومنوں کے دشمنوں میں سے اس پر غالب دشمن اس کی بری بیوی ہوا کرتی ہے ۔
بروایت خصال حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے مروی ہے آپ نے فرمایا چار قسم کے آدمیوں کی نماز قبول نہیں ہوتی ۔
1. حاکم ظالم
2. وہ پیشنماز جو مقتدیوں کے نہ چاہنے کے باوجود ان کو نماز پڑھائے
3. مالکوں سے بھاگا ہوا غلام
4. وہ عورت جو اپنے شوہر کی اجازت کے بغیر اپنے گھر سے باہر نکلے
امالی صدوق سے منقول ہے حضرت پیغمبرؐ نے فرمایا عورت کا شوہر کی اجازت کے بغیر گھر سے باہر جانا ممنوع ہے ۔
پس اگر کوئی عورت اپنے شوہر کی اجازت کے بغیر گھر سے باہر جائے تو اس پر آسمان کا ہر فرشتہ لعنت بھیجتا ہے اور ہر وہ جس کے پاس سے وہ گزرتی ہے خواہ جن ہوں یا انسان سب اس پر لعنت بھیجتے ہیں جب تک واپس اپنے گھر میں داخل نہ ہو۔
آپ نے فرمایا، عورت کا اپنے شوہر کے علاوہ کسی دوسرے مرد کےلئے بناؤ سنگار حرام ہے اگر کوئی عورت ایسا کرے تو اللہ لازماً اس کو عذاب آتش میں مبتلا کرے گا اور آپ نے فرمایا کہ عورت کا اپنے شوہر یا اپنے محرم کے علاوہ کسی دوسرے مرد کے ساتھ بوقت ضرورت پانچ کلمات سے زیادہ کلام کرنا ممنوع ہے نیز آپ نے فرمایا عورت و مرد جا باتیں خلوت میں کرتے ہیں عورت پر حرام ہے کہ دوسروں کو وہ باتیں بتائے۔
آپ نے فرمایا وہ عورت جو زبانی باتوں سے اپنے مرد کی دل شکنی کرے اور اس کو رنج پہنچائے خداوند کریم اس کی کوئی نیکی قبول نہ کرے گا جب تک اپنے شوہر کو راضی نہ کرے خواہ وہ روزہ دار ہو عبادت گزار ہو اس نے کئی غلام آزاد کئے ہوں اور اللہ کی راہ میں جہاد کےلئے فوجی امداد کی ہو اگر شوہر اس پر ناراض ہے تو سب سے پہلے جہنم کا ایندھن بنے ( اور اس کی کوئی نیکی اس کو عذاب خدا سے نہ بچا سکے گی) اسی طرح اگر عورت وفادار ہو اور مرد اس پر بےجا ظلم کرتا ہوتو اس کی بھی کوئی نیکی مقبول نہ ہو گی اور وہ نیکیوں کے باوجود جہنم میں جائے گا۔
اقول: روایت میں ہے کہ صحابی رسول سعد بن معاذ جب فوت ہوا تو حضورؐ بنفس نفیس اس کی تشییع جنازہ میں شامل تھے اور بہت خوش تھے اور فرمایا کہ کئی ہزار فرشتوں نے سعد کے جنازہ میں شمولیت کی ہے لیکن جب سعد کو دفن کر چکے تو آپ کے چہرہ پر ملال کے آثار نمودار ہوئے لوگوں نے وجہ پوچھی تو آپ نے فرمایا کہ سعد پر فشار قبر ہو رہا ہے اس لئے کہ اپنی اہلیہ کے لئے اس کا اخلاق اچھا نہ تھا۔
حضورؐ نے فرمایا جو شخص عورت کی بدخلقی اور تلخ کلامی کو برداشت کرے تو بروزقیامت اللہ اس کو شاکرین کا ثواب دے گا اور جو عورت اپنے شوہر سے نرمی نہ برتے اور اس کو ایسے کاموں کا حکم دے جو اس سے نہ ہو سکتے ہیں ہو تو ایسی عورت کی کوئی نیکی مقبول نہ ہوگی اور جب وہ بارگاہ خداوندی میں حاضر ہو گی تو اس کو غضب پروردگار سے دو چار ہونا پڑے گا۔
ایک شخص نے حضورؐ سے پوچھا کہ کیا عورت شوہر کے گھر سے کسی کو کچھ دے سکتی ہے ؟ تو آپ نے فرمایا نہیں مگر اس صورت میں کہ جب شوہر کی اجازت حاصل کرے ۔
کتاب ثواب الاعمال سے منقول ہے حضرت پیغمبرؐ نے فرمایا جو عورت بن سنور کر خوشبو لگا کر گھر سے باہر نکلے اس پر لعنت برستی ہے یہانتک کہ واپس اپنے گھر میں داخل ہو شوہر کی فرمانبرداری کرے نا فرمانی نہ کرے۔
اس کے گھر سے اس کی اجازت کے بغیر کوئی خیرات و صدقہ نہ دے۔
اس کی اجازت کے بغیر مستحب روزہ نہ رکھے۔
اس کو جنسی خواہشات کی تکمیل سے نہ روکے۔
اس کے گھر سے اس کی اجازت کے بغیر قدم باہر نہ نکالے ورنہ اگر گھر سے باہر نکلی تو آسمانوں زمینوں کے فرشتے اور رحمت و غضب کے فرشتے اس پر لعنت کرتے رہیں گے ۔ جب تک گھر میں واپس نہ آئے ۔
حضرت نبی کریمؐ نے فرمایا مجھے اس بوڑھے انسان پر تعجب آتا ہے جو عورت کو مارتا ہے حالانکہ وہ خود مار کھانے کے لائق ہے آپ نے فرمایا لکڑی کے ساتھ عورت کو نہ مارو کیونکہ اس میں قصاص واجب ہو جاتا ہے البتہ اس کو خوراک اور لباس کی تنگی دو (گر نافرمان ہو تاکہ اپنی غلطیوں سے باز آ جائے) اس طریقہ سے تم دنیا و آخرت میں راحت پاؤ گے جس مرد کی بن سنور کر گھر سے باہر جاتی ہو تو وہ مرد یوث ہے اور اس کو دیوث کہنے والا گنہگار نہ ہوگا اسی طرح اگر کوئی عورت زینت کر کے اور خوشبو لگا کے گھر سے باہر نکلے اور شوہر بھی اس کے طرز عمل پر راضی ہو تو ہر قدم کے بدلے میں شوہر کے لئے دوزخ کا گھر تعمیر ہو گا۔
اعلام الدین(۔۔۔) سے منقول ہے حضرت امیر المومنین علیہ السلام نے فرمایا لوگوں پر ایک ایسا زمانہ آئے گا کہ فاجر انسان کو خوش طبع سمجھا جائے گا اور نقالی اور مذاق کرنے والوں کو مقرب بنایا جائے گا اور انصاف پسند لوگوں کو حقیر سمجھا جائیگا تو لوگوں نے دریافت کیا کہ یہ کب ہو گا؟ آپ نے فرمایا جب امانت کو مال غنیمت سمجھا جائے گا اور صلہ رحمی کو احسان سمجھا جائے گا پھر پوچھا گیا کہ یہ باتیں کب ہوں گی ؟ آپ نے فرمایا جب عورتوں اور کنیزوں کی حکومت ہو گی اور لڑکوں کا اقتدار پر قبضہ ہو گا
وسائل میں حضرت رسالتمابؐ سے منقول ہے آپ نے فرمایا جنت کی خوشبو پانچ سو برس کی مسافت پہنچتی ہے لیکن والدین کا نافرمان اور دیوث آدمی اس خوشبو کو نہ سونگھ سکیں گے تو لوگوں نے سوال کیا دیوث کسے کہتے ہیں ؟ آپ نے فرمایا جس کی عورت زنا کار ہو اور اس کو بھی پتہ ہو وسائل میں حضرت پیغمبرؐ سے مروی ہے آپ نے فرمایا کہ جو عورت اپنے شوہر کو اذیت پہنچائے نہ اس کی نماز مقبول ہوتی ہے اور نہ کوئی دوسری نیکی قابل قبول ہوتی ہے جب تک شوہر کو راضی نہ کرے اور شوہر کی نافرمان عورت ساری زندگی روزے رکھے نمازیں پڑھے غلام آزاد کرے راہ خدا میں خرچ کرے تب بھی سب سے پہلے جہنم میں جائے گی اور آپ نے فرمایا اگر مرد بھی عورت کو اذیت دینے والا ہوتو اس کا بھی یہی حال ہے اور اس کےلئے بھی اسی طرح کا عذاب ہے اور جو شخص عورت کی بد خلقی پر صبر سے وقت گزار دے تو اس کو حضرت ایوب کی طرح صبر کا ثواب ملے گا اور شوہر کو اذیت پہنچانے ولای عورت پر ریگستان کے ذرات کے برابر گناہوں کا بوجھ ہو گا اور اگر شوہر کو راضی کئے بغیر مر جائے تو دوزخ کے نچلے طبقہ میں اس کو ڈالا جائیگا۔