خداوند کریم نے جہاں عورت کو نکاح کی زنجیر میں باندھ کر
مرد کا محکوم بنایا ہے وہاں اس نے اس قفل نکاح کو بے کلید نہیں رکھا بلکہ طلاق کو
اس کی کلید مقرر کیا ہے تا کہ نا مساعد حالات میں قفل نکاح کو طلاق کی چابی سے
کھول دیا جائے اگر عورت و مرد کے درمیان باہمی رشتہ محبت خدانخواستہ ٹوٹ جائے اور
فریقین کے وکلاء کی کوششوں کے باوجود ان کے باہمی اختلافات ختم نہ ہو سکیں تو عورت
کو مرد کی پابندی میں رکھ کر اس کے جذبات کو کچلنا ظلم ہے پس مرد پر ضروری ہے کہ
اسے قید نکاح سے بذریعہ طلاق آزاد کر دے اور عورت پر اسلام کا احسان عظیم ہے تا کہ
آزادی سے وہ دوسری مناسب جگہ شادی کر کے معاشرہ میں اچھے کردار کے ذریعے انسانیت
کی خدمت میں حصہ لے سکے اسی طرح مرد کے مرجانے کے بعد بھی اسے عدت کے بعد آزادانہ
طور پر دوسری مناسب جگہ شادی کرنے کی اجازت دی گئی ہے ۔
نہایت افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ ہمارے ہاں مردوں کے اذہان
سے عورتوں کے بارے میں غیر اسلامی افکار و نظریات دور نہیں ہوئے وہ خواہ مخواہ
عورت کی اس خدا داد آزادی کو چلینج کرتے ہیں اور اس کو اپنی غیرت کا نام دیتے ہیں
پس اگر کوئی عورت نا مساعد حالات میں سالہا سال اپنے میکے میں گزار دے تاہم مرد اس
کو طلاق دینا اپنی خود ساختہ غیرت کے خلاف سمجھتا ہے اور اگر مرد سلجھا ہوا ہو اور
طلاق پر آمادہ ہو بھی جائے تو عورت کی برادری اس کو اپنی توہین سمجھ کر اس کو طلاق
دینے سے روکتے ہیں اور بالفرض وہ طلاق دے بھی دے
تو عورت و مرد کے خاندانوں میں دشمنی اور سخت منافرت پیدا ہو جاتی ہے جس کے
نتائج نہایت بھیانک اور خطر ناک ہوتے ہیں۔
حالانکہ قرآن مجید کا واضح حکم موجود ہے کہ مرد و عورت میں
باہمی مصالحت نہ ہو سکنے کی صورت میں مرد پر ضروری ہے کہ اس کو اپنی قید نکاح سے
آزاد کر دے تا کہ عورت کی زندگی تلف نہ ہو اور شریعت کی حد شکنی اس سے نہ ہونے
پائے پس ایسے حالات میں مرد کا اس کو طلاق دے کر آزاد نہ کرنا جہاں عورت کی حق
تلفی اور اس پر ظلم ہے وہاں حکم خدا کی مخالفت اور گناہ عظیم بھی ہے اسی طرح عورت
کے خاندان کا عورت کے شوہر طلاق سے روکنا عورت کے حقوق پر ڈاکہ ڈالنے کے مترادف ہے
اور یہ غیرت نہیں بلکہ بے غیرتی ہے جس طرح ایذاء رسانی کے طور پر مرد کا عورت کو
طلاق نہ دینا ظلم ہے اسی طرح طلاق کے بعد عورت کے خاندان کا عورت کی آزادی کو سلب
کرتے ہوئے اسے دوسرے نکاح سے روکنا بھی عورت پر ظلم ہے ۔
جاہلی رسوم کے ماتحت جذبہ شہوانیت کی تکمیل میں بے اعتدالی
اور خود ساختہ غیرت کے ماتحت معاشرتی بے راہ روی اس قسم کے ظالمانہ اقدامات کی
دعوت دیتی ہے اور اسلام نے خواہشاتی جذبات کو منظم و معتدل کرنے میں جس قدر
رہنمائی فرمائی یقیناً جملہ ادیان عالم اس قسم کی پاکیزہ تعلیمات سے ناآشنا ہیں پس
مرد و عورت کو مساوی طور پر جینے کا حق حاصل ہے جس طرح عورت پر واجب ہے کہ مرد کے
جذبات کا احترام کرے اسی طرح مرد پر لازم ہے کہ عورت کے مفاد اور اس کے حقوق کی
پاسداری کرے اور ان دونو کا حقوق زوجیت کو بالائے طاق رکھ کر ایک دوسرے کے درپے ایذا
ہونا صرف ناجائز ہی نہیں بلکہ اس طرز عمل سے ان دونوں کا وجود صحیفہ انسانیت پر
ایک بد نما داغ بن جاتا ہے ۔
پس طلاق کا خدائی ضابطہ گھریلو زندگی کی اصلاح و بہبود کے
لئے نہایت اہم اور ضروری ہے اگر خدا کی تعلیم کردہ غیرت اور قانونی ہدایت کے ماتحت
خود ساختہ غیرتوں اور غیر اسلامی جذبات کو قوت ایمانی سے کچل دیا جائے تو کوئی وجہ
نہیں کہ گھریلو زندگی خوشگوار نہ ہو پس مرد جہاں قرآنی ہدایت سے پہلو تہی کر کے
عورتوں کو حیوانیت کی تاریک زندگی کی طرف دھکیلتے ہیں وہاں وہ اپنے گھر کو رشک جنت
بنانے کے بجائے اسے جہنم بنا دیتے ہیں خدا وند کریم مومن مردوں اور عورتوں کو
معاشرتی حقوق سے اپنی اپنی ذمہ داری کے ماتحت عہدہ برآ ہونے کی سعادت عطا فرمائے ۔
مصلحت طلاق اور اس میں راہ روی
خداوند کریم نے جہاں عورت کو نکاح کی زنجیر میں باندھ کر مرد کا محکوم بنایا ہے وہاں اس نے اس قفل نکاح کو بے کلید نہیں رکھا بلکہ طلاق کو اس کی کلید ...
3 min read