اسلام کے مطابق فطرت قوانین کے ناقابل تنسیخ ہونے کی وجہ یہ ہے کہ وہ ایسی مصلحتوں اور خوبیوں کے پیش نظر خالق کی طرف سے وضع شدہ ہیں کہ تا قیامت ان کا مصلحتی پہلو اضمحلال پذیر نہیں ہو سکتا من جملہ انہی قوانین کے اسلام نے مرد و عورت کے باہمی تعلقات کی ناشگفتگی کی صورت میں تعلق زوجیت کو ختم کر دینے کا حکم صادر فرمایا ہے جسے طلاق سے تعبیر کیا جاتا ہے اسلام نے اس قانون کی رو سے ازدواجی زندگی سے ان ناخوشگوار خدشات کا ازالہ فرما دیا ہے جو طلاق کے غیر مروج ہونے کی صورت میں مرد و عورت کو پیش آتے تھے جن سے ہر دو کی زندگی انتہائی بد مزگی سے بسر ہوتی تھی اور ازدواجی رشتہ ہر دو کے لئے حلق کا کانٹا بن کر جان لیوا ہو جاتا تھا ۔ اسلام یہ چاہتا ہے کہ مرد و عورت کی زندگی میں ایسی مسرت افزا اور قلب پرور روح موجود ہو کہ ان کا ہر ہر لمحہ باہمی انس اور پیار سے معمور ہو ان کا دل باہمی تعاون کے پر خلوص جذبات کا آئنینہ دار ہو اور ان کا ظرف خاطر آپس کی ہمدردی اور خیر خواہی کی بے پناہ دولت سے لبریز ہو محبت سے اٹھنا بیٹھنا ہو اور پیار کا رہنا سہنا ہو تا کہ ان کے دل و دماغ
ہر قسم کی دنیاوی الجھنوں سے مطمئن ہو کر اللہ کی نعمات کا شکر ادا کر سکیں مرد کا عورت کے ساتھ خلوص ایسا ہو کہ عورت خواہ ہزار ہا تفکرات و ہموم میں گرفتار ہو لاکھ غم و اندوہ میں تڑپ رہی ہو لیکن جب ہی اس کی نظر مرد کے چہرے پر پڑے تو اس کی ساری کوفت دور اور غم کافور ہو جائے اور عورت بھی ایسی صاحب وفا اور باحیا اور مرد کی غمسگار ہو کہ مرد کی دن بھر کی تھکان کو اس کی ایک سادہ سی لبوں پر کھیلتی ہوئی مسکراہٹ راہ گیر ملک عدم کر دے اور اسی قسم کے مضامین کی احادیث بھی خانوادہ عصمت سے وارد ہیں۔
پس اسی بناء اسلام نے مرد و عورت ہر دو کی آزادی اور خیر و خوشی کو ملحوظ رکھتے ہوئے ان کے قفل زوجیت کو بے کلید نہیں بنایا بلکہ اگر مردد و عورت کے تعلقات میں سازگاری کی کوئی صورت نہ ہو
آپس کا باہمی رجحان منقود ہو اور دل سے ایک دوسرے سے بیزار ہوں تو فراخدلی اور کشادہ روئی کا مظاہرہ کرتے ہوئے آزادانہ فضا میں بذریعہ طلاق کے ایک دوسرے سے علیحدگی اختیار کر لیں تا کہ مرد عورت کے لئے گلے کے ہار کی بجائے خار نہ بنا رہے اور عورت مرد کے لئے روح کی بہار کی بجائے فضائے دل فگار نہ بنی رہے پس جب تک اچھا نبھا ہو سکے تو ٹھیک ورنہ ایک دوسرے کے لئے بار خاطر بنے رہنے سے پوری سے زندگی کو وبا جان بنانے سے کیا فائدہ ؟ پس نکاح کے ساتھ ساتھ حکم طلاق عورت و مرد کی
خوشگوار زندگی کے لئے وہ پراز مصلحت اور سراپا حکمت قانون ہے جس میں تا ابد کوئی تزلزل آ ہی نہیں سکتا جو لوگ صیغہ طلاق کو نفرت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں یا اسے عورت کی توہین قرار دیتے ہیں انہیں آزادانہ طور پر یہ بھی سمجھ لینا چاہیے کہ کیا باہمی نفرت کی صورت میں ان کی بزدری ایک دوسرے سے میل جول رکھنے کےلئے مجبور کرنا ان ہر دو کو زندہ در گور کرنے کے مترادف نہیں ؟ اور کیا باہمی محبت ایسی چیز ہے کہ مجبور کئے جانے سے واپس آ سکتی ہے اور کیا اس قسم کے ناخوشگوار حالات میں قید نکاح ان
کےلئے زنجیر غلامی نہیں ؟ بلکہ جسمانی قیود سے روحانی قیود کہیں زیادہ مہلک و جان فرسا ہوا کرتی ہیں وہ ممالک جہاں طلاق کو مدت مدید سے عورت کی توہین سمجھا جاتا رہا ہے وہ بھی ان جیسی مشکلات و مصائب کا جائزہ لیتے ہوئے آج طلاق کو قانونی شکل دینے پر مجبور ہو گئے ہیں جسے اسلام نے تیرہ چودہ سو سال پیشتر ترویج دے کر ناقابل تنسیخ قرار دیا تھا۔
مرد سے حق طلاق کو سلب کرنا یا اس پر پابندی عائد کرنا عورت کی طرفداری اور خیر خواہی نہیں بلکہ یہ ایک نا عاقبت اندیشی اور کور دماغی ہے جسے کوئی عقیل سلیم دامن قبولیت میں جگہ دینے کا تیار نہیں۔
عورت کا ایک مرد سے طلاق حاصل کر کے دوسرے کے نکاح میں جانا اس کی توہین نہیںبلکہ فطری حق ہے اور آزاد مزاجی کا مظاہرہ ہے اور اسی طرح مرد کا نا ساز گار حالات میں عورت کو اپنی قید نکاح سے آزاد کرنا اس کی منصف مزاجی اور فراخدلی کا ثبوت ہے اور بخلاف اس کے دونوں کو مکروہ و ناپسندیدہ زندگی بسر کرنے پر آمادہ کرنا صرف تنگدلی ہی نہیں بلکہ ان کو اپنے فطری حقوق سے محروم کرنے کے مترادف ہے۔