اگر زیادتی عورت کی طرف سے ہو اور وہ مرد کے ساتھ آباد ہونا ناپسند کرتی ہو اور مرد سے طلاق کا مطالبہ کرتی ہو تو اس صورت میں مرد کے لئے اپنے دئیے ہوئے حق مہر سے زیادہ فدیہ وصول کرنا جائز ہے اور اس کو خلع کہا جاتا ہے اور طلاق کا صیغہ خلع کےساتھ جاری ہو گا۔
اور اگر بغض و ناراضگی
ہر دو طرف سے ہو اور دونوں ایک دوسرے کو نہ چاہتے ہوں اور اللہ کی حدود کو توڑنے
کا دونوں سے خطرہ ہو تو اس صورت میں مرد عورت سے صرف اسی قدر وصول کر سکتا ہے جس
قدر اس کو دے چکا ہے اور اس کا مبارات کہا
جاتا ہے پس طلاق طلاق کا صیغہ مبارات کے ساتھ جاری ہوگا۔
مسئلہ: خلع اور مبارات
کا صیغہ جاری کرتے وقت انہی شرائط کا ہونا ضروری ہے جو طلاق کے صیغہ کے وقت معتبر
ہوا کرتی ہیں نیز خلع اور مبارات کے صیغہ میں طلاق کا ذکر کرنا بھی لازمی ہوا کرتا
ہے ۔
خلع کا صیغہ
خلع کرنے والا عورت کو
یوں کہے : خلعتک علی (کذا یہاں فدیہ کا ذکر کرے) فانت طالق یا کہے خلعت زوجتی
فلانۃ (نام عورت کا) علی کذا (ذکر فدیہ کرے) فھی طالق۔
اور اگر مرد کی طرف سے وکیل ہو تو کہے گا خلعت زوجۃ موکلی (فلانہ نام عورت) علی کذا (ذکر فدیہ) فھی طالق۔