· وسائل میں حضرت امام محمد باقر علیہ السلام سے منقول ہے آپ نے فرمایا
o عورت پر اذان و اقامت اور جمعہ و جماعت نہیں ہے
o بیمار پرسی اور جنازے کے ساتھ چلنا عورت
کے لئے مستحب نہیں ہے۔
o عورت کا احکام حج میں تلبیہہ کا جہر سے
پڑھنا، صفا و مروہ کے درمیان دوڑنا، حجر اسود کا بوسہ لازم نہیں ہے۔
o اسی طرح دخول کعبہ عورت کےلئے نہیں اور
سر مونڈنا بھی عورت کےلئے نہیں بلکہ ان کےلئے تقصیر ہے۔
o قاضی ہونا، حکمران ہونا اور مشیر ہونا
عورت کےلئے نہیں ہے۔
o عورت جانور کو ذبح نہ کرے لیکن اگر
مجبوری ہوتو ذبح کر سکتی ہے۔
o وضو میں عورت ہاتھ دھونے میں کہنی کے
باطن پر پانی ڈالے جس طرح اس کے برعکس مردکہنی کے ظاہر پر ڈالتا ہے۔
o عورت نماز کے قیام میں اپنے دونو پاؤں کو
ملا کر رکھے اور دونوں ہاتھ سینے پر رکھے۔
o رکوع میں عورت کے ہاتھ گھٹنوں کے بجائے
رانوں پر ہونے چاہیئں۔
o سجدہ میں عورت اپنے سینے اور پیٹ کو اوپر
نہ اٹھائے بلکہ زمین کے ساتھ ملی ہوئی ہو۔
o جب سجدہ سے سر اٹھائے تو پہلے بیٹھ جائے
پھر قیام کےلئے اٹھے۔
o جب تشہد کےلئے بیٹھے تو گھٹنوں کو بلند
کر کے بیٹھے کہ اس کی رانیں ملی ہوئی ہوں۔
o جب عورت کو کوئی حاجت پیش ہوتو چھت پر
چڑھ کر دو رکعت نماز پڑھے اور دعا مانگے خدا اس کو رد نہ کرے گا۔
o عورت پر سفر میں غسل جمعہ کرنا ضروری
نہیں لیکن گھر میں ہوتو اسے ترک نہ کرے ۔
o حدود میں عورتوں کی گواہی جائز نہیں اور
نہ طلاق و رویت ہلال کی گواہی ان کےلئے جائز ہے۔
o عورت ان معاملات میں گواہ بن سکتی ہے
جہاں مرد کا نظر کرنا حرام ہے۔
o عورت کا بالا خانوں میں رہائش رکھنا
ممنوع ہے اسی طرح کتابت سیکھنا بھی اچھا نہیں (تا کہ ناجائز خط و کتابت کے ذریعے
خاندان کی پریشانی کا باعث نہ بنے)
o عورت کے لئے چرخا اور سورہ نور کی تعلیم
مستحب ہے۔
o عورت کےلئے سورہ یوسف کی تعلیم بھی درست
نہیں ہے۔
اقول: کیونکہ اس میں حضرت علیہ السلام پر زلیخا کے عشق کی
داستان کا بیان ہے اور اللہ نہیں چاہتا کہ
عورتیں عشقیہ داستانیں پڑھیں جب اللہ نے عورت کے شرم و حیا کے پیش نظر اس کی پردہ
داری اور عصمت کا اس قدر خیال کیا ہے تو کس قدر ہیں بد نصیب وہ لڑکیا جو فحش ناول اور
عشقیہ قصے پڑھتی ہیں اور کس قدر غلط کار ہیں وہ والدین اور تربیت کنندگان جو
لڑکیوں کےلئے اس قسم کے مواد مہیا کرنے میں باک محسوس نہیں کرتے اور اس سے بڑھ کر
کس قدر افسوسناک روش ہے ایسے لوگ کی جو صرف ناول پڑھنے تک محدود نہیں بلکہ لڑکیوں
کو سینما دیکھنے کی اجازت دیتے ہیں بلکہ بعض تو ایسے بھی ہیں جو خود بھی جاتے ہیں
اور بیگمات و دختران کو بھی انگلی پکڑا کر ساتھ لے جاتے ہیں سرور محسوس کرتے ہیں
خدا وند کریم اہل ایمان کو اس بیماری سے محفوظ رکھے)
o عورت اگر اسلام سے برگشتہ ہو جائے اور
مرتد ہو جائے تو اس سے توبہ کرائی جائے گی اور اگر توبہ نہ کرے تو اس کو جیل میں
ڈال دیا جائے گا اور اس کی قید با مشقت ہو گی اس کے برعکس اگر مرتد مرد ہو تو اس
کی سزا قتل ہے ۔
o عورت اگر نماز و روزہ سے غفلت کر ے تو
مرد کو اس کے مارنے کی اجازت ہے۔
o عورت پر جزیہ نہیں ہوا کرتا۔
o جب عورت کا وقت ولادت قریب ہو تو بیگانی
عورتوں کو گھر سے نکال دینا چاہیے۔
o حیض و نفاس والی عورت کو تلقین میت کے
وقت باہر نکال دینا چاہیے۔
o حیض و نفاس والی عورت میت کو قبر میں نہیں
اتار سکتی (جب کہ مرد موجود نہ ہوں اور عورتوں کو یہ کام کرنا پڑ رہا ہو)
o جب عورت ایک سیٹ سے اٹھ جائے تو مرد کو
نہ بیٹھنا چاہیے جب تک وہ جگہ ٹھنڈی نہ ہو جائے۔
o عورت کا جہاد ہے کہ اپنے مرد کی اطاعت
کرے اور شوہر کے حقوق کا خیال رکھے۔
o عورت پر شوہر کے حقوق سب سے زیادہ ہیں۔
o جب عورت مر جائے تو اس کے جنازہ کا سب سے
زیادہ حقدار اس کا شوہر ہے ۔
o مسلمان شیعہ عورت کو چاہیے کہ یہودی و
نصرانی عورتوں کے سامنے (غیر شیعہ عورتوں کے روبرو بھی) اپنا لباس نہ اتار دیں تا
کہ وہ اپنے گھر جا کر اپنے مردوں سے بیان نہ کر سکیں۔
o گھر سے باہر جانے کےلئے عورت کا خوشبو
لگانا ممنوع ہے۔
o مردوں کے ساتھ اپنے آپ کو مشابہ کرنا عورتوں
پر حرام ہے اور حضورؐ نے ان عورتوں پر لعنت بھیجی جو مردوں سے مشابہت کریں اور ان
مردوں پر بھی لعنت بھیجی جو عورتوں سے مشابہت کریں۔
o شادی شدہ عورت کو کبھی کسی نہ کسی زیور
سے خالی نہیں ہونا چاہیے خواہ کم از کم ایک معمولی ہار ہی گلے میں ڈال لیں۔
o عورت کے ناخن سفید نہیں ہونا چاہیئں بلکہ
ان پر مہندی لگی ہوئی ہو (نوٹ: ناخن پالش لگانا، درست نہیں کیونکہ اس سے وضو اور
غسل صحیح نہیں ہو سکتا)
o حیض کے زمانہ میں مہندی عورت کو نہیں
لگانی چاہیے۔
o عورت کے لئے اوڑھنی کے بغیر نماز پڑھنا
حرام ہے۔
o کنیز عورت بغیر اوڑھنی کے کھلے سر نماز
پڑھ سکتی ہے۔
o عورتوں کےلئے ریشمی لباس جائز ہے اور
مردوں پر حرام ہے۔
o عورت کے لئے سونے کی انگوٹھی پہننا اور
اس کے ساتھ نماز پڑھنا جائز ہے اور مردوں پر حرام ہے۔
o حضرت پیغمبرؐ نے فرمایا یاعلیؑ سونے کی
انگوٹھی نہ پہننا یہ جنت میں تمہاری زینت ہے اور ریشمی لباس نہ پہننا یہ بھی جنت
میں تمہارا لباس ہو گا۔
o شوہر کی اجازت کے بغیر عورت غلام آزاد
کرنے یا کسی دوسری نیکی کے کام میں خرچ کرنے کی مجاز نہیں ہے۔
o شوہر کی اجازت کے بغیر عورت مستحب روزہ
نہیں رکھ سکتی۔
o عورت کےلئے نامحرم مرد سے مصافحہ کرنا
جائز ہے۔
o عورت کےلئے حمام میں جانا ممنوع ہے۔
o زین پر چڑھنا عورت کےلئے بغیر ضرورت یا
سفر کے ممنوع ہے۔
o وراثت میں عورت کا حصہ مرد کے حصے سے نصف
ہے۔
o عورت کا خون بہا بھی مرد کے خون بہا سے
نصف ہوا کرتا ہے۔
o جب اکیلی عورت مرد کی اقتداء میں نماز
ادا کرے تو اس کےپیچھے کھڑی ہو گی نہ کہ اس کے پہلو میں۔
o جب عورت کا جنازہ پڑھا جائے تو جنازہ
خوان اس کے سینہ کے برابر کھڑا ہو گا۔
o جب تین آدمی عورت کی میت کو قبر میں
اتاریں گے کمر کے برابر میت کو پکڑ کر اتارنے والا اس کا شوہر ہو گا۔
o عورت کےلئے اللہ کی بارگاہ میں اس کے
شوہر کی رضا مندی سے بہتر کوئی شفیع نہیں ہے۔
o جب جناب فاطمہؑ کا انتقال ہوا تو حضرت
امیر المومنین علیہ السلام نے دعا مانگی اے اللہ میں تیرے نبی کی دختر سے راضی ہوں
۔ اے اللہ یہ اب ایک وحشت ناک سفر پر جاری ہے تو اس کو مونس بن اے اللہ یہ اب ہجرت
کر چکی ہے تو اس کا ساتھی بن اے اللہ یہ مظلومہ ہے تو اس کےلئے انصاف کا فیصلہ کر
تو احکم الحاکمین ہے۔
o عورت کو مرد کے گھر سے شوہر کی اجازت کے
بغیر کسی کو کوئی چیز نہیں دینی چاہیے۔
o عورت کو کوئی رات ایسی نہیں گزارنی چاہیے
جس میں اس کا شوہر اس پر ناراض ہو
تفسیر در منثور سے مروی ہے کہ ایک دن اسماء بنت یزید انصاری
بارگاہ رسالت میں حاضر ہوئی اور عرض کی حضورؐ ! میرے ماں باپ آپ پر فدا ہوں میں
صنف نساء کی طرف سے حاضر خدمت ہوئی ہوں اور مشرق و مغرب کی تمام عورتیں میری آواز
سے متفق ہیں آپ کو اللہ نے تمام مردوں اور عورتوں کی طرف رسول بنا کر بھیجا ہے۔
ہمارا اللہ پر اور آپ کی نبوت پر ایمان ہے ہم عورتیں گھروں میں رہنے کی پابند
مردوں کے لئے جنسی خواہشات کی تکمیل ک ذریعہ اور مردوں کی اولاد کی حامل ہیں ۔
مردوں کو جمعہ جماعت ، بیمار پرسی ، جنازہ کی تشییع اور حج وغیرہ کےلئے خدا نے ہم
پر فضیلت بخشی ہے جہاد بھی ایک بہترین عمل ہے جو مردوں کےلئے مخصوص ہے لیکن مرد جب
باہر جائیں تو ان کے لباس و اموال کی اصلاح ہمارے ذمہ ہوتی ہے تو کیا ثواب و جزا میں ہم مردوں کے ساتھ شریک ہو سکتی ہیں؟
حضورؐ ! نے صحابہ کو مخاطب کر کے فرمایا کیا امور دینیہ کے
متعلق تم نے کبھی کسی عورت کو اس سے بہتر سوال کرتے سنا ہے؟ انہوں نے عرض کی ،
نہیں حضور! ہم تو سوچ ہی نہیں سکتے تھے کہ کوئی عورت کبھی اس قسم کی سنجیدگی سے
بات کر سکتی ہے پس حضور! اس عورت کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا واپس جا کر تمام
عورتوں کو میرا یہ پیغام پہنچا دینا کہ اگر کوئی عورت مرد سے اچھا سلوک رکھے اور
امور خانہ داری میں مرد کی فرمانبرداری اور دلجوئی کو ملحوظ خاطر رکھے تو مرد کی
تمام انفرادی نیکیوں کے برابر اس کو ثواب ملے گا چنانچہ وہ خوش ہو کر واپس چلی گئی
اس میں شک نہیں کہ اسلامی عورت ہمیشہ اس طریق زندگی پر کار بند رہی چنانچہ امور
خانہ داری کی انجام دہی اور مرد کی اطاعت کو ہی اپنا بہترین جہاد سمجھتی رہی اور
کبھی اسلامی عورت نے مردوں کے دوش بدوش گھر سے باہر نکل کھڑے ہونے کا تصور بھی
نہیں کیا بلکہ اسے اپنی عزت و شرافت کے منافی سمجھتی رہی لیکن جب سے مغرب کی جانب
سے نام نہاد نسوانی آزادی کی مسموم ہوا چلی ہے اس نے اپنی ہمہ گیر طوفانی لہروں
میں عورت کو بھی گھیر لیا جس کی وجہ سے عفت و شرافت اور شرم و حیا کا جنازہ نکل
گیا پس عیاش طبع آوارہ ذہن مردوں نے عورتوں کی نام نہاد آزادی کو اپنی شہوت رائی اور
نفس پرستی کا زینہ سمجھتے ہوئے اس تحریک کو اور اچھا لا اور اسلام کی طرف سے عورت
کے لئے پردہ کی پیش کش کو فرسودہ خیالی
کہہ کر حیا و شرافت کی دھجیاں اڑانا اپنی روش خیالی قرار دیا جس کی بدولت
اب اچھے خاصے گھرانوں کی لڑکیاں بھی اسلامی تعلیمات سے گھبراتی ہیں اور غیر اسلامی
طرز زندگی کو اپنا کر خوشی محسوس کرتی ہیں۔
ہماری دعا ہے کہ خداوند کریم مسلمانوں کو اسلامی اقدار کے
اپنانے کی سعادت عطا فرمائے۔
(تفسیر انوارالنجف سورہ نساء)