التماس سورہ فاتحہ برائے والد بزرگوار،جملہ مومنین و مومنات،شھداۓ ملت جعفریہ ، خصوصاً وہ جن کا کوئی سورہ فاتحہ پڑھنے والا نہ ہو۔ یہاں کلک کریں

Search Suggest

وجوب استقبال اور تحقیق قبلہ

7 min read

نماز چونکہ کعبہ (بیت اللہ) کی طرف منہ کرنا واجب ہے لہذا نماز پڑھنے سے پہلے جہت قبلہ کا تعین ضروری ہے ہمارے پورے ملک میں شمالاً جنوباً اور شرقاً و غرباً ہر گہ اس بات کو اصول مسلمہ میں سے سمجھا گیا ہے کہ قطبی ستارہ جو افق شمال سے تقریباً 32 درجے کی بلندی پر ہے اس کو دائیں کندھے کے درمیان رکھنے سے منہ سیدھا قبلہ کی طرف ہو جاتا ہے حالانکہ قطبی ستارہ کو دائیں کندھے پر رکھنے سے نقطہ مغرب کی طرف سیدھا منہ ہو جاتا ہے سیدھے نقطہ مشرق پر واقع ہوں اور مکہ کے ساتھ ان کا عرض بلند موافق ہو ان کی جہت قبلہ نقطہ مغرب ہو گی پس جنوبی ہند اور انڈونیشا کے بعض مقامات کے قبلہ کی علامت صحیح یہی ہے کہ قطبی ستارہ کو دائیں کندھے کے وسط میں رکھا جائے لیکن پاکستان میں کوئی بھی مقام ایسا نہیں جو مکہ سے سیدھا جانب مشرق واقع ہو اور اس کا عرض بلد مکہ سے ملتا جلتا ہو  بلگہ اگر نقشہ دیکھا جائے تو لاہور سے نقطہ مغرب پر اردن واقع ہے نہ کہ حجاز۔

آجکل جدید تحقیقات جغرافیائی لحاظ سے حد یقین اپنے دامن میں لئے ہوئے ہیں اور ماہرین نے دنیا کا چپہ چپہ ناپ کر رکھا دیا ہے اور جد آلات کے ذریعے سے نت نئے انکشافات نے ذہن انسانی کی کایا  پلٹ کر رکھ دی ہے ۔ لہذا ایسے حالات میں گذشتگان کی تقلید کرتے ہوئے آنکھیں بند کر کے لکیر کا فقیر بن کر رہ جانا دانش مندی نہیں  جبکہ انکشافات جدیدہ کی وافقیت و صداقت اپنا لوہا منوا چکی ہے وہ اور زمانہ تھا جب کہ صرف اندازہ سے ہی کام نکالا جا سکتا تھا اب تحقیق کا زمانہ ہے البتہ جس مقام پر پائے تحقیق لنگ ہو اور لسان واقع گنگ ہو تو حالات حاضرہ جس ظن و اندازہ تک پہنچا دین اسے غنیمت سمجھ لیا جاے۔

آجکل تحقیقات جدیدہ کے ماتحت جو قبلہ نما بازار میں آئے ہوئے ہیں اور ہر بڑے شہر میں دستیاب بھی ہو سکتے ہیں ان کی رو سے ہمارا یعنی لاہور کا قبلہ مغرب سے تقریباً 27 درجے جنوب کی طرف ہے پس اس صورت میں قطبی ستارہ  سیدھا دائیں کندھے کے پچھلے کونے کی سیدھ میں رکھنا پڑے گا پرانے خیالات کے مقلد اذہان کے لوگوں کے سامنے اس قسم کی تحقیق بالکل اجنبی معلوم یوتی ہے اور وہ یہ سمجھتے ہیں کہ ہمیں قبلہ سے منحرف کیا جا رہا ہے لہذا وہ اپنی ضد پر اڑ جاتے ہیں حالانکہ انہیں یہ ذہن نشین کر لینا چاہیے کہ پہلے لوگوں کےلئے تحقیق کرنے کے اسباب و آلات محدود تھے اور وسائل مختصر تھے پس ان کی تحقیق اپنے زمانہ  کے لحاظ سے اس سے زیادہ نہ برھ سکتی تھی جہاں تک وہ اس زمانہ میں پہنچے لیکن آجکل تحقیق کا میدان بہت وسیع ہو چکا ہے اور ذرائع و اسباب کی فراوانی ہے پس موجود تحقیق قبلہ سے منحرف نہیں کرتی بلکہ قبلہ کی رہنمائی کرتی ہے اور پہلے لوگوں کی تحقیق میں جو کمزوری رہ گئی تھی اب اس کمزوری کو دور کیا گیا ہے اور کراچی حیدر آباد کا قبلہ نقطہ مغرب سے 18 درجے جنوب کی طرف ہے۔

مسئلہ : نماز کے ارکان پانچ ہیں

o       نیت

o       تکبیرۃ الاحرام

o       قیام

o       رکوع

o       سجود

مسئلہ: ارکان نماز ان کو کہا جاتا ہے کہ ان کی عمدی یا سہوی زیادتی و کمی نماز کو باطل کر دیتی ہے۔

نماز کےلئے قبلہ رخ کھڑے ہو کر نیت کر کے ہاتھوں کو کانوں تک بلند کر کے اللہ اکبر کہے اور عورت کے لئے ہاتھوں کو سینہ پر رکھنا ان کی عفت و حیا کے پیش نظر مستحب ہے اور پاؤں ان کے آپس میں ملے ہوئے ہوں پس بسم اللہ الرحمن الرحیم کو جہریہ پڑھ کر سورہ انا انزلناہ یا کوئی دوسرا سورہ پڑھ کر قیام کی حالت میں تکبیر کہے اور اللہ اکبر ختم ہونے کے بعد رکوع کی طرف جھکے اور حالت رکوع میں نظر قدموں کے درمیان ہو اور ہاتھوں کی انگلیاں کھلی ہوں اور گھٹنوں کو اوپر دبا کر رکھے پشت برابر ہو اور سرو گردن بھی پشت کی سیدھ میں ہو اطمینان و سکون کی حالت میں ذکر رکوع کرے سبحان ربی العظیم و بحمدہ ایک دفعہ واجب ہے اور تین دفعہ کہنا مستحب ہے یا صرف سبحان اللہ تین دفعہ کہ دے اور بعد میں درود شریف پڑھ لینا بھی مستحب ہے پس دیھا ہو کر پرھے سمع اللہ لمن حمدہ اور اللہ اکبر بھی وہیں قیام میں پڑھے بعد میں سجدہ کے لئے جھکے پہلے ہاتھوں کو ذمین پر ٹیکے اور بعد میں گھٹنے زمین پر رکھے لیکن عورت کےلئے یہ ہے کہ پہلے گھٹنے  زمین پر رکھے اور بعد میں ہاتھ سجدہ کی حالت میں دونوں ہتھیلیاں دونوں پاؤں کے انگوٹھے دونوں گھٹنے اور پیشانی یہ سات اعضاء ہیں جن کا ٹیکنا واجب ہے اور ناک کا زمین پر رکھنا مستحب ہے سجدہ کی حالت میں نظر ناک پر دونوں ہاتھوں کی انگلیاں ملی ہوئی کانوں کے کناروں کے برابر ہوں ، کہنیاں جسم سے الگ ہوں ، پیٹ زمین سے اوپر کو ابھرا ہوا ہو لیکن عورت کےلئے مستحب ہے کہ زمین سے مل کر سجدہ کرے اوراس کے دونوں ہاتھ کہنیوں تک زمینس ے چمٹے ہوں حالت سجدہ میں اطمینان اور سکون کے ساتھ سبحان ربی الاعلی و بحمدہ ایک دفعہ واجب ہے اور تین دفعہ کہنا مستحب ہے یا اس کے بجائے تین دفعہ سبحان اللہ کہنا بھی کافی ہوا کرتا ہے پس درود شریف پڑھے اور اٹھ بیٹھے اور کہے اللہ اکبر اور استغفراللہ ربی و اتوب الیہ پڑھ کر تکبیر کہے اور بعد میں دوسرے سجدہ کےلئے جھکے اور دوسرے سجدہ سے فارغ ہو کر اٹھ بیٹھے اور اس بیٹھنے کو جلسہ استراحت سے فقہا تعبیر کرتے ہیں پس بحول اللہ وقوتہ اقوم و اقعد کہتے ہوئے اٹھے اور دوسری رکعت پڑھے حالت قیام میں سورہ حمد پھر کوئی دوسرا سورہ اور اس کے بعد دعائے قنوت پڑھنے مثلاً ربنا اتنا فی الدنیا ھسنۃ و فی الاخرۃ حسنۃ وقنا عذاب النار اس کے اول و آخر میں درود شریف پڑھے اور حالت قیام میں تکبیر کہ کر پھر رکوع اور بعد میں حسب سابق دونوں سجدے بجا لائے اب دوسرے سجدہ کے بعد سیدھا بیٹھ جائے جبکہ نظر گود میں ہو پس دونوں پاؤں دائیں طرف نکال کر اس طرح بیٹھے کہ بائیں پاؤں کا شکم دائیں کی پشت پر ہو پس کلمہ شہادتین پڑھے اشد ان لا الہ الا اللہ وحدہ لا شریک لہ واشھد ان مھؐدا عبدہ و رسولہ پس درود شریف پڑھے اور اس کو تشہد کیا جاتا ہے پس اگر صبح کی نماز ہے تو سلام پڑھ کر ختم کرے پہلا سلام مستحب ہے السلام علیک ایھا النبی ورحمۃ اللہ و برکاتہ اور یہ سلام تشہد کی حالت میں بیٹھے ہوئے پڑھے پھر نظر کو مغرب کی طرف بڑھا کر پڑھے السلام علینا و علی عباداللہ الصالھین اور گوشہ چشم سے دائیں طرف سے اشارہ کر کے تیسرا سلام پڑھے اسلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتۃ اور اگر مغرب کی نماز ہوتو تشہد کے بعد سلام نہ پڑھے بلکہ بحول اللہ الخ پڑھتے ہوئے اٹھ کھڑا ہو اور حالت قیام میں یا صرف سورہ  فاتحہ پڑھے یا اس کے بجائے تسبیحات اربعہ پڑھے لے اور دوسرا سورہ نہ پڑھے اور تسبیحات اربعہ یہ ہیں سبحان اللہ والحمد للہ ولا الہ الا اللہ و اللہ اکبر پھر رکوع و وسجود کر کے تشہد پڑھے اور سلام پڑھ کر نماز ختم کرے اور چار رکعتی نماز یعنی ظہر یا عصر یا عشاء ہو تو تیسری رکعت میں سجدوں کے بعد تشہد پڑھنے کی بجائے بحول اللہ الخ پڑھتے ہوئے اٹھ جائے اور تیسری رکعت کی طرف چوتھی رکعت پڑھ کر تشہد و سلام پڑھے۔

آئمہ طاہرین علیھم السلام نے نماز کا جو طریقہ تعلیم فرمایا ہے وہ یہی ہے اس سے بڑھانا یا کم کرنا علماء کے بس میں نہیں ہے تشہد میں حضرت امیر المومنین علیہ السلام کی ولایت کی شہادت پر اصرار کرنا خواہ مخواہ موشگافی ہے کیونکہ درود میں سب آل محمد شامل ہیں۔

مستدرک الوسائل میں حضرت امام رضا علیہ السلام سے منقول ہے جہاں دوسرے تشہد میں آپ نے باقی اذکار کا مستحبہ کا ذکر فرمایا ہے وہاں اشھد انک نعم الرب و ان محمداً نعم الرسول و ان علی بن ابی طالب نعم الولی کا تشہد واجب کے بعد پڑھنا بھی مستحب قرار دیا ہے اور درود شریف کے بعد اللھم صلی علی محمد ن المصطفی و علی ن المرتضی و فاطمۃ الزھراء و الحسن و الحسین ولآئمۃ الراشدین من ال طہ و یسین الخ کا پڑھنا بھی ذکر فرمایا ہے ۔

نماز میں جو واجبات ہیں وہ چودہ ہیں

1.     نیت اور اس کے حکم کا دائم رکھنا

2.     تکبیرۃ الاھرام یعنی پہلی اللہ اکبر جس سے نماز شروع ہوتی ہے۔

3.     قیام

4.     رکوع

5.     سجود

6.     قرات

7.     ذکر رکوع

8.     ذکر سجدہ

9.     تشہد

10.سلام

11.ترتیب یعنی اس ترتیب سے پڑھی جائے جو اوپر بیان کی جا چکی ہے۔

12.موالات یعنی ایک فعل کے بعد دوسرا فعل بلا تاخیر بجا لایا جائے کہ درمیان میں طویل خاموشی یا کوئی دوسرا شغل حائل نہ ہو۔

13.طمانیت یعنی ہر فعل اپنے اپنے مقام پر بجا لائے اور اطمینان و سکون کو کسی جزو نماز میں ترک نہ کرے پس نماز کی حالت میں ملتے جلتے رہنا درست نہیں ہے۔

14.بعض علماء نے جلسہ استراحت کو بھی واجب قرار دیا ہے یعنی پہلے اور تیسری رکعت میں سجدہ سے سر اٹھانے کے بعد تھوڑا سے بیٹھ  رہنا اور پھر اٹھنا ، ان واجبات مذکورہ میں سے پہلے پانچوں کا نماز کہا جاتا ہے یعنی ان کی کمی یا بیشی عمداً ہو سہواً نماز کو باطل کر دیت ہے باقی سب واجبات ہیں ان میں اگر عمداً کمی بیشی ہو گی تو نماز باطل ہو گی ورنہ نہیں۔

ایک تبصرہ شائع کریں