قوت عقل ہی
وہ قوت ہے جس کی بدولت انسان علوم نظریہ اورمعارف واقعیہ کی طرف اقدام کر سکتا ہے
اور تدریجا قوت سے فعل کی طرف بڑھتا ہے پس طایر عقل کے پرو بال جس قدر مضبوط و
طاقت ورہوں گے اس کی پرواز میں اتنی ہی بلندی ہو گی اور علم و عقل میں تکالیف
شرعیہ کا بوجھ بھی اسی نسبت سے ہوگا کیونکہ معمولی و پست درجہ کے انسان سے جو خدمت
لی جاتی ہے ایک بلند مرتبہ اور کامل انسان سےاس پر اکتفا ہرگز نہیں کی جاسکتی بلکہ
ہر شخص اپنی اپنی شان و حیثیت مکلف ہوتا ہے اور اسی ہی نسبت سے اس پر باز پرس ہوگی
جس کا وہ جواب دہ ہوگا علامہ اجل ثقتہ السلام کلینی قدس سرہ نے اپنی کتاب کافی میں
ایک باب قائم کیا ہے جس میں اس مضمون کی احادیث نقل فرمائیں کہ معرفت اللہ کی جانب
سے ہوا کرتی ہے چنانچہ حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سےروایت کی ہے کہ اللہ کی
جانب سے بندوں پریہ فریضہ نہیں کہ وہ اس کی معرفت حاصل کریں بلکہ اللہ پر ضروری ہے
کہ بندوں کو اپنی پہچان کرائے اور بندوں پرواجب ہے کہ جب اللہ ان کی معرفت کی طرف
بلائے تو وہ اسے قبول کریں اس کا مقصد یہ ہے کہ وہ اپنے بندوں کو اسباب معرفت
اورذرائع علم عطا فرماتا ہے جس کی بدولت وہ اس وادی میں قد م رکھنے کےاہل ہوتے ہیں
پس خداوند کریم نےاپنے بندوں کوعقل کی نعمت سےنوازا جومعرفت کی طرف قد م بڑھانے کی
محرک اعظم ہے اوریہ خدا اوربندوں کے درمیان حجت باطنی ہے اوربندوں پر معرفت کا
لزوم اتنا ہے جس قدر ا ن کی عقل طاقت رکھتی ہو عنایت عالیہ الہیہ اوراس کی رحمت
واسعہ کا تقاضا یہ ہے کہ وہ بندوں کے لئے معرفت کے راستے آسان فرمائے تاکہ وہ عقل
کی روشنی میں آگے بڑھنے کے قابل ہوں پس اس نے انبیا و مرسلین اورخلفا ءمعصومین ک
انتظام فرمایا تاکہ وہ بندوں کو خالق کی شناخت کی دعوت دیں اور یہ باور کرائیں کہ
اس کی طرف ہماری باز گشت کا بھی ایک دن مقرر ہے جس کے لئے ہم کو زاد راہ مہیا
کرناہے نیز معارف ضرور یہ کی تحصیل پر جوا نسان کو توفیق حاصل ہوتی ہے وہ اسی کی
ہی عطا کردہ ہے چنانچہ وجود تندرستی نور عقل اورپھر بذریعہ وحی والہام یا تعلیم
انبیا وآئمہ اس کی بیداری و ہوشیاری کا انتظام اور عقل کو نفع و نقصان کے درمیان تمیز کا ملکہ اور خیروشر کے
درمیان فرق کی قوت یہ سب اللہ کی جانب سےمعرفت کے ذرائع ہیں پس احادیث میں معرفت
کا خدا کی جانب سے ہونے کا یہی مقصد ہے کہ ابتدائی اسباب و ذرائع قدرت و توفیق
اورتنبیہ وارشاد وغیرہ اسی کی ہی جانب سے ہوتے ہیں اورعلماکاکہنا کہ معرفت خدا
انسان کا فطری فریضہ ہے اس سے مراد توفیق و ارشاد کے بعد عرفان کی تفصیلی منازل کا
طے کرنا ہے یا یوں سمجھئے کہ اپنے مبداءو صانع محسن کاتصور قہری و فطری چیز ہے جو
اللہ کی جانب سےہے اور دلیل عقل سے حدیقین پہنچنا انسان کا فریضہ ہے جو غور وفکر
سے حاصل ہوتاہے ۔
عقل کے فرائض و خدمات
2 min read