التماس سورہ فاتحہ برائے والد بزرگوار،جملہ مومنین و مومنات،شھداۓ ملت جعفریہ ، خصوصاً وہ جن کا کوئی سورہ فاتحہ پڑھنے والا نہ ہو۔ یہاں کلک کریں

Search Suggest

ایمان کی حقیقت - علائم ایما ن

5 min read

ایمان کی حقیقت

اس جھگڑے میں پڑنے کی ضرورت نہیں کہ ایمان صرف تصدیق کرنے اور جان لینے کانام ہے یاکہ ایمان تصدیق اقرار و عمل کے مجموعہ کا نام ہے ہم اس سلسلہ میں وقت ضا ئع کرنے کے بجائے قرآن کی طرف رجوع کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ ایمان و عمل کا آ پس میں چولی دامن کا ساتھ ہے یا جسم و جان کا سا ربط ہے کیونکہ جہاں بھی مومنوں کےلئے پروردگار عالم نےانعامات اخرویہ کی بشارت دی تو وہاں ایمان و عمل صالح دونوں پر تفریع کی صورت میں اس کو ظاہر فرمایا چنانچہ پہلے ماہ میں ارشاد ہے بشرالذین امنو اوعملو الصالحات الآیت یعنی ان لوگوں کو بشارت جو ایمان کے ساتھ نیک عمل بجالائیں کہ ان کے لئے خدمت جنت ہیں جن کے نیچے نہریں بہتی میں الخ ساتھ زیور عمل سے آراستہ ہیں چنانچہ فرمایا والعصران الانسان لفی خسرالاالذین امنو اوعملو الصلحت الخ یعنی مجھے عصر کی قسم تحقیق انسان خسارہ میں ہے سوائے ان لوگوں کے جنہوں نے ایمان کےساتھ نیک اعمال کئے اور بالجملہ جب حضرت آدم علیہ السلام کو زمین پر بھیجا گیا توان کوا یک کلی حکم سنایا گیا جو کسی نبی کی شریعت میں منسوخ نہ ہو سکا چنانچہ فرمایا فاما یاتینکم منی ھدی فمن تبع ھدی فلاخوف علیھم ولا ھم یجزنون پارہ نمبر ع 1 یعنی تمہارے پاس میری طرف سے ہدایت نامہ پہنچے گا پس جس نے میری ہدایت کی اتباع کی تواس پر کوئی خوف و حزن نہ ہو گا اورجو لوگ ایمان کے دعوی کے بعداس کے مطابق عمل نہیں بجالاتے ان کے ایمان کو نہ ہو نے کے برابر قرار دے کر اشارہ فرمایا یاایھا الذین امنو اامنوا یعنی اے وہ لوگ جو ایمان کا زبانی دعوی کرتے ہو صحیح معنوں میں ایمان لے آو یعنی عمل کو دعوی کے مطابق بجالاو پس ایمان پرعمل و صالح کاعطف یاتو عطف تفسیری ہے اوریا اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ ایمان و عمل  میں لازم و ملزوم کی نسبت ہے جس طرح علم و عمل کے درمیان ہے مثالی کے طورپر جس شخص کوایک حیوان کے درندہ ہونے کایقین ہوتووہ قطعا اس کے قریب نہ جائےگا پس درندہ کہہ کر اس کے قریب جانا اور مقام عمل میں علم کی مطابقت نہ کرنااسکا صاف مطلب یہ ہےکہ یاتو وہ دیوانہ ہے اور یا یہ کہ اس کو یقین صحیح نہیں اسی طر ح ایک محبوب شئیے کا علم اورپھر اس سے گریزاں ہوناپس کہنا پڑے گا کہ یا علم کا دعوی غلط ہے یا عمل کرنے والادیوانہ ہے اسی بنا ہ  پر کہا جاتاہے کہ علم اور عمل دونوں ایک دوسرے کے بھائی ہیں اورلازم و ملزوم کی حیثیت رکھتے ہیں جیسا کہ مضمون احادیث بھی ہے اور اسی طرح ایمان والوں کو تقوی کا حکم دینا ایمان اور تقوی کی غیریت کی دلیل نہیں بلکہ ایمان کے مدارج میں سے ادنی سےاعلی کی طرف ترقی کرنے کا حکم ہے کیونکہ تقوی عمل کے اعلی مرتبہ کا نا م ہے اسی بنا پر حضرت امیر المومنین کو امام المتقین کا لقب حاصل ہے کہ وہ عمل کے بلند مرتبہ پرفائز ہونے والوں کے بھی پیش رو ہیں کہ عمل کے میدان میں کوئی بھی ان سے سبقت حاصل کرنے کا ہمت نہیں کر سکتا

علائم ایما ن

خداوند قدوس نے جو قرآن حکیم میں مومنین کے علائم بیا ن فرمائے ہیں ان میں ایمان کی حقیقت صاف طور پر منکشف ہے چنانچہ سورہ انفال کی آیت ع 2 میں ارشاد ہے۔ اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ الَّذِیْنَ اِذَا ذُكِرَ اللّٰهُ وَ جِلَتْ قُلُوْبُهُمْ وَ اِذَا تُلِیَتْ عَلَیْهِمْ اٰیٰتُهٗ زَادَتْهُمْ اِیْمَانًا وَّ عَلٰى رَبِّهِمْ یَتَوَكَّلُوْنَۚۖ(۲)الَّذِیْنَ یُقِیْمُوْنَ الصَّلٰوةَ وَ مِمَّا رَزَقْنٰهُمْ یُنْفِقُوْنَؕ(۳)اُولٰٓىٕكَ هُمُ الْمُؤْمِنُوْنَ حَقًّاؕ-لَهُمْ دَرَجٰتٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ وَ مَغْفِرَةٌ وَّ رِزْقٌ كَرِیْمٌۚ(۴)

ترجمہ بجز اس کے نہیں کہ مومن وہی لوگ ہیں کہ جب اللہ کا ذکر آئے تو ان کے دل کانپ جائیں اوران پر اس کی آیات کی تلاوت ہوتو ان کا ایمان زیادہ ہو اوروہ اپنے رب پر توکل رکھتے ہوں اور انما کلمہ حصر شروع میں لگا کر اس بات کوزیادہ ناقابل تاویل بنا دیاکہ مومن وہی ہے جس میں یہ علائم موجود ہوں

1.     اللہ کا ذکر سے کانپ جانا یعنی دل کا اس کی عظمت کے سامنے جھک جانا

2.     اس کی آیات سے ایما ن میں زیادتی

3.     توکل

4.     نماز کا قائم کرنا

5.     حقوق الیہ کا ادا کر نا

اورآخر میں پھر اسی حصر کو صراحت کے رنگ میں تاکیدی لہجہ فرمایا اورمبتدا ءو خبر کے درمیان ضمیر فصل کو لا کر پھر حصر کر کے فرمایا بس یہی لوگ ہی مومن ہیں جن میں متذکرہ بالا موجود ہوں اور آخر میں حقا کا اضافہ پھر مزید تاکید کے لئے ہےا ور اس امر کی طرف اشارہ ہے کہ ان اوصاف سے عاری ہو کراگر کوئی اپنے تئیں مومن کہتا ہو تو وہ صرف لسانی اورزبانی مومن ہے اللہ کے نزدیک سچ مچ اورحق مومن وہ ہے جس میں متذکرہ اوصاف موجود ہوں اورآخر میں ارشاد فرمایا لھم درجات یہاں پھر جارو مجرور کا تقدم اسی حصر کو ظاہر کرتا ہے کہ اللہ کے نزدیک درجات صرف انہی لوگوں کے لئے ہیں اور مغفرت اوررزق کریم بھی انہی لوگوں کے لئے مخصوص ہے اورجن میں یہ اوصاف نہ ہو ں نہ سچ مچ مومن ہیں اور نہ ان انعامات  و اکرامات کے حق دار ہیں پس ان آیات نے تو صاف و صریح کہہ دیا کہ عمل کے بغیر ایمان کا دعوی  بالکل کھوکھلا اور بے حقیقت ہے اور احادیث معصومین اس بارہ میں بالتواتر موجود ہیں ہم نے تفسیر انوارلنجف کی چھٹی جلد میں انہی آیات مجید  کی تفسیر میں بہت کچھ احادیث نقل کی ہیں یقینا وہ شخص بیمار نہیں جس میں بیماری کی کوئی علامت موجود نہ ہو اسی طرح وہ شخص تندرست نہیں جو بیماری کی متعدد علامتوں میں گھرا ہوا ہو اسی طرح یہ بات واضح ہے کہ کفر علامتوں سے پہنچانا جاتا ہے ورنہ کسی کے ماتھے پر ہرگز لکھا ہوا نہیں ہوتا کہ فلاں کافر ہے پس انصاف یہ ہے کہ اگر علامات کفر سے کافر کا یقین ہوتا ہے او ر اسے واجب القتل بھی انہی علائم کی بنا پر سمجھا جاتا ہے تو کوئی وجہ نہیں کہ مومن کو بغیر علامات کے مومن سمجھا جائے اور جس طرح ایمانی صفات کی موجود گی میں کسی کو کافر نہیں کہا جاسکتا تو تما م کفر والی کی صفتوں کے باوجود کسی کو مومن کیسے کہا جائے گا َ

ایک تبصرہ شائع کریں