التماس سورہ فاتحہ برائے والد بزرگوار،جملہ مومنین و مومنات،شھداۓ ملت جعفریہ ، خصوصاً وہ جن کا کوئی سورہ فاتحہ پڑھنے والا نہ ہو۔ یہاں کلک کریں

Search Suggest

بیماری اور اس کا علاج

10 min read

ہماری قوم مدت سے دو جان لیوا بیماریوں کا ہدف رہی ہے اگر علمائے اعلام پا مردی سے جم کر اس کی حفاظت میں قدم آگے نہ بڑھائیں تو بہت ممکن ہے کہ دو بیماریں قوم و ملت کی ناو کو ڈبو دیں اور وہ یہ ہیں

۱۔     زعمائے مذہب کی دعوت و ارشاد سے اغماض و چشم پوشی اور بندگان خدا کی نصیحت سے کوتاہی

دشمنان دین کو ہد مدین کے لیے ہمہ تن کو شش پہلی بیماری کا علاج چار طریقوں سے ہو سکتا ہے

۱۔ منبر، ۲۔ مصلی، ۳۔ درس و تدریس ۴۔ قلم

پہلا طریقہ

اب سب میں سے موثر ترین اور آسان طریقہ پہلا ہے اور ظاہر ہے کہ ہمارے ہاں یہ ذریعہ تبلیغ کا ف یعرصہ سے کالعدم ہے کیونکہ منبر پر نا اہل افراد کا تسلط ہے اور ایسے لوگ اس منبر پر سوار ہں جن کی شکل و صورت اور عمل و کردار سب سب دین سے بیگانہ ہے اور کے پورے وجود سے ہر وقت دین دشمنی کا دھواں  ہی اٹھتا رہتا ہے اور جلوت و خلوت میں دشمنی دین ان کا اوڑھنا بچھونا ہے اگر اہل بھی منبر پر جا پہنچے تو اکثر منبر کے ٹھیکہ داروں کے رویہ سے متاثر ہر کر دین کے اصولوں ر ثابت رہنا ان کو بھی نصیب نہ ہوا اور بہت جلد خس و خاشاک کی طرح اسی سیلاب میں بہہ گئے پس کلمہ حق کو آواز نصیحت و خیر خاہی کی صدا و اور تبلیغ احکام دین کا بیان منبر سے رخصت ہو گیا اور منبر کی آواز نصیحت و خیر خواہی کی صدا اور تبلیغ احکام دین کا بیان منبر سے رخصت  ہو گیا اور منبر ان لوگوں کا کھلونا بن کر رہ گیا جو پیشہ و رانہ طور پر اس کو استعمال کرتے چلے آئے انہیں کلمہ حق کہہنے کی ضرورت ہی کیا ہے جو خود کلمہ حق کو اپنی پیشہ ورانہ زندگی کے لیے پیغام موت کے  مترادف سمجھتے ہوں مدت سے عوام  کا کان انہی لوگوں کے بیانات کے عادی بن گئے تو اب ان کے لیے کلمہ حق ایک تلخ گھونٹ ہے سوچنا پڑتا ہے کہ کیا منبر کی بے کسی کو رویا جائے تو عوام کے طور و طریقہ پر ماتم کیا جائے یا دین کا لبادہ اوڑھ کر دین کی جڑوں کو کھوکھلا کرنے والوں کی خود فریبی پر آنسو بہائے جائیں ؟ ایسے لوگوں کا تذکرہ ہی فضول ہے جو اعلانیہ فسق و فجو کے ااارکتاب کو باعث فخر سمجتھے ہین اور منبر کو عیاشی کا اکھاڑہ سمجھ کر تضحیک دین کا موجب بنتے ہیں یہ درد گننے سے ختم نہیں ہوتے بلکہ طوفان کی صورت میں ان کا سلسلہ ذہن کے لیے ایک  مسلسل پریشانی  کا موجب بنتا جا رہا ہے بس محافظین دین کو ہمت ہارنے کے بجائے میدان جہاد میں اتر آنے کی ضرورت ہے اور جس حد تک ہو سکے منرب کی لاج رکھنے اور اس کے تقدس کے عہد قدیم کی یاد تازہ کرنے کے لیے مسلسل جدوجہد اور محنت و کاش کی ضروت ہے

دوسرا طریقہ

منبر کے غلط اور ناجئز استعمال نے نصحت اور تبلیغ کے دوسرے طریقہ  کو مفلوج بنا کر رکھ دیا ہے کیونکہ منبر کا تقدس جب ختم ہو گیا تو مصلی کی ہمیت کود بخود نظروں سے غائب ہو گئی مصلی پر ٓنے کے لیے قسم قسم کی پابندیں کو اپنے اوپر عائد کرنے کی ضرورت تھی پس دیکھا دیکھی سے ہر ایک   نے منبر کی طرف للچائی ہوئی نظروں سے دیکھا اور جس کو توفیق ملی وہ منبر پر جا کو دا  نیز مصلی پر جانے کے لیے کچھ شرائط تھیں اور منبر کو شرائط سے خالی دیکھا پس ہر نا اہل کی طبیعت و قار کی خاطر یا ٓمدنی کے لالچ میں اس کی طرف مائل ہو گئی پس  یہ دوڑ دھوپ اور پس و پیش منبر اور مصلی کے درمیان ایک اچھی خاصی رسہ کشی کا موجب بن گئی اب اگر مصلی والے اصلاحی قدم اتٹھائیں  بھی تو منبر والے اسے اپنی تو ہین سمجھنے لگتے ہیں اور اعلانیہ منبروں پر اسے کوستے ہیں پس وہ مجبور ہو جاتے ہیں کہ منبر والوں کے رنگ میں اپنے آپ کو رنگ کہ زندگی کے سانس گزاریں کیونکہ اگر وہ اپنے رویہ و نظریہ پر ڈٹ کر رہیں تو عوام الناس  جو منبر کے دلدادہ ہیں وہ ان کی اقتداءچھوڑ بیٹھتے ہیں اور آخر کار مصلی سے ان کو فارغ کر دیا جا تا ہے اور ایسی قوم کی حالت زار پر جس قدر ماتم کیا جائے کم ہے جس میں  اچھے اور برے کے درمیان تمی ز کا مادہ ہی ختم ہو جائے اور حضرت امیر علیہ السلام فرط حسرت میں بیان ک فرماتے تھے کہ شام والے اپنے امام کو نا حق اور غلط کار سمجھنے کے باوجداس کے وفادار غلام اور اطاعت گزار رعیا ہیں لیکن اے کوفہ والو تم  مجھے امام برحق  اور ہادی حق نما سمجھے کے باوجود بھجی میری اطاعت اور فربرداریوں سے گریز کرتے ہو ت آج کل معمالہ بالکل وہی ہے غلط کار اہل منبر کے تمام کرتوت اور آورگیان سننے سمجھنے ، جاننے  اور باور کرنے کے باوجود ان کے ساتھ وفاداری میں کوئی کمی نہی ہویت اور نیک و صالح پیش نماز کی شرفات و دیانت کے اقرار کے باوجود اس کی شنوائی و پذیرائی نہیں

تیسرا طریقہ

بفضل خدا جب سے پاکستان معرض وجود میں آیا ہے اہل دل حضرات نے مدارس دینیہ کے قیام کی ضرورت محسوس  کی اور دیکھتے ہی دیکھتے چند ایک مدراس کا قیام عمل میں لایا گیا تاکہ تدریسی خدمت سے قوم کو خضتہ افراد کو جگایا جا سکتے اور بفضل  پر دوردگار نتیجہ نہایت اچھا نکلا اور تھوڑے عرصہ میں پڑھے لکھے لوگوں کا یاک طبقہ میدان میں آگیا اور زبان پر حق کوگئی کھل کر آگئی لیکن منبر والے قوم کی اس ترقی کو برداشت نہ کرسکے انہیں صرف یہی احساس بے تاب کئے جا رہا ہے کہ قوم پر اگر وعظ و نصحیت کار گر ہو گیا تو ہماری آمدنیوں میں معتد بہ کمی کا واقع ہونا لازمی ہے نیز ممکن ہے کہ کسی وقت قوم ہمارا محاسبہ کرنے لگ جائے لہذا منبروں پر کھل کر علمائے مدرسین کو برا بھلا کہنے کے لئے طائع آزما حضرات کی ایک ٹولی آ گئی کسی نے کہا مدارس دینیہ میں  بے دینی کی تعلیم ہوتی ہے وہی الٹا چور کوتوال ہیں اور یہ صرف اس لئے تاکہ علماءکو بد نام کر کے اپنی اعلانیہ بدکاریوں اور دھاندلیوں پر پردہ ڈالا جائے کسی نے کوئی الزام عائد کیا کسی نے کوئی تہمت لگائی اوریہ سب کچھ ایک سوچی سمجھی سکیم کے ماتحت ہے کہ منبر کے تقدس کا سوال نہ اٹھایا جائے اورہمیں بے راہ  روی سے نہ روکا جائے پچھلے سالوں میں علمائے اعلام کو منبروں پر لوگوں نے گالیاں دیں لعن و طعن کیا اور سب وشتم کیا علماءکی توہین و تذلیل کے لئے نظمیں گائی گئیں اور علماءکی ہجو کی نظموں کو قصیدہ کا مقدس نام دیا گیا لیکن ہمیں گانے والوں پر کوئی گلہ نہیں کیونکہ ان  کی کسب معاش کا ذریعہ ہی صرف گانا ہےاور وہ اہل بیت کے ذکر کی آڑ میں اپنے کسب کو فروغ دینے کے متمنی ہوتے ہیں خدا کرے وہ اپنی اصلاح پر موفق ہوجائیں ہمیں تو افسوس ان لوگوں پر ہے جو حقیقت کو سمجھتے ہیں بہر کیف مدارس دینیہ کے خلاف کا فی آوازے کسے گئے اوراوچھے حربے استعمال کئے گئے لیکن بحمد اللہ علماءنےاپنے اپنے مقام پر ہفوات متجاہلانہ پر کان دھرے بغیر نہایت صبر و سکون سےاپنے کام کو جاری رکھا اور محمد و آل محمد کے علوم کی ترویج کی سعی بلیغ میں کوتاہی نہ برتی جس کی بدولت حملہ آور زبانیں خود بخود ہوتی گئیں اورمدارس دینیہ کے وقار کو کوئی صدمہ نہ پہنچ سکا

چوتھا طریقہ

کافی عرصہ تک ہماری قوم کے ذمہ دار افراد نے تبلیغ دین کے اس مقدس ذریعہ سے پہلو تہی اختیار کی جس سے غیر ذمہ دار افراد کے حوصلے بڑھے اور انہوں نے مذہب کو غلط حلیہ میں پیش کر کے عوام کے اذہان کو مودف کرنا شروع کیا اس ضمن میں عقائد مذہب حقہ خاص طورپر متاثر ہوئے چنانچہ بعض ایسی باتوں کو جزو مذہب سمجھ لیا گیا جن کو حقیقت مذہب سے دور تک کا بھی واسطہ نہ تھا اور ایسی چیزیں غیر ضروری سمجھ لی گئیں جن کی ٖضرورت کا انکار کفر صریح ہے اور اس بے راہ روی نے علماءکو للکارا چنانچہ بفضل خداوندی اہل قلم نے قلمی خدمات پیش کرنا شروع کیں تاہم میری دانست میں عقائد ملت جعفریہ کی وضاحت کے لئے ایسی کتاب کی ضرورت باقی رہی جو عوام کے اذہان کے مطابق ہو اور ان کو طبائع کے لئے قابل قبول ہو خدا وند کریم مجھے توفیق سدید مرحمت فرمائے تاکہ میں اس اہم ترین خدمت مذہب کوا نجام دے سکوں اس ضمن میں یہ بات واضح ہوگئی کہ عوام کا ذہن اس قدر شستہ نہیں کہ عقل سلیم سےو ہ ہر اصول و عقیدہ کو خود سمجھ سکے وہ ایک نرم کو نپل کو طرح ہوا کے رخ کے ساتھ مڑ جانے کو تیار ہوتاہے لہذا مذہب حقہ کے اصول جن کو دلیل و برہان سے سمجھنا ضروری ہے ان کا قرآن و حدیث کی روشنی میں پختہ بیان سے پیش کیا جانا لازمی ہے تاکہ کورانہ تقلید سے پیدا شدہ توہمات و شبہات کا قلع قمع ہوجائے اصول میں تقلید کے حرام ہونے کامقصد یہ ہے کہ اصول کو بلا دلیل مان لینا درست  نہیں بلکہ دلیل کامطالبہ ضروری ہے جس سے عقل سلیم مطمئن ہو جائے اور فروغ میں تقلید کے وجوب کایہ مقصد ہے کہ مجتہد کے فتاوی کو اس سےدلیل طلب کئے بغیر تسلیم کرلینا او ر اسے واجب العمل سمجھنا ضروری ہے اور یہ بات بھی ذہن نشین کر لینی ضروری ہے کہ اصول کو دلیل سے جاننے کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ ہر انسان علم کلام کا ماہر ہوجائے لیکن اس کے برخلاف یہ بھی جائز نہیں کہ  دین کا معاملہ میں لوگ صرف ماں باپ کے مقلد بن کر رہ جائیں اور ان کا اساس مذہب او راصول و عقائد صرف ایسے چند کلمات ہوں جن کامعنی وہ خود بھی نہ سمجھتے ہوں بلکہ ان دوحدوں کے درمیان ایک ایسا راستہ موجود ہے جو بفضل خدا نہایت آسان اور نفع رسان ہے اور انشاءاللہ ہم اسی کو سمجھانے کی کوشش کریں گے اور یہی بات اس کتاب میں مقصود ہے افسوسناک صورت حال دین جب داخلی انتشار میں مبتلا ہوا توا س پر بیرونی حملہ آوروں کی فوجیں امڈ پڑیں ادھر محافظین دین میں تساہل نموداہوا اوار انہوںنے قوم کی رسی اس کی گردن پر ڈال کر اسے شتر بے مہار کی طرح چھوڑ دیا تو ان کے پاس دین صرف لفظی جمع خرچ کا نتیجہ بچ گیا دامن میں سنی سنائی باتیں رہ گئیں دل دینی عقائد کی بہار سے اجاڑ بن گئے اور جو کچھ عقیدہ موجود تھا عمل نے  اس کا ساتھ دینے سے انکار کر دیا پس قوم کی حالت کس مپرسی سے دشمن نے فائدہ اٹھایا اور شکوک و شبہات کی فوجیں لے کر وہ آدھمکا خصوصا مغربیت کی مسموم فضا نے کافی حد تک کامیابی حاصل کر لی اور اکثریت دین سے باغی ہونے لگ گئی دلوں کے میدان جیت لئے گئے اور راہ مستقیم سے بہت سوں کو پھسلالیا گیا خلاصہ یہ کہ ایک طرف تو دین کی کمزوری اپنوں کی بے راہ رویوں کے باعث رونما ہوئی اور دوسری طرف اغیار کی چرب لسانی اور سبز باغات کی نمائش اس کی موجب بنی اور ایسے بے ہود قسم کے افراد منتظر عام پر آگئے جو سادہ لوح انسانوں کو شک میں ڈالنے اور خواص کو پریشان کرنے کے لئے قرآن و حدیث کے متشابہ مقامات سےکھیلنے لگ گئے اور قسم قسم کے رسوا کن اور توہین آمیز بہتانوں او ر اوچھے و ناپاک ہتھکنڈوں کی بدولت شریعت حقہ اور ملت بیضا کے مقدس چہرہ کو داغدار کرنے کی ناپاک کوششوں میں مصروف ہوگئے پس سوچنے کی ضرورت محسوس ہوئی کہ ان کے اعتراضات و شبہات کا فردا فردا جواب دیاجائے تاکہ ملت حقہ کے مقدس اصولوں پر ناروا حملوں کی روک تھام ہو سکے اور شریعت مقدسہ کے پاک دامن سے حملہ آوروں کے ناپاک چھنیٹے دھل جائیں پھر خیال پیدا ہوا کہ اعتراضات و شبہات کا دائرہ وسیع سے وسیع تر ہو سکتا ہے بہتان و افترا پر دازی اور جھوٹ کے ظلمانی سمندر کا تو کوئی کنارہ ہی نہیں لہذا ان سوالات و جوابات کے چکر میں پڑنا شاید چند ان سود مند نہ ہو آخر کار تائید غیبی اور عنایت خدا وندی سے یہ نظریہ ذہن میں آیا کہ پرندوں کو مارنے اور اڑانے سے درخت کو جڑ سے نکال دینا ہی بہتر ہے کیونکہ تحقیق حق خود بخود ابطال باطل کے لئے کافی و دانی ہے نیز بنیادوں کا استحکام مکان کی پختگی کا خود ضامن و کفیل ہوا کر تا ہے پس میں نے   اس نظریہ کو آخری فیصلہ کی حیثیت دے دی اور عقائد حقہ کی وضاحت کا بیڑا اٹھا یا تاکہ افراط و تفریط کی وادیوں میں گم گشتہ افراد صراط مستقیم پر چلنے میں آسانی محسوس کریں خدا سےدعا مانگتا ہوں کہ وہ میرے لئے یہ مرحلہ آسان فرماتے دے وھو الموفق المعین

ایک تبصرہ شائع کریں