کبھی کسی دور میں شعور و بیدار مغز افراد نے علم کے کمال کا انکار نہیں کیا اور ناقص کا اپنے مرض پرا ترانا اس زمانہ کی نیر نگیوں میں سے سمجھئے چنانچہ جاہل علماءکے سامنے اپنی جہالت کو مایہ فخر سمجھتے ہیں بلکہ علما ءکی توہین و تذلیل کواپنا قابل فخر کا رنامہ تصور کرتے ہیں اور اپنی بد اعمالیوں پرپشیمان ہونے کے بجائے صاحبان عمل کے اعمال کو معرض طعن وتشنیع قرار دینے میں ذرا بھر شرم محسوس نہیں کرتے بہرکیف علما کے لئے اگرچہ یہ مرحلہ انتہائی صبر آزما بلکہ حوصلہ شکن ہے تاہم پامردی سےان حالات کا مقابلہ کرنا اور اپنے فرائض کو خوش اسلوبی سے نبھانا علماءکی ہی شان ہے کیونکہ انہی کو ہی تبلیغ انبیا کا صحیح وارث کہاگیا ہے بحار الانوار جلد 1 میں معصوم سے مروی ہے کہ لوگوں کی چار قسمیں ہیں ۔
1. ایسے
لوگ جو نہیں جانتے اور اپنے نہ جاننے کو بھی نہیں جانتے یہ جاہل مرکب ہیں ان کے
سیکھنے کی امید نہ رکھو
2. وہ
لوگ جو نہیں جانتے لیکن اپنےنہ جاننے کو جانتے ہیں ایسے لوگ راہ گم گشتہ ہیں ان کو
ہدایت کرو
3. وہ
لوگ جو جانتے ہیں اور اپنے جاننے سے غافل ہیں گویا یہ خواب رفتہ ہیں ان کو بیدار
کردو
4. وہ
لوگ جو جانتے ہیں اور اپنے جاننے سےباخبر ہیں پس ایسے لوگ ہادی ہیں اور ان سے ہدایت حاصل کرو
عوام میں پہلی قسم او رخواص میں
تیسری قسم یعنی وہ پڑھے لکھے حضرات جو فریضہ علمی کو پس پشت ڈال کر دنیا کے پیچھے
پڑ چکے ہیں کی بہتات ہے پس پہلی قسم ایسے جاہل مرکب لوگوں کی ہے جو علما ئے اعلام
کی بگڑی اچھالنا اوردوسروں کو بھی آمادہ کرنا اپنی دینی خدمت اورجہاد سمجھتے ہیں
او ربہت کم ایسے ہیں جو علمائے عاملین سے میل جول رکھنا اور ان سے معالم دینیہ
حاصل کرنا اپنے لئے باعث نجات و فلاح سمجھیں میں تو سمجھتا ہوں کہ اتنا بھی غنیمت
ہے کیونکہ انبیا سابقین کی تاریخ کا مطالعہ تو یہ ظاہر کرتا ہے کہ بعض نبیوں کو
ایک آدمی بھی ایسا نہیں ملا جوان کی بات سنتا ہو علم خدا وندقدوس کی جانب سے ایسی
لازوال اور پر شکوہ نعمت ہے جس کا کوئی نعمت مقابلہ کر سکتی ہی نہیں اسی لئے
تواپنے حبیب کو دعا بھی یہی تعلیم فرمائی قل رب زدنی علما اے رب میرے علم کوزیادہ
کراور آدم کی ملائکہ سے برتری کا معیار بھی قرآن مجید نے علم ہی کو پیش کیا اور
طالوت و جالوت کے قصہ میں خلافت ربانیہ کا معیار و مدار بھی علم ہی کو قرار دیا
گیا اورقرآٓن نے اپنے اچھوتے اندازمیں علم کی عظمت کوان جامع کلمات میں ظاہر کیا
ھل یستوی الذین یعلمون والذین لا یعلمون یعنی کیا علم رکھنے والے اوربے علم برابر
ہو سکتے ہیں استفہام انکاری کے لہجہ میں عظمت علم کی مسلم حیثیت کو ظاہر کرنا
مقصود ہے اور قرآن مجید میں کئی اور اشیا کا تقابل بھی بیان کیا گیا ہے مثلا طیب
وخبیث بینا و نا بینا نور و ظلمت اور سایہ و دھوپ اور استفہام انکاری کے رنگ میں
کہا گیا کہ کیا وہ اوریہ برابر ہیں اور اگر نظر غائر سے تجزیہ کیا جائے تو نتیجہ وہی علم و جہل ہی نکلتا ہے یعنی طیب بینائی ظلمت
اور دھوپ جہل کے ترجمے ہیں اور تمام انبیا کے لئے اپنی اقوام برعکس خباثت نا
بینائی ظلمت اور دھوپ جہل کے ترجمے ہیں اورتمام انبیا کے لیے اپنی اقوام کے سامنے
ان کا علم ہی کو پیش فرمایا اور حضور نے مقام تعارف میں اپنی ذات کو علم کا شہر
اور علی کو اس کا درقرار دیا شہید ثانی
اعلی اللہ مقامہ نے منیتہ المرید میں بہت کچھ حدیثیں علم علماءاور متعلمین کی شان
میں جمع فرمائی ہیں چنانچہ حدیث نبوی میں ہے کہ فضل العالم علی العابد سبعین درجتہ
بین کل درجتین حضر االفرس سبعین عاما و ذالک لان الشیطن یضع البدعتہ للناس فیبصر
ھا العالم فیزیلھا والعابد یقبل علی
عبادتہ
ترجمہ عالم عابد سے ایسے ستر
درجات کی بلندی پر ہے کہ ہر دو درجات کے درمیان تیز دو گھوڑے کا ستر سال کا سفر
ہواور یہ اس لئے شیطان لوگوں میں بدعات کی نشر و اشاعت کرتا ہے اور عالم ان بدعات
کو مٹاتا ہے اور عابد تو صرف عبادت کی طرف ہی متوجہ رہتا ہے یعنی عالم اپنی اصلاح
کے ساتھ لوگوں کی اصلاح کا بھی کفیل ہے اور عابد صرف اپنی اصلاح کا ہی ضامن ہے
بلکہ عابد کی عبادت بھی عالم کی ہی رہنمائی سے مقام قبولیت تک پہنچ سکتی ہے۔ امالی
صدوق سے حدیث نبوی میں منقول ہے کہ ایک مومن اگر ایک ایسا ورقہ چھوڑ کر مرے جس پر
علمی مطالب تحریر ہوں تو وہی ورقہ بروز
محشر اس کے اور جہنم کےدرمیان حائل ہو جائے گا اور اس کے ہرہر حرف کے بدلہ میں خدا
اس کو ایک ملک عطا فرمائے گا جو پوری دنیا سے سات گنا بڑا ہوگا او رکافی شریف میں
حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام منقول ہے کہ وہ عالم جس کے علم سے فائدہ اٹھایا
جائے وہ ستر ہزار عابد سے افضل ہے اور تفسیر برہان میں حضرت امام حسن عسکری علیہ
السلام سے مروی ہے کہ آئمہ کے بعد جنت کے بلند ترین مقام پر علما ءصالحین ہی فائز
ہوں گے اور ہم نے مقدمہ تفسیر انوارالنجف میں اس
قسم کی احادیث کو مٖفصلا تحریر کیا ہے پس علما ءعاملین کو عوام کی ہنگامہ
آرائی سے مرعوب نہیں ہونا چاہئے بلکہ پورے اطمینان سے انہیں طاہییے کہ اپنے فریضہ
تبلیغ کو نبھائیں زبان سے یا قلم سے جس قدر ممکن ہو خدمت علم او راصلاح خلق میں
کوتاہی نہ کریں آخر شیطانی جال تار عنکبوت بن کر ٹوٹیں گے اور آخری زمانے کے
لوگوں کے حالات کےبارے میں یہ بھی منقول ہے کہ معروف منکر ہو گا اور منکر معروف ہو
گا اہل باطل کی زبان دراز نہ ہو گی اور اہل حق کی زبان پر مہر خاموشی ہو گی نااہل
منبر پر سوار ہوں گے یہ زمانہ ان تمام خوابوں کی بولتی ہوئی تعبیر ہے اور یہ بھی
تو ارشاد ہے کہ بروز قیامت تین چیزیں شکوہ لے کر پیش ہونگی مسجد قرآن اور عالم
مسجد کواپنے نمازی نہ ملنے کا شکوہ ہوگا قرآن کو قاری نہ ملنے کا اور عالم کو
سیکھنے والوں کی کمی کا شکوہ ہو گا اور موجودہ فضا تو اس سے بھی کہیں آگے بڑھ گئی
ہے عالم کو صرف یہ شکوہ نہیں کہ مسئلہ کوئی نہیں پوچھتا بلکہ رونا توا س بات کا ہے
کہ جاہل اس بات پر مصر ہیں کہ علماءہم سے دین سیکھیں حتاکہ علما ءکے لئے جان
چھڑایا مشکل بن گیا ہے دین کی مظلومیت اس
سے بڑھ کر اور کیا ہو گی کہ دین کے اعلانیہ دشمن دین کی پاسبانی کا دعوی کریں
طہارت کا مفہوم خود نہ سمجھنے والے علما ی سےمسائل طہارت میں الجھنیں نماز سے خود
بے خبر ہونے کے باوجود نماز کا طریقہ علماءکو بتانے پر مصر ہوں عقائد حقہ سے کوسوں
دور ہوتے ہوئے علماءکے عقائد کی اصلاح کا علم بلند کریں وعلی مثل ذالک فلینک
الباکون۔