التماس سورہ فاتحہ برائے والد بزرگوار،جملہ مومنین و مومنات،شھداۓ ملت جعفریہ ، خصوصاً وہ جن کا کوئی سورہ فاتحہ پڑھنے والا نہ ہو۔ یہاں کلک کریں

Search Suggest

شیعہ قوم کی زبوں حالی

3 min read

یہاں تک  تو اسلام کی عمومی حیثیت کا روناتھا جس کی تعلیم ظاہرا و باطنا عمل و عقیدہ کے لحاظ سے روز بروز مسخ ہوتی چلی جارہی ہے سچ پوچھئے تو اسلام برائے نام ہی رہ گیا ہے البتہ دنیا کے گوشوں میں اللہ والے بھی موجود ہیں جو باوجود نامساعد حالات کے اسلامی تعلیمات اور قرآنی فرمائشات کو بصد احترام سینے سے لگائے ہوئے اپنے دل میں ایمان و یقین کی شمع فروزاں کئے ہوئے ہر مشکل و مصیبت کو سینہ تن کر مقابلہ کرتے ہوئے اور ہر قسم کے طعن و تشنیع کو برداشت کرتے ہوئے لمحات زندگی کو مرضات خداوندی کے ماتحت پورا کرنے کاعہد کئے ہوئے ہیں جن کی بدولت عالم ہستی زیور بقاءسے آراستہ ہے اور اہل عالم عذاب خدا وندی سے محفوظ ہیں میں اسلام کے اس عمومی ماتم سے آگے بڑھتا ہوں اور نظریہ بیان کے وہ نکات پیش کرتا ہو ں جو قطرات باراں کی طرح آسمان فکر سے لوح ضمیر پر برستے ہوئے قلم کو لکھنے پر زبان کو بولنے پر اور انگلیوں کو کاغذی میدان میں دوڑنے پر مجبور کرتے ہیں جہاں تک میری معلومات کا تعلق ہے غالبا ہر حساس ذہن کو یہ بات کھٹکتی ہوگی کہ جس طرح اقوام عالم میں مسلم قوم مجموعی طور پر گراوٹ اور پستی کی طرف روز افزوں مائل ہے اسی نسبت سے مسلمانان عالم میں سے شیعہ قوم اپنی مذہبی خصوصیات سے بیگانگی اختیار کرتے ہو کر اس کی تعلیمات سے اصولا و فروعا متنفر بلکہ باغی ہے اسی طرح شیعہ مسلمان دنیا وی باوگولوں اورجذباتی جھکولوں سے متاثر ہو کر شعائر امامیہ اورعلائم شیعہ سے غافل بلکہ یکسو ہوتا چلا جارہاہے اب ہرشخص کے ذہن میں یہ بات سمائی ہے کہ مذہب کی حقیقت وہ ہے جس کو میں ہی سمجھتا ہوںاورغضب بالائے غضب یہ کہ بعض ایسے لوگ جن کو مذہب شیعہ کے معمولی اورچھوٹے سے چھوٹے فرعی مسکہ تک کی خبر نہیں وہ بڑے بڑے مذہبی اصولی مسائل کو اپنے نزدیک بدیہی کہہ کر بڑے بڑے اعلام مذہب کی تحقیر و تذلیل میں زبان کشائی کرتے نظر آتے ہیں اور طرہ یہ کہ جن لوگوں سے دین کو حاصل کرتا تھا ان کو بے دین کہہ کر اپنی بے دینی کو دین کا نام دینے میں فخر محسوس کرتے ہیں حتی کہ جب کسی شیعیت اس کے سینہ میں سمائی ہے اور مذہبی ورد سے اس کا دل بے چین ہے لیکن جب تجزیہ کرکے دیکھیں گے تو شیعیت برائے نام ملے گی اورمذہب کی حقیقت خواہشات نفس کا ایک پلندہ نظر آئے گا اوراصولا وفروعا اس کا ذہن مذہب حقیقی سے باغی ہو گا بلکہ اصول اس کے نزدیک وہی واجب التسلیم ہوں گے جن کو اس کےجذبات مقبولیت کی سند دیں گے یہ توہے تسلیم کا معاملہ باقی دینی عمل والی بات تو سر سے پیر تک اس کے پورے وجود میں شیعیت کا ایک نشان تک نہ ملے گا نہ شکل میں نہ لباس میں نہ وضع قطع میں اور نہ گفتار و کردار میں جیساکہ ایک روایت میں ہے کہ ایک زمانہ آئے گا۔

جس میں معروف منکر اورمنکر معروف بن جائے گا ایسے حالات میں جب مذہب آئمہ کی طرف اس کی رہنمائی کی جائے تو وہ فورا اپنی اصلاح کی بجائے رہنمائی کرنے والے بڑے سے بڑے عالم دین کو دین دشمنی کا خطاب دینے کی جسارت کر کے اسے اپنی دینی بیداری اور مذہب دوستی سمجھتے ہوئے فخر و مباہات کرتا نظر آتا ہے اوریہ وہ زمانہ ہے کہ اہل علم حقائق بیانی سے جھجھک محسوس کرتے ہیں اورعیار لوگ گذب بیانی پراتراتے نظر آتے ہیں اہل علم کی زبانوں کو حق بیانی سے روکا جاتا ہے لیکن اعلان باطل کرنے والے باچھیں کھول کھول کر ٹراتے ہیں اہل حق کی حق بات کو غلط انداز سے پیش کیا جاتاہے اور اہل باطل کی غلط باتوں کی تاویلات  کو قبول کرنے ہیں ذرا بھر قاتل نہیں ہوتا قوم کا نباض طبقہ قوم کی یہ زبوں حالی دیکھ کر شش و بیچ میں ہے اور اہل درد اپنے اپنے مقام پردم بخود ہیں یہ وہ حقیقت ہے  جس نے اس کتاب کی ترویج و اشاعت کی طرف عنان عزم کو موڑنے والی توجہ خاص کو مہمیز کیا ہے تاکہ عرش حکمت سے دائرہ نذیر اورآسمان تفکر پر نازل ہونےوالے ملفوف رموز و اسرار کو کھلی ہوئی تفسیر کےساتھ پیش کہا جائے اورحدیث میں ہے کہ جب بدعت عام ہو جائے تو عالم کواپنا علم ظاہر کرنا  چاہئیے اگر کوئی عالم عمدا ایسا نہ کرے گا تواس پر اللہ کی لعنت ہو گی۔

ایک تبصرہ شائع کریں