اس وقت پورے ملک پاکستان میں ان کے فیوض و برکات کے قابل قدر اثرات موجود ہیں اور کوئی ضلع ایسا نہیں جہاں ان کے بحر علمی سے سیراب ہونے والے اور ان کے شجر فیض سے خوشہ چینی کرنے والے مشغول خدمت دین نہ ہوں ان کے تقدس کی بدولت ان کا ہر شاگرد ان کی خدمت کا شرف حاصل کرتے ہی ان کے رنگ میں اپنے تئیں رنگنے کی کوشش میں مصروف ہو جاتا تھا پھر حسب استعداد لیاقت ان کے تقوی کی جھلک ان کے شاگردوں میں موجود تھی عام طور پر فقہ و ادب کی تدریس پر زیادہ زور دیتے تھے آپ عربی زبان کے بلند پایہ شاعر بھی تھے چنانچہ امام شافعی کا ایک شعر انہوں نےا یک طویل عربی قصیدہ میں تضمین کیا تھا اور وہ شعر یہ ہے ان کان رفضا حت ال محمد فلیشھد التقلان انی رافض اگر آل محمد کی محبت کا نام رفض ہے تو بیشک جن و انس گواہ ہو جائیں کہ میں رافضی ہوں بہر کیف زبان عربی کے آپ لاجواب ادیب تھے اور فن طب میں بھی آپ کو کافی دسترس حاصل تھی لیکن انہوں نے تدریس تک ہی محدود رکھا کافی شاگردوں نے آپ سے فن طب پرھا جو بعد میں نامور طبیب ہوئے آپ کا حوزہ علمیہ چک نمبر 38 تحصیل خانیوال ضلع ملتان میں رہا جہاں دور دور کے لوگ کھچ کر ان کے چشمہ فیض سے سیرابی کے لئے حاضر ہوئے اس وقت وہاں منظم مدرسہ نہیں تھا بلکہ طلبہ کرام مسجد کے ایک کچے حجرہ میں ٹھہرتے تھے اورسادات و مومنین کے گھروں میں الگ الگ ان کے کھانے کا بندوبست ہوتاتھا تقریبا بیس برس یا کم و بیش انہوں نے چک نمبر 38 میں تدریس کی جہاں تک مجھے خیال پڑتا ہے 1925 سے 1940 تک وہاں رہے اور ا ن کے اکثر شاگرد اسی جگہ سے فیض یاب ہوئے اور 1945 سے 1966 تک بدہ رجبانہ میں مائی جندو ڈی سیال کی دعوت پر تشریف فرمارہے اس جگہ بھی کافی طلبہ نے ان سے استفادہ کا شرف حاصل کیا ان کی تدریس کا رنگ انوکھا تھا عبادت عربی طالب علم سے خود پڑھاتے تھے اور کسی عبارتی یا معنوی غلطی کو نظر انداز نہیں کرتے تھے جس کی بدولت ان کے شاگرد عربی عبارت پڑھنے میں بڑے مشاق ہوجاتے تھے اخلاق کریمانہ کا یہ عالم تھاکہ کبھی بلند لہجہ سے شاگرد کو جھڑکنا تک گوارا نہ کیا گالی گلوچ یا بد کلامی کا توا ن کے ہاں تصور ہی نہ تھا ہنس مکھی ان کا شیوہ تھا اور حضرت سید الشہدا علیہ السلام کانام لیتے ہی ان کا آنکھیں برسنے لگ جاتی تھیں اور جب جی چاہتا تھاوہ خود مصائب پڑھتے جاتے تھے اور روتے جاتے تھے بالجملہ وہ بہت سی خوبیوں کے مالک تھے جوگنوائی نہیں جاسکتیں
آپ کا حلقہ درس و تدریس
2 min read