التماس سورہ فاتحہ برائے والد بزرگوار،جملہ مومنین و مومنات،شھداۓ ملت جعفریہ ، خصوصاً وہ جن کا کوئی سورہ فاتحہ پڑھنے والا نہ ہو۔ یہاں کلک کریں

Search Suggest

قوم کا علما صالحین سے برتاؤ

5 min read

مجھے معلوم ہے اگر مذہب اوردین کی ضرورت اور اعمال صالحہ کی اہمیت اورآئمہ طاہرین کی سیرت کو پیش کیا جائے توایسے لوگوں کو غیر ذمہ دار افراد کے طعن و تشنیع کا نشانہ بھی بنتا پڑتا ہے اور افترا کا غیر متناہی سلسلہ  اور الزامات کی بوچھاڑ بھی ان پر ہوتی ہے اور قسم و قسم کے ہتھکنڈوں سے ان کو بدنام کرنے کی کوشش بھی کی جاتی ہے تاکہ حق بیانی کرنے والی زبانوں کو روکا جائے آج سے نہیں بلکہ یہ سلسلہ ہمیشہ ر ہا ہے اور ہر نبی کی امت کا یہی دستور رہا ہے کہ جب تک نبی خاموش رہے تو لوگ ان کو صاد ق امین و دیانت دار اور نیک سمجھتے رہے لیکن جب انہوں نے بحکم خدا ان کی غلطیوں کی اصلاح کی طرف قدم بڑھایا توقوم کے سیٹھ پادری یا چوہدری لوگ جو قوم میں ہر قسم کی بے راہ روی کے بانی و موجد یاسر پرست تھے انہوں نے نبیوں پر ہر گندہ کیچڑا چھالنے کی جسارت کی تاکہ ان کی اپنی  چوہدراہٹ کو ٹھیس نہ پہنچے

جب نو ح علیہ السلام نے اپنی قوم سے فرمایا لا تعبدوالا اللہ انی اخاف علیکم عذاب یوم عظیم سورہ ہود آیت 26 یعنی اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو ورنہ مجھے تم پر سخت عذاب کا خطرہ ہے توان کی تردید کے لئے عوام الناس نہیں بلکہ خواص اٹھ کھڑے ہوئے چنانچہ خدا فرماتا ہے فقال الملا ءالذین کفرو ا من قومہ ما نراک الا بشرا  مثلنا الآیتہ قوم کےسرداروں نے کہا جو کافرتھے ہم تو تمہیں اپنے جیسا بشر ہی سمجھتے ہیں گویا قرآن کی فرمائش کے مطابق کسی نبی اور رسول کی دعوت کی تردید کا بہانہ کفار کے نزدیک یہ تھاکہ آپ اگر رسول ہوتے تو بشر نہ ہوتے یعنی ان کے ذہن   میں بشر اور رسول کے درمیان منافات تھی اوریہی اعتراض حضرت رسالتماب پر بھی کیا جانے لگا کہ اگر آپ نبی ہوتے تو بشر نہ ہوتے تو خدا نے ان کو یہ نہیں فرمایا کہ تم بشریت کا انکار کر دو بلکہ فرمایا کھلے لفظوں میں کہہ دو انما انا  بشر مثلکم یوحی الی انما الھکم الہ واحد فمن کان یر جو القاءربہ فلیعمل عملاً صالحا ولا یشرک بعبادۃ ربہ احداً  پارہ 16 سورۃ کہف کہ واقعی میں تمہاری طرح کا بشر ہوں میرے اوپر وحی ہوئی ہے کہ تمہارا اللہ یعنی معبود صرف ایک ہے تو جس کو اللہ کی لقاءمطلوب ہو وہ عمل صالح بجا لائے اور عبادت پر وردگار میں کسی کو شریک نہ بنائے اور مقصد یہ ہے کہ رسالت اور بشریت ایک دوسرے کے منافی نہیں ہیں اگر کسی بشر پر اللہ کی وحی  ہو اور خدا اس کو عہدہ جلیلہ نبوت پر فائز کر دے تو اس میں کوئی قباحت نہیں بلکہ ہمیشہ سے ایسا ہی ہو تا چلا آیا ہے  پس میں باوجود بشر ہونے کے اللہ کا نبی ہوں صاحب وحی ہوں اور پیغام توحید لے کر آیا ہوں معلوم ہو تا ہے کہ ان کے مقرر اور خطیب ان کو ہمیشہ سے یہی باور کراتے چلے آئے تھے کہ نبی وہ ہوتا ہے جو بشر نہ ہو اور جب لوگوں کے اذہان میں یہ بات راسخ ہو گئی تو نبوت کی دعوت کو تھکرانے کے لیے ان بڑے بڑوں نے عوام کو اسی ہتھکنڈے سے گمراہ کرنا شروع کر دیا کہ دیکھو ہم رسول کا تو انکار نہیں کرتے اگر رسول ہو تا  تو ہم مان لیتے  یہ تو ہم جیسا بشر ہے پس عوام ان کے اشارہ پر رقص کرنے لگ جاتے تھے اور ان ک یاصلاح نبی اور رسول کے لیے درد سر بن کر رہ جاتی تھی

قوم مدین کی طرف جب حضرت شعیب مبعوث ہوئے تو ان کی تردید کے لیے بھی عوام نہیں بلکہ خواص اٹھ کھڑے ہوئے قال الملاءالذین کفروا من قومیہ لنخرجنک یا شعیب والزین امنوا معک من قریتنا  او لتعودن فی ملتنا (الایہ) پارہ 9 پہلی آیت  (ترجمہ ) سرداران قوم نے کہا  جو کافر تھے اے شعیب ہم تمہیں اور تیری   قوم کو اپنی بستی سے نکال دیں گے ورنہ ہمارے دین پر لوٹ آو۔

حضرت موسی کے متعلق فرمایا ثم بعثنا من بعد ھم موسی بایتنا الی فرعون و ملائہ سورہ اعراف آیت نمبر 103 پارہ 9 یعنی پھر ہم نے موسی کو فرعون اور اس کی قوم کے سرغنوں کی طرف بھیجا فرعون کی قوم کےسرغنے وہی لوگ تھے جو فرعون کے درباری اور خواص تھے جو اپنی چکنی چپڑی تقریروں کے ذریعے عوام کا لا نعام پر فرعون کی خدائی تسلیم کرا دیتےتھے اور فرعون کی خدائی پر وارد شدہ ہراعتراض کا جواب دیا کرتے تھے چنانچہ جب حضرت موسی نےاپنی رسالت کا اعلان کیا ور عصا کا معجزہ پیش فرمایا توفرعون خاموش رہا قال الملا ءمن قوم فرعون ان ھذا لسحر علیم سورہ اعراف آیت ع 109 قوم فرعون کے سرغنے درباری خطیب اوراس کی خدائی کے محافظ فورا بول اٹھے یہ تو ماہر جادو گر ہے تمام انبیا کی دعوت کایہی حال سے حتی کہ جناب رسالت مآب کی دعوت کو ٹھکرانے والے بھی وہی لوگ تھے جو دعوت سے پہلے آپ کو بہت نیک سمجھتے تھے لیکن دعوت کے بعد جادو گر اور مجنوں کا خطاب دینے لگ گئے جیسا کہ انبیا ماسلف کا قصہ قرآن مجید میں مذکورو مسطور ہے اورتمام تاریخی کتب شاہد ہیں کہ قوم یہود کے علماءحضرت رسالت مآب کے حلئیے اوران کی نشانیاں ازردئے تورات جانتے تھے اور انہیں آپ کی تشریف آوری اورعہدہ نبوت پر فائز ہونا صحیح طورپر معلوم تھااور بایں ہمہ انکار ڈت گئے جس کی بہت بڑی وجہ یہی تھی کہ ان کی آمدینوں میں معتدبہ روکاوٹ کا خطرہ تھااور انہیں یقین تھاکہ جو معقول آمدنی نبوت کے انکار سے ہمیں دستیاب ہوتی ہے مسلمان ہونے کے بعد اس سے ہاتھ دھونے پریں گے لہذا وہ جان بوجھ کر آپ کی تردید کرتےتھے اوراس کا معاوضہ عوام سے بہت کچھ بٹورتے تھے۔

ایک تبصرہ شائع کریں