اس سے پہلے میں کہہ چکا ہوں کہ
عمل وعلم و یقین کے بغیر ایک ناپائیدار اساس پر تعمیر شدہ محل کے مثل ہے اور علم و
عمل کےسوا اس بنیا د کی مثل ہے جس پر مکان نہ بنایا جائے اور اس کا مالک ہمیشہ زیر
آسمان گزر اوقات کرتاہو اس کے ساتھ ساتھ یہ جاننا بھی ضروری ہے کہ عقل فطری جب
عقل مستفاد کی منزل پر پہنچ کر علوم و معارف کے میدا ن میں قدم بڑھاتی ہے توا س
شمع بصیرت اور نور معرفت کو جب تک عمل کی پشت پناہی حاصل نہ ہو اس کی تگ و دو
محدود اوراس کی کدو کا وش محصور ہو جاتی ہے اور منزل مقصود تک رسائی سے پہلے ہی اس
کی ہمت ختم اورقدم لنگ ہو جاتے ہیں پس جس طرح علم و یقین عمل کی صحت کے کفیل ہیں
اسی طرح عمل صحیح نور عقل کی روشنی کو آگے بڑھاتے ہوئے علم و یقین کے اضافہ کا
پیش خیمہ ہوا کرتا ہے اوراس کی حسی مثال یو ں سمجھئے جس طرح تاریکی میں چلنے والا
انسان چراغ ہاتھ میں لئے ہوئے ہو تو وہ چراغ بے شک قدم بڑھانے کےلئے راہ کو روشن
کرتا ہے لیکن راستہ کی روشنی ایک حد تک محدود رہے گی پس جونہی عملی طور پر قدم اس
روشنی میں آگے بڑھےگا وہ روشنی منزل کی طرف آگے بڑھتی جائے گی پس روشنی کا وجود
عمل کو آگے بڑھانے کا موجب ہے اورعمل کا آگے بڑھنا روشنی کےآگے بڑھنے کا ضامن
ہے کیونکہ قدم کے نہ بڑھانے کی صورت میں جب چراغ آگے نہ بڑھے گا تو روشنی آگے کی
طرف کیسے بڑھ سکے گی
علم و عمل کا توافق و تعاون
1 min read