التماس سورہ فاتحہ برائے والد بزرگوار،جملہ مومنین و مومنات،شھداۓ ملت جعفریہ ، خصوصاً وہ جن کا کوئی سورہ فاتحہ پڑھنے والا نہ ہو۔ یہاں کلک کریں

Search Suggest

مقدمہ کتاب - ضرورت دین

7 min read

اس میں کوئی شک و شبہ کی گنجائش نہیں کہ اگر عقل و خرد کے فیصلے کو تسلیم کرتے ہوئے علائق شہوانیہ سے قطع نظر کر کے بالکل غیر جائیدارانہ فکر و تدبر کیا جائے تواس نتیجہ پر پہنچتا نہایت آسان ہے کہ دھریت اورلا دینیت کی وبا کا دلوں پر چھا جانے کا نتیجہ شرافت عرب غیرت حمیت اورکرامت کا خون ہے اور شہوات حیوانیہ میں انہماک انسانیت کی موت ہے اور اگر دانشمند طبقہ اس موذی مرض کے قلع قمع کی طرف ہمہ تن مصروف نہ ہو تو بعید نہیں کہ یہ وبا ہمہ گیربن کر ناموس  انسانیت کو تباہ و برباد کر دے اور اس صورت میں نیکی و بدی اچھائی و برائی اور خیرو شر کی لفظیں صرف لقلقہ لسانی تک محدود رہ جائیں گی میں اس مقام پرانتہائی سہل طریق سے دین کی ضرورت کوواضح کرتا ہوں تاکہ ہوشمند طبقہ کے لئے استفادہ آسان ہو انسان شکم ماد ر سے پیدا ہوتے ہی جو جذبہ اپنے ساتھ لاتا ہے وہ ہے خود پسندی اور حب نفس پس ہر مرغوب کی طرف ہاتھ بڑھانا اور اسے پورے اصرار سے حاصل کرنے کی کوشش کرنا اس کا فطر ی اور پیدائشی حق ہے  لہذا ارتقائی منازل طے کرتے ہوئے اس کے اندر یہ جذبہ بھی ترقی کرتا چلا جاتا ہے اور عین بڑھاپے کے عالم میں جب کہ تمام قوتیں کمزور ہو جاتی ہیں یہ جذبہ انتہائی زوروں پر ہوتا ہے اور انسان زندگی کے کسی دور میں اس جذبہ سے دست کشی کے لئے تیار نہیں ہوتا اور ہر مرغوب و محبوب شئی کا اپنی طرف جذب اس کی قوائے عاملہ کا اہم مشغلہ رہتاہے او راسی طرح حب نفس کی خاطر ہر مضر اور نقصان دہ شئے سے اسے نفرت کا ہونالازمی ہے پس جذب ودفع انسان کی فطرت اولیہ کا تقاضا ہے اور جب ہر انسان فطرتا محبوب کا جذب اور پردہ کا دفع فطرت میں لے کر آیا ہے تو محبوب اشیا میں تجاذب کا ہونا ضروری ہے کیونکہ ہر ایک کی کوشش ہوتی ہے کہ اچھی چیز میرے قبضہ میں ہو بنا بریں ہر اس طاقت سے وہ برسر پیکار ہو گا جواسے اس مقصد سے الگ کرنے کے درپے ہوتو اس کا لازمی نتیجہ تصادم اورباہمی فساد ہوگا پس ان فطری حقوق میں حد بندی کرنے کے لئے ایک ضابطہ کی ضرورت ہے تاکہ انسانی تمدن فنا نہ ہونے پائے ممکن ہے کہ کوئی کہنے والا یہ کہدے کہ ہر ملک کی حکومت وقت ان فطری حقوق کی حدود متعین کرتی رہتی ہے اور قانون کی حفاظت کے لئے ہر حکومت کے پاس ایک محکمہ ہوتا ہے جو تصادم کی روک تھام کرنے کے لئے کافی و دافی ہوتا ہے تو اس کاجواب یہ ہے کہ انسان کو چند اشخاص تک محدود نہ رکھئیے بلکہ اس کی پوری نوع کا جائزہ لیجئیے اولا توہر ایک ملک کی رعایا پراس ملک کی انتظامیہ کنٹرول قائم کرے گی لیکن اگر ممالک کے سربراہ خود جمہوری ہوں یا شخصی ایک دوسرے سے متصادم ہوں تو ان کو کونسی انتظامیہ کس قانون کے ماتحت قابو کرے گی نتیجہ میں فساد عالمگیر ہوگا ثانیا ہر ملک میں سلطان ورعایا کے ذہنی کا تصادم کو کون روکے گا جو ایک نہ ایک دن خارچی اور ظاہری انقلاب کی صورت میں بمودار ہو کر ملک و سلطنت کی تباہی کا باعث بن جایا کرتا ہے ثالثا بر سر اقتدار طبقہ ہمیشہ اپنے ذہن کے مطابق قوانین کی تشکیل کرتا ہے جو ضروری نہیں کہ واقعا انسانیت کی بھلائی کے کفیل ہوں اوریہی وجہ ہے کہ آئے دن قانون بدلتے رہتے ہیں خواہ حکمران نہ بھی بدلیں اور حکومت کی تبدیلی کے بعد تو قانون کا بدلنا ضروری ہے ہی پس ایک آدمی یا چند آدمیوں کی ملی جلی منشا کوتمام رعایا پر مسلط کرنا یقینا جذبات کو کچلنے کا موجب ہے جوکسی نہ کسی وقت فساد  کا پیش خیمہ بن کر سکتا ہے پس ان وجوہ کے ماتحت تمدن انسانی کو برقرار رکھنے کے لئے خالق کون و مکا ن اور موجد فطرت کی جانب سے انسانی وقار دامن کی بحالی و بقا ءکے لئے ہمہ گیر ضابطہ کی ضرورت ہے جس کی پاسداری خرمن امن انسانی کو بربادی سے محفوظ رکھنے کے لئے خالق کون و مکان اورموجد فطرت کی جانب سے انسانی وقار وامن کی بحالی و بقا ءکے لئے ہمہ گیر ضابطہ کی ضرورت ہےجس کی پاسداری خرمن امن انسانی کو بربادی سے محفوظ رکھے اوراسی ضابطہ کا نام دین اسلام ہے چنانچہ فرمایا ان الذین عنداللہ الاسلام اور اللہ کے دین کو پہنچانے کے لئے جو ذات متعین ہواکرتی ہے وہ نبی  ورسول کے مقدس لقب سے ملقب ہوتی ہے علاوہ بریں قانون کی گرفت سے ڈر کر خاموشی اختیار کر لینا ہی صرف امن کا ضامن نہیں ہو سکتا بلکہ اس ضابطہ میں ایسی جزئیات کا ہوناضروری ہے جو انسانوں کےلئے اصلاح نفس کو محرک ہوں اورجن کی بدولت انسان اپنے اختیار سےاپنے فطری تقاضوں پر کنٹرو ل کرنے کی جرات کر سکے کیونکہ انسان قدرت رکھتے ہوئے اپنے محبوب کو ترک نہیں کرتا مگر اس وقت جب کہ اس کے ترک سے کسی بہتر کے ملنے کی امید ہو پس اصلاح نفس و معاشرہ و تمدن کے لئے خالق کے تجویز کردہ دین اسلام میں ایسی تحریکات موجود ہیں جو انسان کی اصلاح اور اس کے فطری تقاضوں میں توازن پیدا کرنے کا موجب ہیں چنانچہ جنت و جہنم کا تصور انسان کے لئے دنیا میں ہر محبوب کے ترک کا محرک ہو سکتا ہے اور یہی تصور ہی انسانی کو متوازی حالات کی طرف دعوت دینے کا کفیل ہے کیونکہ جب دینی تعلیم کی روشنی میں یہ معلوم ہو گا کہ ایک ایسی ذات موجود ہے جو میری ہر حرکت و سکون کو جانتی ہے اورایک دن میں نے اس کے سامنے جواب دہ ہونا ہے توو ہ خود اپنے آپ کو سنبھالنے کی کوشش کرے گا پس معلوم ہواکہ دین ہی ایک ایسی حقیقت ہے جس کی پاسداری ناموس و شرف انسانی کی بقا ءکی ضامن ہے دیکھئیے جب انسان کو یقین ہوکہ زندگی صرف یہی ہے جو میں گزار رہا ہوں اور سعادت صرف یہی ہے جو میں محسوس کر رہا ہوں تو دریں صورت شہوات و لذات کی تحصیل کے لئے ہر ممکن طریقہ بلکہ ہر خطر ناک حربہ کو بروئے کار لانا بھی اس کا فطری و پیدائشی حق ہو گا اور اس سے کنارہ کشی یا دست برداری اس کی انتہائی بزدلی بلکہ جہل مرکب ہو گا بنا بریں اپنی زندگی کو پرلطف بنانے کے لئے ہر ذہ ہوش بے تاب ہوگااور حرص و ہوس کا بھوت اسے کبھی آرام سے بیٹھنے نہ دے گا پس یہ چیز فتنہ و فساد کی جڑ بن جائے گی لیکن بخلاف اس کے جب معلوم ہو کہ اس ظاہری اورعارضی زندگی کے بعدا یک دائمی زندگی بھی ہے جس میں دائمی خوشی یا دائمی غم ہو گا توا نسان کےلئے دنیا میں ہر بڑی سے بڑی قربانی آسان ہو گی تاکہ ہمیشہ کا سرور حاصل ہو پس دائمی عذاب سے بچنے کےلئے اس پر دنیا وی چند روزہ تکلیف کو برداشت کرنا سہل ہو گا اور اس صورت میں نہ برابر کا برابر سے تصادم ہو گا  اور نہ بڑے کا چھوٹے سے مقابلہ ہو گا بلکہ برابر والوں میں ایثار چھوٹوں میں صبرو حوصلہ اوربڑوں میں رحم و کرم کے محرکات پیدا ہو جائیں گے جن کی بدولت خون  خرابے سے دامن انسانیت پا ک و صاف رہے گا ہاں اس میں شک نہیں کہ بعض کریم النفس اور شرف الاصل لوگ ذاتی و طبعی طور پر اچھائی سے مانوس اوربرائی سے متنفر ہوا کرتے ہیں خواہ وہ کسی دین و ملت سے وابستہ ہوں یا نہ ہوں گویا وہ بذات خود نیک اور نیکی پسند  ہوتے ہیں لیکن ساری نوع انسانی کو ان پر قیاس نہیں کیا جا سکتا پس نوع انسانی کے لئے دین ضروری ہے ورنہ شرافت بلکہ انسانیت کی کشتی گرداب فنا میں آجائے گی نیز بعض نیک طینت لوگ یا شریف النفس انسان جو بغیر تربیت کے ذاتی طورپر ایک قابل زمین کی پیداوار ہوتے ہیں ان سے بھی پردہ غفلت دور کرنے کی ضرورت ہے تاکہ ان کی باگ ڈور بھی عقل سلیم کے ہاتھ میں ہوا ور اسی کے زبردست اعمال شریفہ و اطوار صالحہ کی طرف یا بصیرت اقدام کر کے پروان چڑھیں اورآزادنہ طورپر اپنے حسن اختیار سے نور معرفت  کی روشنی میں اس راستے پر گامزن ہوں جو صحیح  طورپر فلاح و بہبود دائمی کا ضامن ہے اور اس عالم کون میں ایسے بہت کم افراد ہوں گے جو مذکورہ بالا طریقہ سے شرف ذاتی اورکمال فطری کے حا مل ہوں خلاصہ یہ کہ انسانی کمالات کی تحصیل اور ناموس و شرف بشر کی بقا کا راز اسی میں مضمر ہے کہ انسان دین حق کے تابع ہو کر زندگی بسر کریں

ایک تبصرہ شائع کریں