التماس سورہ فاتحہ برائے والد بزرگوار،جملہ مومنین و مومنات،شھداۓ ملت جعفریہ ، خصوصاً وہ جن کا کوئی سورہ فاتحہ پڑھنے والا نہ ہو۔ یہاں کلک کریں

Search Suggest

روضہ خوانی کا مقدس فریضہ

3 min read

مجلسوں کا انعقاد اور امام باڑوں کی آبادی روضہ خوانی اورعزاداری کا قوم شیعہ کے ساتھ تعلق جسم و جان دار قالب و روح کا ہے اور قو م شیعہ کے پاس یہ ایک ایسی تبلیغی درس گاہ ہے جواقوام عالم میں سے کسی قوم کا نصیب نہیں ہوئی اورمیرا ایمان ہے کہ حضرت سید الشہدا کی عزاداری نجات اخروی کا بہترین ذریعہ ہے لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ روضہ خوانی کی آڑ میں ہر قسم کی دھاندلی کو برداشت کر لیا جائے بلکہ روضہ خوان ذاکر کے لیے اپنی حدود کا لحاظ رکھنا ضروری ہے اسے غیر ذمہ دارانہ بیانات سے گریز کر نا  چا ہیے پس اس کا بیان ذاکر ی تک محدود رہنا چاہیے علما کے اختلافی مسائل میں اس کا کود پڑنا دخل در معقولات ہے میں نے ایک اچھے خاصے سمجھدار صاحب منبر سے سنا ہے کہ ذاکر پر کوئی پابندی عائد نہیں کرنی چاہیے وہ نیک ہو یا بد اسے امام اجازت ہے جو چاہیے بیان کر ے آخر وہ ایک دن خود ہی سمجھ جائے گا نیز مصلے کے لئے تو عدالت شرط ہے لیکن منبری کے لئے عدالت کہیں بھی شرط نہیں ہے مجھے ایسے بیانات کو سن کر افسوس ہوتا ہے جب کہ اپنے مطلب کی تائید کے لئے شاطر مزاج لوگ بعض روایات کا سہارا بھی لے لیتے ہیں۔ لیکن مسلمات مذہب جو بالتواتر ثابت ہیں ان کو کچلنے اورمذہب کی توہین کرنے ہیں یہ لوگ ذرہ بھر جھجھک نہیں محسوس کرتے کیا امر بالمعروف اور انہی عن المنکر کے ضروری احکام سے یہ لو گ مستثنے ہیں کیا روضتہ خوان ذاکر کی غیر شرعی وضع و قطع اور غیر شرعی حرکات و سکنات دوسرے دیکھنے والوں کے لئے مذہب شیعہ کی سبکی کے موجب نہیں ہیں کیا کسی ذاکر کا فسق و فجور مجلس و منبر کے تقدس کے لئے چیلنج نہیں کیا ذاکر کی غلط کاریاں عوام کی جسارتوں اور بے راہ رویوں کی محرک و موید نہیں میرے خیال میں جس قدر غیر ذمہ دارافراد منبر پر مسلط ہیں انہیں صرف روضتہ خوانی تک محدود رہنا چاہیے کوئی اہل علم اس طرز عمل کو برا نہیں مانتا لیکن اپنی حدود سے آگے بڑھ کر عقائد مذہب کی دھجیاں اڑانا اور علما ی کے خلاف زبان کشائی کرنا نہایت غیر محدود طرز عمل ہے جو صرف تخریب ہی تخریب ہے فضائل آل محمد کے بہانہ سے توحید باری کے دامن کو تارتار کرنا خدمت مذہب نہیں اسی طرح دلائے آل محمد کے بیان میں اعمال اور فروع مذہب سےدست کش ہونا اور گناہوں پر لوگوں کو جرات دلانا ایسی غیر ذمہ دارانہ حرکات ہیں جن کو  آل محمد کبھی معاف نہیں فرمائیں گے اگر دلائے آل محمد کو ایسے رنگ میں بیان کیا جائے کہ نہ توحید و عدل کا پاس رہے نہ اعمال کے حسن و قبیح میں فرق رہے اور نہ قیامت کے حساب و کتاب کی عظمت رہےتو یہ دین سے کھلی ہوئی بغاوت ہے حق تو یہ ہے کہ دلائے آل محمد اس انداز سے بیان ہو کہ توحید و عدل کا عقیدہ سمجھ میں آجائے اور اعمال صالحہ سے محبت پیدا ہوا اعمال بد سے توبہ کی شوق اور آئندہ ان سے نفرت کا جذبہ پیدا ہو نیز قیامت کے حساب و کتاب کا خوف دلوں پرطاری ہوتا کہ سننے والے محمد  و آل محمد کی تعلیمات سے بہرہ ور ہو کر اٹھیں لیکن اس قسم کا بیان وہ لوگ ہی کر سکتے ہیں جو منبر کے اہل ہوں۔

ایک تبصرہ شائع کریں