التماس سورہ فاتحہ برائے والد بزرگوار،جملہ مومنین و مومنات،شھداۓ ملت جعفریہ ، خصوصاً وہ جن کا کوئی سورہ فاتحہ پڑھنے والا نہ ہو۔ یہاں کلک کریں

Search Suggest

علمائے اعلام کا مقام - مقتضائے عقل ۔ قرآنی فیصلہ

7 min read

علمائے اعلام کا مقام

جس طرح مبداءفیض کی خوشنودی اور نجات اخروی کے لئے معالم و ینیہ حجت خدا نبی و رسول یا اس کے صحیح قائمقام امام وقت سے حاصل کرنے ضروری ہیں اسی طرح چونکہ زبان غیبت میں عامتہ الناس کو بے مہار کمال الدین اسحاق بن یعقوب سے حضرت حجت کا تحریری ارشاد منقول ہے واما الحوارث نعتہ فارجعوا فیھا الی رواٰۃ احادیثنا فانھم حجتی علیکم وانا حجتہ اللہ علیھم یعنی پس آئندہ کے مسائل میں ان لوگوں کی طرف رجوع کرو جو ہماری حدیثوں کے راوی ہیں وہ میری جانب سے تم پر حجت میں اور میں ان پر حجت خدا ہوں اور بروایت احتجاج حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے ایک طویل حدیث میں مروی ہے فامامن کان من الفقھا صائنا لنفسہ حافظالدینہ مخالفا علی ھواۃ مطیعا لامرمولا ہ فللعوام ان یقلدوہ پس جو شخص فقہا میں سے اپنے نفس پر قابو رکھنے والا ہو دین کا محافظ خواہش نفس کا مخالف اوراپنے مولا کا اطاعت گذار ہو تو عوام کو اس کی تقلید کرنی چاہیے نیز کافی میں بروایت عمرو بن حنظلہ حضرت امام جعفر صادق سے ایک حدیث طویل منقول ہے کہ آپ نے ایک سوال کے جواب میں ارشاد فرمایا من کان منکم قدروی حدیثینا و نظر فی حلالنا و حرامنا و عر ف احکامنا فلیذ ضوابہ فانی قد  جعلتہ علیکم حاکما فاذا حکم بحکما فلم یقبلہ منہ فانما استخف بحکم اللہ وعلینا رداوالراد علینا کالراد علی اللہ وھو علی حدالشرک باللہ الخ یعنی جو شخص تم میں سے ہماری حدیثوں کاراوی ہواور ہمارے حلال و حرام میں نظر رکھتا اور ہمارے احکام کو جانتا ہوتو شیعوں کا چاہیئے کہ اس کے فیصلے پر رضا مند ہو جائیں کیونکہ ایسے شخص کو میں نےتم پر حاکم مقرر کیا ہے پس جب وہ ہمارے حکم کے مطابق فیصلہ کرے اور کوئی اس کو قبول نہ کرے تواس نے اللہ کے حکم کی توہین کی اور ہماری بات کی تروید کی اور ہماری تردید اللہ کی تردید جیسی ہے اور وہ شرک کی حدپر ہے الخ اسی طرح بروایت کشی حضر ت امام علی نقی علیہ السلام سے منقول ہے جب کہ آپ سے دو آدمیوں نے بذریعہ خط وکتابت دریافت کیا کہ ہم مسائل دینیہ میں کیسے لوگوں پراعتماد کریں تو آپ نے جواب میں ارشاد رفرمایا اعتمد ا فی دینکما علی کل مسن فی حبنا وکل کثیر القدم فی امرنا یعنی تم دینی معاملہ میں ایسے شخص پر اعتماد کرو جو ہماری محبت میں پختہ کا ارادہ ہمارے شرعی امور میں تجربہ کار ہو اس میں شک نہیں کہ جناب رسالت مآب اور اس کے اوصیائے طاہرین علیہم السلام تمام مسائل کے لحاظ سے مرجع خلق اور ملجائے امت تھے اقتدار ظاہری کے زمانہ میں توانہیں مسائل و ینیہ کے  علاوہ مطالب دینا ویہ میں بھی مرجعت کا ملہ حاصل تھی اور وہ تمام پیش آمدہ مشکلات کو بنفس نفیس خود یا بذریعہ وکلائے خاصہ و عامہ حل فرمایا کرتے تھی  پس جس طرح بلا اب رسالت مآب اپنے مقام پر وحی کی ترجمانی فرماتے اور لوگوں کی دینی و دنیا وی امور میں رہبر ی فرماتے تھے اور اطراف و اکتاف میں صحابہ کرام آپ کی نبا بت کا فریضہ ادا کرتے ہوئے  لوگوں کو حقائق اسلامیہ سے روشناس کرانے کا شرف حاصل کرتے تھے اور آپ کءنائبین اطراف مملکت میں فرائض تبلیغ ادا  کرنے پرمامور تھے مثلا بصر ہ میں عبدا بن عباس مدائن میں سلمان پاک اور مدینہ میں قشم بن عباس وٖٖغیرہ امام حسن علیہ السلام کی صلح کے زمانہ سے لے کر حضرت قائم آل محمد علیہ السلام کی غیبت تک جب کہ اہل بیت اطہار اقتدار ظاہری سے محروم کر دئیے گئے اس دور میں اپنے مقام پرآئمہ طاہرین علہیم السلام یکے بعد دیگرے مسائل دبینہ اورمعالم شرعیہ کی تبلیغ کے خود کفیل رہے اورمملکت اسلامیہ کےدور دراز کے علاقوں کے لئے علمائے اعلام ہی فریضہ نیابت خاصہ و عامہ ادا فرماتے رہے اورتمام شیعوں کو اپنے مقامی علما کی طرف رجوع کرنے کا حکم آئمہ طاہرین نے دے دیا تھا جیسا کہ کتب رجال میں صراحت ووضاحت سے مذکور و مسطور ہے چنانچہ زرارہ بن اعین محمد بن مسلم ابان بن تغلب ابو بصیر زکریا بن آدم یو نس بن عبدالرحمن اور ان کے علاوہ دیگر چند خواص کی طرف مسائل وینیہ میں رجوع کرنے کا حکم آئمہ کی جانب سے اپنے زمانہ کے دور کے بسنے والے شیعوں کے لئے مذکور ہے پس یہ بزرگوار با حسن وجوہ فریضہ نبابت سے عمومی حکم کے ماتحت علمائے اعلام تمام دنیائے شیعیت کے لئے مرجعت کا عہدہ رکھتے ہیں جیسا کہ ابھی ابھی چند احادیث بیان کی جاچکی ہیں جن کا مضمون علمائے اعلام کی نیابت کی سند ہے پس ان حقائق کے پیش نظر علماءسے رو گردانی اور ان کی تردید آئمہ کی تروید اور حکم خدا کی توہین کے برابر ہے جسے معصوم نے حد شرک سے تعبیر  فرمایا ہے۔

مقتضائے عقل ۔

عقل سلیم کا یہ مسلمہ ہے کی جو جس مقام کے اہل ہےا سے اسی مقام پررہنا چاہیئے اور اس کواس مقام سے بڑھانا افراط اور گھٹانا تفریط ہے پس جو جس فن کا ماہر ہے اسے صرف اسی فن میں مرجعت کا حق حاصل ہے اور اس کی اس فن میں رائے قابل قبول ہونی چاہیئے مثلا فن طب کا ماہر اپنے فن میں رائے کا حق رکھتا ہے اور اس فن سے تہی دست لوگ خواہ کسی دوسرے فن میں ماہر ہی کیوں نہ ہوں اس کے قول ک احترام کرنا ان کا عقلی و فطری فریضہ ہے اسی طرح ریاضی  کے ماہر کا اپنا مقام فن منطق کے ماہر کا اپنا مقام سائنس دان کاریگر وکیل اور مجسٹریٹ کا اپنا اپنا مقام ہے اسی حفظ مراتب کانام ہے انصاف و عدل اور یہی تمدن صحیح کا پیش خیمہ ہے پس اسی اصول کے ماتحت عالم دین کا مقام اپنی نوعیت کے لحاظ سے دینی مرجعیت ہے اور جو لوگ اس مرتبہ سے پست ہیں خواہ وہ کسی د وسرے فن کے لحاظ سے مرجعیت ہی کیوں نہ رکھتے ہوں انہیں دینی مشکلات میں عالم دین کے سامنے اپنی  رائے کے پیش کرنے کا حق نہین جس طرح کہ ان کے فنو ن میں عالم دین کو رائے زنی کا حق نہیں پہنچتا مثلا ایک شخص نے طبیعات میں اپنی عمر کا کافی حصہ خرچ کر کے اس میں کسی حد تک کمال حاصل کیا ہے اور وہ سائنس کی گتھیوں کو سلجھانے کی کسی حد تک صلاحیت رکھتا ہے تو وہ شخص جو عمر بھر علوم دینیہ اور مسائل شرعیہ کی بحث و تمحیص میں مصروف رہا ہے اسے کیا حق ہے کہ وہ مسائل طبیعہ میں رائے قائم کرے یا سائنس دان کے نظرئیے کو چیلنج کرے پس اسی طرح دنیا وی علوم کے ماہرین کا علوم دینیہ کے ماہرین کی رائے کے سامنے سرتسلیم خم کرنا دلدادہ کیوں نہ ہوں زہد و تقوی خضوع و خشوع کی دولت سے کس قدر سرشار کیوں نہ ہو ں اور عباد ت وریاضت میں ہر امکانی بلند ی کیوں نہ فائز ہوں وہ دینی مشکلات میں رائے زنی کا حق نہیں رکھتے انہیں عقل کے اس فیصلہ کے سامنے سرجھکانا پڑے گا کہ جس شخص نے تحقیق مذہب میں ایک وقت صرف کیا ہے بس اس کا دینی فیصلہ ہی قابل احترام ہے

قرآنی فیصلہ

اس سلسلہ میں اولاد  کسی ذی ہوش کو مجال انکار نہیں لیکن اگر مزید تسلی کی ضرورت ہوتو قرآن کریم کا حکم ہر ذی شعور مسلمان کے لئے آخری حکم ہے چنانچہ ارشاد پروردگار ہے 

وَمَا كَانَ الْمُؤْمِنُـوْنَ لِيَنْفِرُوْا كَآفَّـةً ۚ فَلَوْلَا نَفَرَ مِنْ كُلِّ فِرْقَةٍ مِّنْـهُـمْ طَـآئِفَةٌ لِّيَتَفَقَّهُوْا فِى الـدِّيْنِ وَلِيُنْذِرُوْا قَوْمَهُـمْ اِذَا رَجَعُـوٓا اِلَيْـهِـمْ لَعَلَّهُـمْ يَحْذَرُوْنَ پ 11 سورہ توبہ آیت ع 122

ترجمہ مومنوں کے لئے مناسب نہیں کہ سب کے سب کو چ کریں پس ایسا کیوں نہیں کرتے کہ ہر قوم میں سے ایک ایک گروہ دینی تعلیم حاصل کرنے کے لئے کوچ کرے اور واپس آکر اپنی قوم کو تبلیغ کرے تاکہ وہ مخالفت خدا سے خوف کریں اور آئمہ طاہرین سے متواتر روایات منقول ہیں جن سے ثابت ہے کہ یہ آیت تحصیل علوم دینیہ کے وجوب کو ثابت کرتی ہے چنانچہ لولا کا تحضیضی کلمہ بھی اس پر شاہد ے اورعلم دین حاصل کرنے کی غرض جو قرآن نے بتائی ہے وہ ہے انداز یعنی اپنی اپنی قوم کو تبلیغ کرنا اور گناہوں سے ڈرانا تو پس جب علم حاصل کرنے والے پر انداز و تبلیغ واجب ہے تو سامعین جوان کہ قوم ہے ان پر  قبول کرنا بھی واجب ہونا چاہیئے پس اس آیت مجیدہ میں تعمق کرنے سے عالم کا مرتبہ صاف معلوم ہوگیا اور یہ بھی معلوم ہو گیا کی جو اس مرتبہ کا اہل نہیں اس پر قبول کرنا واجب ہے اور اسے اپنی رائے پیش کرنے کا کوئی حق نہیں ہے اور  اسی کا نام تقلید ہے۔

ایک تبصرہ شائع کریں