ویسے تووہ حضرات جنہوں نے ان کا علمی بحر وذخار سے سیرابی حاصل کر کے اپنی عملی پیاس بجھائی یا بجھانے کی کوشش کی میرے بس کاروگ نہیں کہ ان کو شمار کر سکوں البتہ ان کے تلامذہ میں سے چند مشاہیرکا ذکر ہی میرے لئے ممکن ہے اور اسی پر اکتفا مقصد کی وضاحت کے لئے کافی ہے
1.
استاد العماءسید الفضلا استاذی و
استاد لاذکیا مولانا سید محمد باقر شاہ صاحب قبلہ مدظلہ العالی جنہوں نے آپ سے
ابتدائی تعلیم حاصل کر کے مراجعت فرمائے
وطن ہوئے اور تقسیم ملک سے تقریبا آٹھ نو برس پہلے چک نمبر38 میں درس و
تدریس کی باقاعدہ ابتداءفرمائی پھر باب العلوم میں کچھ عرصہ رہے ٹھٹھہ سیالاں میں
کچھ عرصہ قیام فرمایا اس کے بعد جلالپور ننگیانہ میں تشریف لائے اور تشنگان علوم
دینیہ کو جی بھر کر سیراب کیا اور قبلہ مرحوم کے بعد آپ ہی اس قابل ہیں کہ ان کو
استاد الکل کہا جائے اور اس وقت پاکستان میں جس قدر افاضل موجود ہیں ان میں سے
اکثر ان کے علمی سمندر سے سیراب شدہ ہیں موصوف آج کل مدرسہ باب الہدی علی پور میں
تدریسی فرائض انجام دیتے ہیں حقیقت یہ ہے کہ پاکستان میں مدارس دینیہ کی
باقاعدگی اور ان میں فقہ و اصول کی آخری
کتابوں کی تدریس کا سلسلہ انہیں سے جاری ہوا اور مدرسہ دارالعلوم جعفریہ خوشاب بھی
ان ان کی مساعی جمیلہ کا نتیجہ ہے خداوند کریم قوم کوا ن سے زیادہ سے زیادہ
استفادہ کی توفیق مرحمت فرمائے
2.
استاد العماءسید الاذکیا مولانا السید
محبوب علی شاہ صاحب مرحوم اعلی اللہ مقامہ آپ مولاناکے دور اول کے شاگردوں میں سے
تھے اور اپنے دورکے امام النحو شمار ہوتے تھے باقی علوم کی بہ نسبت ان کو علوم
عربیہ سے خصوصی دلچسپی حاصل تھی ان کا اوڑھنا بچھونا درس و تدریس ہی تھا فن طب اور
کشتہ جات میں بھی کافی دسترس رکھتے تھے اور علم کلام میں بھی کافی مہارت کے مالک
تھے بہت لوگوں نے ان سے شرف تلمذ حاصل کیا ان کے ارشد تلامذہ آج تک خدمت دین میں
مصروف ہیں انہوں نے ضلع سرگودھا کے مشہور شہر خوشاب میں سکونت اختیار فرما رکھتی
تھی اور یہیں ان کا سلسلہ تدریس قائم تھا ان کی خودداری ضر ب المثل ہے ہفتوں فاقہ
کے باوجود ست سوال دراز کرنا اپنی توہین سمجھتے تھے بلکہ کسی سے کچھ لینا اپنی شان
کے منافی سمجھتے تھے البتہ ہدایا کو خندہ
پیشانی سے قبول فرما لیا کرتے تھے نیز اپنی آمدنی کا بیشتر حصہ ا ن کے کتب خانہ
کی نذر ہو جاتا تھا لیکن افسوس کہ ان کے بعد ان کا کتب خانہ بالکل تلف ہو گیا
کیونکہ ان کی اولاد میں سے کوئی بھی کتب کا قدر دان نہ نکلا ان کی وفات تقسیم ملک
کے سال بعد یا اس کے قریب قریب ہوئی
3.
استاد العما و سید الفضلا مولانا
السید گلاب شاہ نقوی مدظلہ ان کا وطن مالوف ضلع کیمبل پور میں ہے اور اس وقت مخزن
العلوم الجعفریہ شیعہ میانی میں سلسلہ تدریس قائم کیا اور جلیل القدر علماءان کے
علمی خزانہ سے فیض یاب ہو کر خدمت دین کرنے پر موفق ہوئے علما ءمیں آپ کا تقدس و
زہد ضر ب المثل کی حیثیت رکھتا ہے مطالعہ کتب ان کا مرغوب مشغلہ ہے نیز حق گوئی
اور امر بالمعروف و نہی عن المنکر میں جرات کا مظاہر ہ ان کا خلا صہ ہے اور یہی
وجہ ہے کہ دور حاضر کے مطلق العنان بعض صاحبان منبر کی مختلف اوقات میں ان سے ٹکر
ہوئی اور آخر کار ان کو سر تسلیم خم کرنا پڑا اور چونکہ غلطی پر ٹوکنے والا اچھا
نہیں لگتا لہذا غیر محتاط صاحبان منبر کے نزدیک امم سالفہ کے قدیمی دستور کے مطابق
تمام ترالزامات اور طعن و تشنیع کا اولین مستحق انہی کو قرار دیا گیا لیکن باطل کی
صف آرائی اور ہای ہو ان کے پائے ثبات میں
لغزش نہ لاسکی انہوں نے ڈٹ کر باطل موجوں کا سامنا کیا اور اس کی طوفانی لہروں کا
کوہ گراں بن کر مقابلہ کیا پس فتح و کا مرانی نےان کے قدم چوم لئے اور لوگوں نے حق
کی آواز کو پہچان لیا خداوند کریم قوم پر ایسے علماءکا سایہ تا دیر رکھنے موصوف
آقائے سید محسن الحکیم طبا طبائی نجفی قدس سرہ کے پاکستان میں وکیل خاص بھی رہے
ہیں
4. مولانا
السید عبد الستار شاہ مرحوم جو تقدس میں اپنی نظیر آپ تھے علاقہ پنجگرائیں ضلع
میانوالی کے رہنے والے تھے مولانا قدس سرہ کو نہایت پیارےتھے اور ان کی موت سے
مولا نا کو ناقابل برداشت صدمہ پہنچا تھا
5. مولانا
عبدالحسین خان جو مذہب حقہ کی تبلیغ میں ایک بلند مقام رکھتے تھے بہت کافی تعداد
میں مومنین کرام مذہب حقہ کے اصول و فروغ کا ان سےدرس لے کر اپنی نجات کا سامان
فراہم کر چکے ہیں علاقہ بھکر میں جو عملی تبلیغ آپ نے انجام دی وہ آپ کے شغف
دینی کی بولتی ہوئی زبان ہے چنانچہ مدرسہ باقر العلوم کوٹلہ جام جو مولانا حافظ سیف
اللہ صاحب جعفری کی تحریک سے قائم ہوا اس میں مولانا موصوف کی مساعی جمیلہ کو بڑا
دخل ہے
6. مولانا
السید الطاف حسین شاہ قدس سرہ یہ مولانا کے اپنے عزیزوں میں سےتھے انہوں نے علوم عربیہ
میں کافی حد تک دسترس حاصل کی اور حالات حاضرہ کے ماتحت انہوں نے حکومتی تعلیمی
اداروں میں سلسلہ تدریس کو اپنایا اس وقت ان کے تلامذہ بڑے بڑے حکومتی عہدوں پر
فائز ہیں لیکن ملازمت کے باوجود مولاناکی تربیت کا اثر ان سے زائل نہ ہوا متانت
دیانت امانت صداقت اور جملہ امور میں شریعت کی پاسداری ان کا لائحہ زندگی رہا ان کی وفات 1979 میں ہوئی
اور مولانا مرحوم کے چھوٹے شہزادے آقا سید زین الدین حسین ان کے داماد ہیں
7. مولانا
السید غلام عباس شاہ مدظلہ یہ بھی مولانا کے اپنے خاندان کے فرد ہیں علوم عربیہ
میں کافی دسترس حاصل کرنے کے بعد انہوں نے حکومتی ادارہ تعلیم میں ملازمت اختیار
فرمائی فن خطابت میں بھی اچھی مہارت رکھتے ہیں مولانا مرحوم کی تربیت کے آثار ان
کی سیرت و صورت سے ہویدار ہیں آج کل بھکر میں قیام فرما ہیں اور علاقہ کے مومنین کی
ہر قسم کی امداد و اعانت کرنا ان کا طرہ امتیاز ہے احکام شریعت کی حفاظت و اطاعت
ان کا جزو زندگی ہے
8. مولانا
سید آغا محسن شہید بن مولا نا سید شرف حسین شاہ اعلی اللہ مقامہ ان کو مولانا سے
شرف تلمذ حاصل تھا نہایت نیک طینت شستہ مزاج تھے آپ فن تقریر میں کافی مہارت رکھتے تھے آخر
ایک دشمن اہل بیت کے ہاتھوں جام شہادت نوش فرما کر اللہ کو پیارے ہوگئے ان کا لڑکا
آغا سید حیدر حسن نیک اورلائق نوجوان ہے جو اس وقت فاضل عربی کا امتحان د ے کر
خدمت دین میں مصروف ہے
9. مولانا
خادم حسین مرحوم یہ میرے عم زاد بھائی تھے اور میری ہی تحریک سے انہوں نے تحصیل
علوم دینیہ کی طرف قدم اٹھایا تھا ابتدا میں ان کو طبیعت غیر شائستہ تھی جس سے
مولانا مرحوم کو مایوسی ہوئی تھی لیکن مولانا کے زہد و تقوی اور تقدس کا رنگ ان پر ایسا چڑھا کہ چند
دنوں کے اندر ان کی کایا پلٹ گئی اور مولانا مرحوم ان کے ذہنی انقلاب سے اس قدر
متاثر ہوئے کہ ان کو اپنے حقیقی بیٹوں کی طرح سمجھنے لگے حتاکہ وہ جہاں جاتے یہ ان
کے ساتھ سایہ کی طرح چمٹے رہتے اورآخری سفر زیارت میں مولانا کی خدمت کا شرف ان
کو حاصل تھااور سرکار مولانا کو ان پر اعتماد کلی تھا بہر کیف انہوں نے مولانا کی
خدمت اس طرح کی جس طرح کسی لائق شاگرد کواستاد کی کرنی چاہیئے
سفر زیارت سے واپس آکر مرحوم
بیمار ہو گئے چنانچہ ایک سال کے قریب بستر علالت پر رہنے کے بعد 2 جنوری 1950 کوا
انہوں نے داعی اجل کو لبیک کہا مولانا کو جب مولوی خادم حسین مرحوم کی خبر مرگ
پہنچی تو بے حد متاثر ہوئے اور اپنی زندگی کے آخری لمحات تک وقتا فوقتا ان کو یاد
فرمایا کرتے تھے مرحوم مولانا سید طالب حسین شاہ قدس سرہ کے پاس چکڑالہ میں بھی
تحصیل کو یاد فرمایا کرتےتھے پس ان دونو ں بزرگوں سے تلمذ کا شرف ان کو حاصل تھا
دیانت امانت ان کا شیوہ زندگی تھا اپنے
وطن مالوف جاڑا میں ان کے دینی شغف کے آثار آج تک یادگار ہیں اور اپنے بیگانے ان
کی تعریف میں اب تک رطب اللسان ہیں جاڑا کی شیعہ جامع مسجد کے سامنے وضو کے لئے
پختہ برآمدہ اور امام باڑا کی تعمیر مرحوم کی مساعی جمیلہ کی بولتی ہوئی زبانیں
ہیں مرحوم نے عالم شباب میں وفات پائی اور ان کی وفات ان کے والدین کےلئے ناقابل
برداشت صدمہ ثابت ہوئی چنانچہ ان کی وفات کے فورا بعد ان کے والدہ کا انتقال ہوگیا
اور ان کے والد ملک جان محمد مرحوم مہلک مرض میں مبتلا ہو گئے جوکافی عرصہ تک
بیمار رہنے کے بعد 1956 میں ملک بقا ءکی طرف چل بسے اور ان کی قبر جامعہ علمیہ باب
النجف کے صحن میں جامع مسجد کے پیچھے شمالی مغربی گوشے کے قریب ہے مولوی خادم حسین
مرحوم نے ایک لڑکا محمد رضا اور ایک لڑکی اپنے پیچھے چھوڑے ہیں مولانا کاظم حسین
صاحب اثیر جاڑوی فاضل قم ان کے داماد ہیں