بندہ حقیر مصنف کتاب بھی ان کے علوم و فیوض کے بحر ذخار سے استفادہ کا شرف رکھتا ہے چنانچہ میں نے جب سے ہوش سنبھالی اور ابتدائی اردو تعلیم مڈل تک حاصل کر لی تو والد بزرگوار ملک اللہ بخش بن ملک خان محمد مرحوم کو شوق پیدا ہوئی کہ علوم دینیہ کے لئے کسی دینی درس گاہ کی تلاش کی جائے چنانچہ بصورت ذاکری چک نمبر 38 میں تشریف لائے اور واپس عزم صمیم لے کر پلٹے کہ اپنے لڑکے کو مولانا سید محمد باقر کے حوالہ ہی کر وں گا چنانچہ 1930 کے اواخر میں وہ بنفس نفیس سفر کی صعوبتیں برداشت کر کے چک نمبر 38 مجھے لے گئے اور مجھے ا ن کے سپر د کرکے واپس مراجعت فرما ہوئے چنانچہ میں نے ان کی خدمت کو اختیار کر لیا تاکہ ان کے فوائد سے خوشہ چینی اور ان کے علمی دستر خوان سے ریزہ چینی کرتا ہوں میرے والد بزرگوار کی انتہائی خواہش کمال شوق اورمیلان طبع صرف ایک فن کی طرف بہت زیادہ تھا اوراس پر وہ فریفتہ و عاشق تھے یعنی فن بیان و گویائی وہ چاہتے تھے کہ میرا فرزند ایک بلند پایہ خطیب ہو لیکن قبلہ و کعبہ کا نظریہ میری ذہنی استعداد کا جائزہ لیتے ہی یہ تھا کہ اسے علوم میں تکمیل حاصل کرنی چاہئے ظاہر ا یہ دونوں نظرئیے ایک دوسرے کے متضاد تھے اور ہر ایک کے مبادی و غایات ایک دوسرے سے بالکل الگ الگ تھے میں نے اپنے استاد کی خواہشات کا بصد احترام لحاظ کرتے ہوشٖغف علمی کو ہی اپنا مال زندگی قرار دیاپس ہروقت کتب کے ساتھ چمٹا رہتا تھا حتاکہ تحصیل و تعطیل کے ایام میرے لئے برابر تھے اور میری اس عملی محبت کی وجہ سے مولانا کو میرے ساتھ بے حد انس تھا پس میں مدارج ارتقا میں قدم آگے بڑھاتا گیا اوروالدین کی دعاوں اوراستاد مہربان کی شفقت کی بدولت فتح و کا مرانی میرے لئے چشم براہ بنتی چلی گئی میرا مطح نظر صرف علوم کی بلندیوں کو سر کرناتھا اور پس فن تقریر و خطابت کا سائیہ تک میرے دل میں نہ گزرتا تھا یہ الگ بات ہے کہ والدین کی خواہش اور استاد محترم قدس سرہ کی منشا ہر دو بفضل خدا وندی باحسن وجوہ پوری ہوئیں چنانچہ اللہ نے علوم دینیہ میں سیر حاصل بصیرت حاصل کر نے کے بعد مجھے تحریر کے لئے قلم مضبوط بھی عطا ہوا جس کی بدولت میں اظہار خیال پر اچھی طرح موفق ہوتا ہوں اور اسی کی بدولت تفسیر قرآن لکھنے پر توفیق سدید پائی ہے اگرچہ میرے حاسدین کو میری ان کامیابیوں کا کافی دکھ ہے لیکن ذالک فضل اللہ یوتیہ من یشا ءواللہ ذوالفضل العظیم بعض ناموزوں حالات کی بنا پر مجھے ایک عرصہ تک علوم دینیہ کو ترک کرنا پڑا تھا لیکن تائید غیبی اور لطف خدا وندی نے دستگیری کی اور مختلف مدارس دینیہ کا چکر لگانے کے بعد 1945 میں پنجاب یونیورسٹی کے مولوی فاضل کا امتحان فست ڈویژن میں پاس کیا پھر اہل سنت کے درسوں میں فنون مروجہ منطق و فلسفہ و معنی بیان و ہیت و ادب وغیرہ کی تحصیل مں ایک مدت عمر خرچ کی اور کچھ عرصہ تدریس کے بعد نجف اشرف جانے کی سعادت حاصل ہوئی علوم دینیہ و معارف ربانیہ کی تحصیل کا عشق بحدجنوں دل و دماغ پر مسلط تھا جس کی بدولت اپنی عمر کا شاندار حصہ اور زندگی کا بارونق ٹکڑا میں نے اس پر خرچ کیااور یہ اسی عشق کا کارستانی تھی کہ مجھے جوانی کے پر کیف دور کی قربانی پر توفیق حاصل ہوئی پس خوبی قسمت اور یاوری بخت سے ایسے ماہر فن اورکامل استاد دستیاب ہوئے کہ اس زمانہ میں ان کا وجود نایاب ہے میں نے ان کے عملی خزائن اور فنی ذخائر سے کافی استفادہ کی اور ان کے فضل و کمال کے صاف و شفاف اور شیریں و جاری چشموں سے جی بھر کر سیرابی حاصل کی یہاں تک کہ جو کچھ میرے لئے میسر ہو سکا اور جس قدر میں نے چاہا یا جتنا عنایت عالیہ کی مشیت میں تھا میں نے حاصل کر لیااور باب علوم نبویہ کی بارگاہ قدس سے وداع کے وقت میں نے اپنے دل سے عہد کیاتھا کہ خدمت دین اور ترویج علوم آ ل محمد کو اپنی زندگی کا لائحہ قرار دوں گا چنانچہ 1955 میں وطن مالوف میں پلٹے ہی اس کی دھن میں لگ گیا اور انتہائی نازک حالات کے باوجود جامعہ علمیہ باب النجف کا سنگ بنیا د رکھ دیا جس کا مفصل تذکرہ تفسیر انوارالنجف کی ابتداءمیں کر چکا ہوں اور مدرسہ کاتقشہ تفسیر کی دوسری جلد میں پیش کیاگیا ہے بہر کیف تائید غیبی نے پشت پناہی کی اور نصرت نے قدم چومے ایک کامیاب مدرسہ کی تشکیل ہوگئی اورآج علوم آل محمد کی تحصیل کرنے والوں کی ایک معتدیہ جماعت اس مدرسہ سے استفادہ کر کے مختلف مقامات پر خدمات مذہب انجام دے رہی ہے کچھ بیش نماز ہیں کچھ مدرس ہیں بعض خطیب و واعظ ہیں اور کچھ تکمیل علوم کے بعد عراق سے واپس آ چکے ہیں اگر خود نمائی اور کبریائی کا لحاظ نہ ہوتا تو بعض اپنے ارشد تلامذہ کا ذکر زینت کا غذ بنا لیتا جیسا کہ بعض چھر چھر ے لوگوں کا دستور ہواکرتا ہے لیکن میں اس کی ضرورت نہیں سمجھتا بہر کیف حقیقت اوربناوٹ میں عقلا خود تمیز پیدا کر سکتے ہیں
میں نے جب اپنے پس ماندہ علاقہ میں مدرسہ باب النجف کی تعمیر میں کامیابی حاصل
کر لی اور اسے خیال دوہم کی منزل سے نکال کر ایک زند ہ حقیقت کے لباس میں پیش کر
لیا تو حوصلے بڑھ گئے پس تصنیف و تالیف کا خیال مضبوط ہوا وہ نجف اشرف کے قیام کے
دوران میں قرآن مجید کی تفسیر لکھنے کے متعلق تھا اور نامساعد حالات کی بنا پراب
تک قابل عمل نہ بن سکا تھا پس اسے عملی جامہ
پہنانا شروع کر دیا اور مناسبت سے اس کا نام تفسیر انوار النجف رکھا پہلے پہلے میں نے جب اپنا ارادہ قبلہ و
کعبہ مرحوم کے سامنے پیش کیا تھا توآپ نے میرے اس خیال کی تائید نہ فرمائی لیکن
کتاب کی جلد اول چھپ جانے کے بعد جب مطالعہ فرمایا توآپ داد دئیے بغیر نہ رہ سکے
تھے