جہاں تک عقل کام کرتی ہے انسان کے لئے کسی قوم کا سردار بن جانا یا کسی
جاگیردار جائیداد کا مالک ہو جانا عالی شان محلات کا تعمیر کرنا اوراسباب عیش و
عشرت میں فراوانی حاصل کرنا حتی کہ دنیا وی بڑ
ے سے بڑے اقتدار کو ہاتھ میں لے لینا ملاک شرف اورمدار عزت و کمال نہیں اور
نہ اس سے اس کی غرض خلقت پوری ہوتی ہے بلکہ شرف انسانی اور کمال بشری کا راز اس
میں ہے کہ انسان اپنی چند روزہ زندگی میں منشائے خالق کے ماتحت اپنی قوم و ملت کی ایسی خدمت کر جائے جوا س کے نام کو صفحہ
ہستی سے کبھی مٹنے نہ دے خواہ مال و دولت کے ذریعے سے خواہ علم و ہنر کے ذریعے سے
اور خواہ خطابت یا شجاعت کی بدولت ہوتواس کے لئے ضروری ہے کہ پہلے خود تحصیل کمال
کرے اور پھر اس کے ذریعے سے قوم کی بھلائی کا بیڑا اٹھا ئے لہذا کمالات مذکورہ
بذات خود شرف نہیں بلکہ شرف کا زینہ و وسیلہ میں یعنی مال خود شرف نہیں بلکہ شرف
حاصل کرنے کا وسیلہ ہے اسی طرح علم و ہنر خود شرف نہیں بلکہ شرف کمال حاصل کرنے کا
ذریعہ ہیں اسی طرح خطابت یا شجاعت کا جوہر کما ل وشرافت کی تحصیل کا زینہ ہے پس
شرف اس میں ہے کہ انسان ان کمالات کے
ذریعہ سے قو م و ملت کی کوئی ٹھوس خدمت کرے ان سے ہر قسم کی تکالیف و پریشانیوں
کودور کر کے ان میں راحت و سرور کی لہر دوڑائے
خود داری کی خفاظت کرے افکار کی انتشار سے نگہداشت کر ے احسان و حسن سلوک
کی ترتیب کرے اور ناموس مذہب اوراصول ملت
کی پاسداری و حمایت کرے گویا شریف وہی ہے جس کاذکر خدمت قوم و مذہب کی بدولت زندہ ہوجائے اور قانون مکانات کی رو سےاس کا حق شکر
افراد قوم پر تازیست باقی رہ جائے ۔
حضرت سیدالشہدا امام حسین علیہ السلام کی ذات وہ ہے جس نے اسلامیان عالم کی
گردنیں اپنے احسان عمیم اورفیض جسم کے سامنے جھکا دیں جس کا حق شکر تا قیام قیامت
تمام اہل اسلام پر فرض و واجب ہے لیکن خراج تحسین یہ نہیں کہ ان کے ذکر کا تکرار
اوران کی مدح و ثنا کا درد صرف زبان تک محدود رہے بلکہ ان کا حق شکر یہ ہے کہ ذکر
لسانی سےآگے بڑھ کر ان کا کامیاب مقصد اورتابناک اصولوں کی حمایت کی جائے جن
اصولوں کو انہوں نے اپنایا تھا ان کو اپنایا جائے اور جن فروعات کوانہوں نے زندہ
کیا تھا ان کو زندہ کیا جائے حضرت امام حسین علیہالسلام کا ذکر دنیا کی آبادی کے
اکثر انسان حتی کہ ہندو سکھ عیسائی وغیرہ تک کرتے ہین لیکن ہمارے نزدیک ان کے ذکر
کی کوئی قدر نہیں کیونکہ وہ حسینی اصول سے غافل اورفروع کے دشمن ہیں پس حسین سے
محبت کرنے کا صحیح طریقہ یہ ہے کہ اس دین سے محبت کی جائے جس کی بقا کےلئے حسین کو
محبت تھی ان کی بجا آوری میں کوئی دقیقہ فرد گذاشت نہ کیا جائے اور جن افعال بد
سے حسین کو نفرت تھی ان سےنفرت کیجائے اوریہی ہے حقیقی حینیت اور یہی ہے حسین کا
حق شکر جو ہماری گردنوں پرواجب الادا ہے حضرت رسالتمآب کا سب امت پر بہت احسان
ہےکہ انہوں نے خدا کا دین ہم تک پہنچایا اوران کے بعد حضرت علی سے لے کر مہدی تک
تمام آئمہ کا بالعموم تمام مسلمانوں پراوربالخصوص قوم شیعہ پراحسان عظیم ہے کہ
انہوں نے دین کی حفاظت کی اوربڑی سے بڑ ی قربانیاں دے کر ہم تک دین کو پہنچایا
اوران کا حق شکریہ ہے کہ ہم ان کی زبانی تعریف اورلسانی مدح و ثنا تک محدود نہ
رہیں بلکہ ان کے بچائے ہوئے دین کے اصول فروغ کواپنی زندگی کا لائحہ عمل بنائیں اور اسی بنا پر حضرت صادق علیہالسلام کی
کافی میں فرمائش موجود ہے کونو النا زینا ولا تکونو اشینا یعنی ہماری زینت بن کر
رہو اورہمارے لئے باعث عیب نہ بنو معصومین علہیم السلا م کے بعد سب سےزیادہ شرف
لسانی اور کمال بشری کاسہرا ان بزرگان دین کے سر ہے جنہوں نےانتہائی پر خطر اور
تاریک دور میں ہر قسم کے تشدد و استبداد کا نشانہ بنتے ہوئے مظالم و مصائب کے سامنے
کوہ گراں بن کر ملت جعفریہ اوردین الہیہ کی محافظت کی اور اس عظیم مقصد کی خاطر
انہوں نے تن من اوردھن کی بازی لگا کر اپنے عزم صمیم کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کی
سعادت حاصل کی اور وہ علمائے اعلام کی ذوات مقدسہ ہیں جنہوں نے کبھی باطل کی تیز
سے تیزتر آندھیوں کے لےسامنے اپنے ضمیر کی آواز کو بلند کرتے ہوئے جھجک محسوس نہ
کی قیدو بند کی صعوبتیں جھیلیں جلا وطنی کی روح فرسا مصیبت برداشت کی اہل و عیال
سے جدائی اولاد کی ہلاکت اوردوستو ں کا فراق غرضیکہ سب کچھ ہنس کر برداشت کیا لیکن
دین کے چہرہ کو مسخ نہ ہونے دیا اوراعلائے کلمہ اللہ سےان کو بڑی سے بڑی طاقت باز
نہ رکھ سکی حتا کہ سر تن سے جدا ہوا اور زبانیں کٹ گئیں قدم جادہ حق سے نہ ہٹ سکا
اور یہ انہی کی قربانیوں کے اثرات ہیں جن کی بدولت ہم دلائے آل محمد کا دم بھر
رہے ہیں آج ان علمائے اعلام کے احسانات کا ہم سے وہی تقاضا ہے جو ان کے اسلاف کا
ان سے تھا یعنی یہ کہ دین کی مقدس امانت
انہوں نے ہر ممکن قربانی سے ہم تک پہنچائی اورہمارا فرض ہے کہ وہ مقدس امانت ہم
بعد میں آنے والی نسلوں تک پہنچائی اور ہمارا فرض ہے کہ وہ مقدس امانت ہم بعد میں
آنے والی نسلوں تک پہنچائیں اورانسان کا حقیقی شرف یہی ہے کہ قو م و ملت کی ایسی
خدمت کرے جو دائمی طورپر حق شکر کی سزا وار ہو۔