التماس سورہ فاتحہ برائے والد بزرگوار،جملہ مومنین و مومنات،شھداۓ ملت جعفریہ ، خصوصاً وہ جن کا کوئی سورہ فاتحہ پڑھنے والا نہ ہو۔ یہاں کلک کریں

Search Suggest

دین کے مصائب اوراس کی حالت زار

3 min read

ایک وقت تھا جب دین حقیقی اورمذہب اہل بیت کا تقدس اقوام عالم میںٍ مسلم  تھا اس دین سے وابستہ علما ءعاملین کےسامنے اہل خلاف کے اکابر علما ءکی گردنیں خم تھیں ان کے وقار عملی اورضبط عملی کے سامنے جہاں اقوام عالم کےعلماءدم بخود نظر آتے تھے وہاں سلاطین دہرا اور متکبرین زمانہ کو  تاج شہانہ اتار کر گھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہونا پڑتا تھا چنانچہ سلاطین عباسیہ کے دور میں سید رضی اور علم الہدی کی داستانیں اب تک زیب قرطاس ہیں اور اس گئے گزرے دور سے ذرا پہلے حکومت ترک کے سربراہ یا اس کے سفیر کا شیخ مرتضی انصاری اعلی اللہ مقامہ کےساتھ مکالمہ معروف و مشہور ہے نیز آقا سید ابوالحسن اصفہانی و شیخ محمد حسین آل کا شف الغطارءکے حکومت وقت کے ساتھ بیتے ہوئے واقعات زبان زد عوام و خواص ہیں یہ وہ حقائق ہیں جو مذہب کی صداقت اور دین کی قوت و عظمت کو اقوام عالم سے منوانے کے ناقابل تر دید  ذرائع ہیں ان کو دیکھ کر غافل ہوش میں آ جاتا ہے اورخواب رفتہ جاگ اٹھتا ہے اور اس کو مذہبی حقائق میں تعمق و تدقیق کرنے کی بے پناہ توفیق مل جاتی ہے پس علم و عمل  کی طاقت ہی مذہب شیعہ کے وقار کا بلند مینارتھی اور یہی طاقت تھی جس نے انگریزوں کو نجف اشرف پر حملہ کرنے کی جرات سے باز رکھاتھا اور یہی قوت تھی جس نے قاچار شاہنشاہوں کے متکبر انہ ارادوں کو توڑ کر انہیں مذہب کے سامنے سرنگوں ہونے پر مجبور کر دیا تھا لیکن افسوس کہ ہمارے ہاں طائر قدسی مذہب شیعہ اورہمارے شرف ملت جعفریہ کن کن مصائب کا شکار ہوا اور کیا کہوں کہ اس پر کیا بیتی یہ ایک ایسا اندوہ ہے جس سے جسم لرزتا ہے دل دھڑکتا ہے جگر کا نپتا ہے کلیجہ منہ کو آتا ہے سانس گلو گیر ہوتا ہے آنکھیں بے ساختہ برستی ہیں اور زبان تھراتی ہے کس منہ سے کہا جائے کہ اس کے اعضا ءکچل دئیے گئے اس کے پر نوچ لئے گئے اس کی  طاقتیں سلب کر لی گئیں اور اس کو بے دست و پا کر کے اس کا گلا گھونٹ دیا گیا نہ وہ بو ل سکتا ہے نہ آواز بلند کرسکتا ہے بس اب وہ ایک جسم بے جان کی مانند ہے جو جنگل میں کس مپر سی کی حالت میں پڑا ہوا ہواور درندگان صحرا اوروحوش ہوا اس کو نوچ رہے ہوں نہ اس کے ہاتھ ہیں کہ ان کو ہٹا سکے اور نہ اس کے پر ہیں کہ اپنے آپ کو محفوظ مقام تک پہنچا سکے بلکہ اب وہ تما م حشرات الارض کا طعمہ بن چکا ہے خدا کی قسم حسرتوں کا طوفان سینے میں موجزن ہے جس کا اڑتا ہوا دھواں آسمان فکر سے ٹکرا کر معانی و مطالب کے رنگ میں دماغ کی تختی پر اترتا ہے کبھی آنسو بن کر آنکھوں کے رستہ سے پانی کی شکل میں نمودار ہوتا ہے کبھی فرط رنج والم کی آہ بن کر نکلتا ہے کبھی داستان غم بن کر زبان سے الفاظ کےرنگ میں ظاہر ہوتا ہے اورکبھی عبارات و نقوش کی شکل میں صفحہ قرطاس پر ذہن بولتا جاتا ہے اور قلم اپنے دہانے سے اگلتا جاتا ہے ۔

ایک تبصرہ شائع کریں