التماس سورہ فاتحہ برائے والد بزرگوار،جملہ مومنین و مومنات،شھداۓ ملت جعفریہ ، خصوصاً وہ جن کا کوئی سورہ فاتحہ پڑھنے والا نہ ہو۔ یہاں کلک کریں

Search Suggest

علم وعمل میں مطابقت

2 min read

اس میں شک نہیں کہ ناموس حیات میں پہلا واجب اور زندگی کے ہر شعبہ میں انسان  کا اولین فریضہ یہ ہے کہ عمل و علم میں مطابقت ہواور چونکہ علوم جداگانہ ہیں لہذا ان کی مناسبت سے اعمال کی نوعیت الگ الگ ہے لیکن ہر عمل کی صحت کا معیار اس علم کی مطابقت سے ہے جس کا تعلق اس عمل سے ہو ورنہ کوئی عمل بغیر مطابقت علم کے مثل اس مکان کے ہے جو ناموزوں اورناپائیدار بنیادوں پر کھڑا کیاگیا ہو و ہ آج نہیں توکل اورکل نہیں تو پرسوں آخر کار منہدم ہو کر اپنے مالک کے لئے جان لیوا نہیں تو سوہان روح ضرور ہی بنے گا اسی طرح علم بغیر عمل اس بنیاد کے ہے جس پر تعمیر نہ ہو پس اس کا مالک ہمیشہ زیر آسمان زندگی بسر کر کے مصائب وآلام کا شکار ہی رہے گا اور سرماو گرما کی شدتیں آخر کار اسے صفحہ ہستی سے ایک دن حرف غلط کی طرح مٹا کر رکھ دیں گی پس علم و عمل میں یگانگت ہو چنانچہ روایت احتجاج  صاف صاف مذکور ہو چکا ہے او ر سچ پوچھئیے تو قوموں کی ترقی کا راز انہی دو قوتوں میں مضمر ہے اور یہ ایسے دو پر ہیں جن کے بغیر کوئی قوم اوج فخر تک نہیں پہنچ سکتی اور ایسے دو بازو ہیں جن کی طاقت و اعتماد کے سوا کوئی امت موج شرف میں غوطہ زن نہیں ہو سکتی بلکہ ہر مجد و شرف اور سیادت و سعادت کا دارومدار انہیں پر ہے اور انہیں کی قوت وارتقاع کی مقدار اقوام عالم کے مدارج ارتقاءاورمنازل عزم وا ستقلا ل کی استواری و پائیداری کا صحیح معیار ہے پس جو قومیں علم و عمل میں پست ہیں وہ اقوام عالم میں کبھی معراج کمال پر فائز نہیں ہو سکتیں اور نتیجہ یہ ہوا کہ علم کی رفعت اور عمل کی اس سے موافقت قوم کی عظمت کا بولتا ہوا ناقوس ہے پس نیک بخت ہے وہ قوم جس میں علم و عمل سے شوق و شعف  موجود ہو او رعلمائے عاملین کو اپنے فرائض کی ادائیگی میں پوری سہولتیں میسر ہوں ایسی قوم کو پھلنے پھولنے کا حق حاصل ہے اور بےشک وقار و شرف ایسی قوم کی قدم بوسی کے لئے بے تاب ہے۔

ایک تبصرہ شائع کریں